Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

حرا عمر کی جان کیوں گئی؟

اعضا کی غیر قانونی پیوند کاری میں ملوث کئی افراد گرفتار بھی ہوئے ہیں۔ فوٹو: اے ایف پی
حالانکہ عمر شریف کی صاحبزادی حرا کا کسی معقول ہسپتال میں کوئی پروفیشنل سرجن بلا خوف و خطر کسی کا عطیہ کردہ ٹرانسپلانٹ کر سکتا تھا اور شاید حرا زندہ بھی رہتی۔ مگر کیا سبب ہے کہ اداکار، اینکر اور پاکستان کے سب سے مقبول سٹینڈ اپ کامیڈین عمر شریف کی صاحبزادی کا آپریشن ایک ایسے سرجن کو کرنے کا موقع مل گیا جس کے خلاف کئی شہروں میں انسانی اعضا کی غیر قانونی پیوند کاری یا آپریشنز کے ذریعے مریضوں کی جان خطرے میں ڈالنے کے متعدد پرچے کٹے ہوئے ہیں۔ وہ ایک سے زائد مرتبہ حراست میں بھی لیا جا چکا ہے۔
انسانی اعضا کی پیوند کاری پر نگاہ رکھنے والا قومی ادارہ ہیومین آرگن ٹرانسپلانٹ اتھارٹی (ہوٹا) اور وفاقی تحقیقاتی ادارہ ایف آئی اے اس سرجن کے خلاف تحقیقات بھی کر رہا ہے۔ لاہور جنرل ہسپتال نے اسے تین برس سے معطل بھی کر رکھا ہے۔ اس کے خلاف ادارتی سطح پر چھان پھٹک بھی ہو رہی ہے۔ مگر تین برس گذر جانے کے باوجود یہ محکمہ جاتی چھان بین  مکمل ہو کے نہیں دے رہی۔
اس دوران عمر شریف کی صاحبزادی کیسے اس سرجن اور اس کے نیٹ ورک کے ہتھے چڑھ جاتی ہے؟ حرا کے بھائی جاوید عمر کے بقول 34 لاکھ روپے دینے کے باوجود حرا کا چھپ چھپا کے ہونے والا گردے کی پیوند کاری کا آپریشن ناکام ہو گیا اور جواں سال بہن موت کے منہ میں چلی گئی۔ سرجن ایک بار پھر فرار ہے۔
ہاں تو میں یہ کہہ رہا تھا کہ عمر شریف کوئی کنگلا فن کار تو نہیں ہے۔ توپھر ایسا کیوں ہوا؟ 
پہلی وجہ طلب اور رسد کی ہے۔ پاکستان میں ہر سال لگ بھگ دو لاکھ اموات صرف اس لیے ہو جاتی ہیں کیونکہ ان مریضوں کو جگر،  گردوں اور دیگر اعضا کے ٹرانسپلانٹ کی ضرورت ہوتی ہے۔ لیکن محض چند سو ڈونرز ہی ایسے ہوتے ہیں جو اپنا ایک گردہ یا جگر کا ایک ٹکڑا اپنے کسی پیارے یا پیاری کے لیے خوشی خوشی عطیہ کر سکیں۔

عمر شریف کے بیٹے نے بتایا کہ انہوں نے بہن کے آپریشن کے لیے 34 لاکھ روپے ادا کیے۔ فوٹو: اے ایف پی

 پاکستان میں انسانی اعضا کی پیوند کاری کے ایکٹ مجریہ 2010  کے تحت صرف قریبی رشتے دار یا ان کی عدم موجودگی میں دور پرے کے رشتے دار ٹرانسپلانٹیشن اتھارٹی کی اجازت سے اعضا عطیہ کر سکتے ہیں۔ اتھارٹی یہ اطمینان کرنے کے بعد اجازت دیتی ہے کہ آیا یہ عطیہ رضاکارانہ، بلا جبر و بلا معاوضہ دیا جا رہا ہے یا نہیں۔ بصورتِ دیگر محض پیسے سے کسی کے اعضا خریدنے کی سزا دس برس ہے ۔ مگر ان غیر قانونی اعضا کی پیوند کاری کرنے والے ڈاکٹر یا نیٹ ورک کو بھی کبھی باقاعدہ سزا سنا کے  جیل بھیجا گیا؟
انسانی اغصا کی قانونی پیوند کاری کا ایکٹ مجریہ دو ہزار دس کس قدر موثر ہے اس کا اندازہ یوں لگایا جا سکتا ہے کہ ستمبر دو ہزار سولہ میں روزنامہ ڈان میں ایک تفصیلی تحقیقی رپورٹ شائع ہوئی۔ اس  کے مطابق امیر مریضوں کے لیے غریب ترین افراد کے گردے ایک سے دو لاکھ کے درمیان خریدے جاتے ہیں۔ اور ان کے ٹرانسپلانٹ کے عوض امیر مریض سے 30 سے 60 لاکھ روپے تک وصول ہوتے ہیں۔ یہ پیسے ہسپتال یا پرائیویٹ کلینک، سرجن، دلال یا سرکاری اہلکاروں کے درمیان بٹ جاتے ہیں۔ رپورٹ کے مطابق زیادہ تر مجبور اور غریب ڈونرز کا تعلق سنہ 2000 سے 2016 تک کے سروے کے مطابق وسطی پنجاب کے علاقے کوٹ مومن، بھیرہ، سرگودھا وغیرہ سے تھا۔

پاکستان میں اعضا کی پیوند کاری کے لیے قانون سال 2010 میں بنایا گیا۔ فوٹو: اے ایف پی

سال 2008 میں ہاروڈ یونیورسٹی کے ایک تحقیقی پروجیکٹ کی سامنے آنے والی رپورٹ کے مطابق ڈونرز میں سے ستر فیصد جبری مشقت کے شکار اور قرض میں بندھے بھٹہ مزدور و کسان ہیں۔ ان میں سے نوے فیصد ان پڑھ ہیں۔اٹھاسی فیصد کو اپنے اعضا بیچنے  کے باوجود کوئی معاشی بہتری محسوس نہیں ہوئی ۔ بلکہ ایسے کیسز بھی سامنے آئے کہ گردہ بیچ کر ٹی وی یا موٹر سائیکل خرید لیا۔ ان میں سے اٹھانوے فیصد کی صحت گردہ نکلوانے کے آپریشن  کے بعد کبھی بھی ٹھیک نہیں رہی ۔ کیونکہ جس سرجن نے یہ کام انجام دیا تھا اس نے انہیں آپریشن کے بعد صرف سستے پین کلرز دے کر واپس بھیج دیا اور باقی زندگی یہ اپنا علاج خود کروانے کے لئے تنہا چھوڑ دیے گئے۔ وہ دلال بھی پھر نظر نہیں آتے جو انہیں سہانے خواب دکھا کر آپریشن ٹیبل تک لے جاتے ہیں۔ اور کسی قانونی جھمیلے سے بچنے کے لیے گردہ نکالنے سے پہلے مجبور ڈونر سے ایک سٹامپ پیپر پر انگوٹھا لگوایا جاتا ہے جس میں مریض حلفیہ تسلیم کر رہا ہوتا ہے کہ میں اپنے ناکارہ گردے کا آپریشن کروا رہا ہوں۔
اب سے چند برس پہلے تک  پنڈی اسلام آباد اور لاہور میں انسانی اعضا کی غیرقانوی  پیوند کاری کا کام آسانی سے ہو جاتا تھا مگر کرپشن کے ریٹس اور کرپٹ دباؤ بڑھنے کے سبب یہ کام پاکستان کے زیرِ انتظام کشمیر منتقل کر دیا گیا جو پاکستان میں لاگو اعضا کی پیوند کاری کے ایکٹ  کے دائرے سے باہر ہے۔ عمر شریف کی بیٹی کا آپریشن بھی کشمیر کی حدود میں ہوا اور پھر اسے لاہور میں رائے ونڈ  کے ایک نجی ہسپتال میں منقتل کر دیا گیا جہاں اس کا انتقال ہو گیا۔
کیا مروجہ قوانین کے تحت غیر قاونی اعضا کی غیر قانونی پیوند کاری سے متاثرہ خاندانوں کو انصاف مل سکتا ہے؟ شاید نہیں کیونکہ عدالت تو اس سارے مسئلے کو قانونی عینک سے ہی دیکھے گی۔ اور بیشتر کیسز میں ڈونر سے لے کر مریض اور سرجن سب کے سب قانون کے دائرے سے باہر نظر آ رہے ہیں۔

کالم نگار کے مطابق عمر شریف کی بیٹی کا آپریشن کرنے والے ڈاکٹر کے خلاف پہلے سے مقدمات درج تھے۔ فوٹو: اے ایف پی

کیا اس کاروبار پر نگاہ رکھنے والی اتھارٹی (ہوٹا)  کچھ کر سکتی ہے؟ اخبار ڈان کی رپورٹ کے مطابق دو ہزار دس میں راولپنڈی کے السید ہسپتال پر ہوٹا اور پولیس کی مشترکہ ٹیم نے چھاپہ مارا۔ مگر ہسپتال کے مالک کے ہاتھ قانون سے بھی لمبے ثابت ہوئے اور پولیس اور ہوٹا کی ٹیم کو خالی ہاتھ لوٹنا پڑا۔ بعد ازاں اس ٹیم نے وزارتِ صحت کو ہسپتال میں ہونے والی سرگرمیوں کی  تفصیلی رپورٹ ارسال کی مگر کوئی ایکشن نہیں ہوا۔
دو ہزار تیرہ سے دو ہزار سولہ کے درمیان ضلع لاہور میں انسانی اعضا کی تجارت میں ملوث ہونے کے شبے میں 63 لوگ گرفتار ہوئے۔ صرف دو کے خلاف چالان پیش کیا جا سکا۔ باقی کا کیا ہوا؟ نمی دانم ۔
جس طرح ایران اور سعودی عرب  کے علما نے انسانی اعضا کے عطیے کو ’جس نے ایک شخص کی جان بچائی اس نے گویا پوری انسانیت کی جان بچائی‘  کے اصول کے تحت مسمانوں کے لیے حلال قرار دیا ہے۔ اسی طرح اگر پاکستان کے سرکردہ علما بھی کھل کر جان بچانے کے اس عمل کی حمایت کریں تو شاید ہر سال ہزاروں حرا عمر بھی حادثاتی اموات سے بچ سکیں ۔ ورنہ تو مذہبی کنفیوژن کے سبب خون کے رشتے بھی عطیہ دینے سے آنا کانی کرنے لگتے ہیں۔ عمر شریف کو اپنی بیٹی کے بارے میں یہی مسئلہ درپیش  ہوا ہوگا۔ واللہ علم بالصواب
  • واٹس ایپ پر پاکستان کی خبروں/ویڈیوز اور کالم و بلاگز کے لیے ’اردو نیوز‘ گروپ جوائن کریں

شیئر:

متعلقہ خبریں