Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

باربر شاپس اور لانڈری پر ادائیگی اب آن لائن

بینک ڈیبٹ کارڈ کا منصوبہ بلانقدی پروگرام کا حصہ ہے( فوٹو ، سوشل میڈیا)
سعودی عرب میں ’بلا نقدی‘ منصوبے پر تیزی سے عمل درآمد جاری ہے۔ انسداد تجارتی پردہ پوشی کے قومی پروگرام کی جانب سے کہا گیا ہے کہ یکم اپریل 2020 سے مزید تین شعبوں میں نقدی کے لین دین کو بند کر دیا جائے گا۔
قومی پروگرام برائے انسداد تجارتی پردہ پوشی کے حوالے سے مقامی ویب نیوز ’اخبار 24‘ نے اطلاع دی ہے کہ ’بلا نقدی‘ منصوبے کو کامیاب بنانے کے لیے تین تجارتی اداروں پر پابندی عائد کی جارہی ہے جہاں نقدی کا لین دین کو مرحلہ وار ختم کرتے ہوئے بینک ڈیبٹ کارڈ سے وصولی کی جائے گی۔
اطلاعات کے مطابق نجی شعبے میں باربر شاپس، بیوٹی پالراور لانڈری شاپس پر پابندی عائد کی ہے کہ وہ یکم اپریل تک اپنی دکانوں میں بینک ڈیبٹ کارڈ کے ذریعے وصولی کو یقینی بنائیں اس ضمن میں متعلقہ بینکوں سے مخصوص ’سپن‘ سسٹم کی تنصیب کرنے کے مراحل کا آغاز ابھی سے کر دیا جائے۔

بیوٹی پالرز پر بھی اسپن سسٹم کو لازمی قراردیا گیاہے ( فوٹو ، سوشل میڈیا)

یاد رہے سعودی بینکنگ کونسل کی جانب سے اس حوالے سے واضح طور پر کہا جا چکا ہے کہ مملکت میں 2030 تک کرنسی فری سوسائٹی قائم کی جائے گی۔ اس حوالے سے پہلے مرحلے میں پیٹرول اسٹیشنز کو اس امر کا پابند بنایا گیا کہ وہ اپنے اسٹیشنز پر بینک’ اسپن‘سسٹم کی فراہمی کو یقینی بنائیں۔
پٹرول سٹینشز کے بعد دوسرے مرحلے میں آٹو ورکشاپس اور پینچر شاپس کو پابند کیا گیاتھا کہ وہ نقدی کے لین دین کے بجائے سپن سسٹم کی تنصیب کرائیں۔
 سعودی بینکنگ کونسل کے ترجمان کا کہنا تھا کہ تمام بینکوں کو اس ضمن میں واضح احکامات صادر کیے جاچکے ہیں تاکہ وہ اپنے صارفین کو سپن سسٹم کی فراہمی کو بروقت یقینی بنائیں۔

 

واضح رہے اس پروگرام کا اصل ہدف مملکت میں تجارتی پردہ پوشی کے رجحان کا خاتمہ کرنا ہے۔ تجارتی پردہ پوشی کی اصطلاح ان کاروباری اداروں یا دکانوں کے لیے استعمال کی جاتی ہے جو تجارت کے قانون کی خلاف ورزی کے مرتکب ہوتے ہیں۔
مملکت میں تجارتی قانون کے مطابق غیر ملکی اپنے نام سے کاروبار نہیں کرسکتا۔ نجی کاروبارکے لیے لازمی ہے کہ سعودی شہری ہو۔
وہ افراد جو سعودی شہریوں کے ناموں پر اپنا کاروبار کرتے ہیں اسے ’تجارتی پردہ پوشی ‘ کہا جاتا ہے اس حوالے سے وزارت محنت کی جانب سے بھی تفتیشی ٹیمیں ان اداروں کا سراغ لگاتی ہیں جو غیر ملکیوں نے مقامی شہریوں کے ناموں سے قائم کی ہوئی ہیں۔

شیئر: