Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

آؤٹ آف دی باکس تھِنکنگ!

مسلمانوں کو ڈر ہے کہ انہیں شہریت کے حق سے محروم کر دیا جائے گا
اگر آپ نوکری کرتے ہیں تو اپنے باسز سے یہ سن سن کر پَک چکے ہوں گے کہ بھائی ’بگ پکچر پر فوکس کرو، ’آؤٹ آف دی باکس تھنکنگ‘ کے بغیر کچھ نہیں ہونے والا۔
آپ انہیں کتنا بھی سمجھانے کی کوشش کریں کہ ہم باکس میں کبھی تھے ہی نہیں، ہماری ساری تھنکنگ اور تمام آئیڈیاز بالکل اوریجنل ہیں، لیکن وہ مانتے کہاں ہیں؟
اب دلی کے الیکشن کی ہی مثال لے لیجیے۔
یہ غیر معمولی الیکشن اپنے اختتام کو پہنچ رہا ہے اور آپ کسی بھی تجزیہ نگار سے معلوم کر لیں، آپ کو یہ ہی سننے کو ملے گا کہ انتخابی مہم میں اتنی نفرت پہلے کبھی کسی الیکشن میں نہیں دیکھی۔
اب ذرا سوچیں کہ انتخابی مہم اگر پولنگ کے بعد چلائی جائے تو کیا نقصان ہے؟
مہم کا الیکشن سے پہلے ہونا ہی کیوں ضروری ہے؟ ایک بار سکون سے الیکشن نمٹ جائے اور ووٹرز کھلے ذہن سے اپنے نمائندوں کا انتخاب کر لیں، اس کے بعد سیاسی جماعتوں کو دو ہفتے، تین ہفتے، جتنے دن بھیں انتخابی مہم چلانا ہو، چلاتے رہیں، جو ایشوز اٹھانے ہوں اٹھاتے رہیں۔ جتنا زہر اگلنا ہو اگلتے رہیں، کوئی یہ نہیں کہہ سکے گا کہ الیکشن صاف شفاف نہیں تھا یا ووٹرز جذبات میں بہہ گئے تھے۔
جمہوریت کی جڑیں بھی مضبوط ہوں گی، ماحول بھی خراب ہونے سے بچ جائے گا اور ووٹروں کو یہ کہنے کا موقع بھی نہیں ملے گا کہ ’پانچ سال سے تو نظر نہیں آئے، الیکشن آتے ہی ووٹ مانگنے آ گئے۔‘

دلی اسمبلی کے انتخابی نتائج حکمران جماعت کے لیے بہت اہم ہیں، (فوٹو: اے ایف پی)

یہ دلی کی ریاستی اسمبلی کا چھوٹا سا الیکشن ہے جسے حکمران ’بی جے پی‘ نے اپنے لیے عزت کا سوال بنا لیا ہے، اگر پارٹی یہاں 2015  کی طرح دوبارہ ہار جاتی ہے تو بِگ پکچر پر دو چار چھوٹے چھوٹے داغ لگ جائیں گے، مخالفین وزیراعظم نریندر مودی اور ان کے نمبر ٹو اُمیت شاہ سے پوچھیں گے کہ آپ پورے ملک میں تو دندناتے پھرتے ہیں اور دلی نہیں جیت پائے! اگر ملک واقعی اتنی ترقی کر رہا ہے تو دلی والوں کو اس کی خبر کیوں نہیں ہوتی؟
اور جواب میں مسٹر مودی اور مسٹر شاہ کہہ سکتے ہیں کہ بھائی، یہ اتنا چھوٹا الیکشن تھا کہ کب شروع ہوا اور کب ختم، ہمیں تو خبر ہی نہیں ہوئی۔ ہم تو آپس میں بس یہ بات کر رہے تھے کہ شاہین باغ میں بریانی کہاں سے آ رہی ہے؟
ذرا توجہ ہٹی اور الیکشن گزر گیا!
ہر طرف بریانی، پاکستان اور ہندو مسلمان کا ذکر ہے، ایک طرف خود ساختہ محب وطن ہیں اور دوسری طرف ان سے اتفاق نہ کرنے والے ’غدار‘۔
اس وقت ووٹر صرف دو خیموں میں تقسیم کیے جا سکتے ہیں، ایک وہ جو انڈیا سے محبت کرتے ہیں اور دوسرے وہ جو پاکستان سے، اور ہر طرف ایک غیر معمولی نعرہ گونج رہا ہے ’دیش کے غداروں کو، گولی مارو سالوں کو!‘

شاہین باغ کا دھرنا ختم کروانا دلی انتخانی مہم کا اہم نعرہ تھا (فوٹو: اے ایف پی)

اب اس باریکی میں جانے سے کچھ حاصل نہیں کہ دیش کے غدار کون ہیں، لیکن یہ کہا جا سکتا ہے کہ عام طور پر ان میں سے کچھ بریانی پسند کرتے ہیں۔
ان میں سے کچھ احتجاج میں دلی کی ایک مصروف سڑک پر بیٹھی ہوئی ہیں۔ یہ شاہین باغ کی مسلمان عورتیں ہیں جو انڈیا میں شہریت کے ایک نئے قانون کے خلاف احتجاج کر رہی ہیں۔ انہیں ڈر ہے کہ حکومت مسلمانوں کو شہریت کے حق سے محروم کرنے کا منصوبہ بنا رہی ہے اور نیا قانون اسی راہ میں پہلا قدم ہے۔
وزیر داخلہ اُمیت شاہ کی ہر تقریر میں چار، چھ مرتبہ شاہین باغ کا ذکر نہ ہو تو بات نہیں بنتی۔
لیکن ان کا سب سے دلچسپ اور آؤٹ آف دی باکس بیان یہ تھا کہ ووٹر اتنی زور سے ووٹنگ مشین کا بٹن دبائیں کہ کرنٹ شاہین باغ میں محسوس کیا جائے! یہ بظاہر بجلی پیدا کرنے کا نیا صاف شفاف طریقہ ہے، نہ کوئلے کا استعمال نہ کوئی آلودگی، اور اسے شاہین باغ پرضائع کرنا زیادہ سمجھداری کی بات نہیں ہے۔

اُمیت شاہ کی ہر تقریر میں شاہین باغ کا ذکر نہ ہو تو بات نہیں بنتی (فوٹو: اے ایف پی)

ووٹ ڈالنے سے اگر بجلی پیدا ہوتی ہے تو انڈیا کے لیے بجلی سنبھالنا مشکل ہو جائے گا، یہاں تو پورا سال کہیں نہ کہیں الیکشن ہوتے ہی رہتے ہیں۔ جس ریاست میں بھی بجلی کی قلت ہو، وہاں الیکشن کرائے جائیں۔ چھوٹے موٹے پاور کٹ کے لیے تو بلدیاتی انتخابات ہی کافی ہیں۔
اور تعلقات اگر استوار ہو جائیں تو فاضل بجلی کو پاکستان کے قومی گرڈ سے بھی جوڑا جا سکتا ہے۔ پاکستان میں بجلی کی قلت بھی ختم ہو جائے گی اور اسے جھٹکے بھی لگتے رہیں گے۔
لیکن شاہین باغ واپس چلتے ہیں۔ اب یہ تو کسی کو نھیں معلوم کہ حکومت کے دل میں کیا ہے لیکن تمام تشویش وزیر داخلہ اُمیت شاہ کے ایک بیان سے شروع ہوئی تھی کہ پہلے شہریت کے قانون میں ترمیم ہو گی اور اس کے بعد پورے ملک میں شہریت کا رجسٹر ترتیب دیا جائے گا اور ملک میں جتنے بھی درانداز ہیں انھیں نکالا جائے گا۔ کچھ اسی انداز میں جیسے شمال مشرقی ریاست آسام میں کیا جا رہا ہے۔
دراندازوں کو نکالنے پر کسے اعتراض ہو سکتا ہے، بس مسئلہ یہ ہے کہ جو لوگ اپنی شہریت ثابت نہیں کر پائیں گے، ان میں سے ہندو تو نئے قانون کی وجہ سے بچ جائیں گے لیکن مسلمان نہیں۔ حکومت کا کہنا ہے کہ ابھی شہریت کا قومی رجسٹر بنانے کے بارے میں کوئی فیصلہ نہیں کیا گیا ہے، لیکن شاہین باغ میں احتجاج کرنے والوں کو سننے کی فرصت کہاں ہے؟ وہ تو بریانی کھانے میں مصروف ہیں!
بی جے پی کے ایک ترجمان امت مالویا نے ٹوئٹر پر ایک فوٹو اپ لوڈ کی ہے جس میں کچھ لوگ بریانی کھاتے ہوئے اور کچھ بانٹتے ہوئے نظر آ رہے ہیں۔
کیپشن ہے: یہ رہا ثبوت کہ شاہین باغ میں بریانی تقسیم کی جا رہی ہے! لیکن بھائی اتنی تفتیش کے بعد بھی آپ نے یہ نہیں بتایا کہ بریانی چکن کی ہے یا مٹن کی؟ اور جو لوگ بریانی کھاتے ہوئے پکڑے جائیں گے ان کے ساتھ کیا سلوک کیا جائے گا؟
اور اگر یہ لوگ چھولے بھٹورے کھا رہے ہوتے تو کیا تب بھی آپ اتنا ہی ناراض ہوتے؟

شیئر: