Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

’معاہدے کے بعد افغان جنگ ختم ہو سکتی ہے‘

افغان طالبان اور امریکہ کے درمیان ایک تاریخی امن معاہدے پر دستخط کچھ دیر بعد قطر کے دارالحکومت دوحہ میں ہونے جا رہے ہیں۔ اس معاہدے کو افغانستان میں قیام امن کے لیے ایک تاریخی اور بڑی پیش رفت قرار دیا جا رہا ہے۔
امن معاہدے کی تقریب میں شرکت کے لیے امریکہ کے وزیر خارجہ مائیک مومپیو کے علاوہ کئی اہم طالبان رہنما اور پاکستان سمیت لگ بھگ 50 ممالک کے سفارتکار اور نمائندے دوحہ پہنچ چکے ہیں۔
معاہدے پر دستخط سے قبل افغان طالبان کا کہنا ہے کہ یہ ان کے لیے ہی نہیں بلکہ تمام افغانوں کے لیے ایک بڑا دن ہے۔
اردو نیوز سے بات کرتے ہوئے طالبان ترجمان سہیل شاہین کا کہنا تھا کہ ’مجھے خوشی محسوس ہو رہی ہے۔ اس دن کی بڑی خواہش کی تھی۔ اس دن کے لیے بہت انتظار کیا۔ میں اپنے سب افغانوں کو مبارکباد دینا چاہتا ہوں۔
انہوں نے کہا کہ ’افغانستان میں ایک نئے دور کا آغاز ہوگا جس سے ملک میں امن آئے گا۔‘
ان کا مزید کہنا تھا کہ آج کے دن کے بعد افغانستان سے غیر ملکی قبضے کا خاتمہ ہو جائے گا، افغانستان آزاد ہو جائے گا۔ ’ہم افغان قومی یکجہتی کے لیے کام کریں گے، یہ ہماری اخلاقی اور اسلامی ذمہ داری بھی ہے۔‘
انہوں نے کہا کہ اس سارے امن عمل میں پاکستان کے کردار کو قدر کی نگاہ سے دیکھتے ہیں۔
’پاکستان اور قطر سمیت جس ملک نے بھی اس سلسلے میں اپنا کردار ادا کیا ہم اس کو سراہتے ہیں۔‘
ان کا کہنا تھا کہ آج وہ خود بھی خوش ہیں اور ایسا لگ رہا ہے جیسے عید کا دن ہو۔
طالبان کی جانب سے ملا عبدالغنی برادر معاہدے پر دستخط کریں گے۔ امریکی حکام بھی دوحہ میں موجود ہیں۔
اس کے علاوہ علاقائی ممالک کے اعلیٰ حکام بھی معاہدے پر دستخط کے وقت موجود ہوں گے۔
دوسری جانب امن معاہدے کے بارے میں وائٹ ہاؤس سے جاری ایک بیان میں امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے افغانستان کی عوام کے لیے پیغام دیا ہے کہ وہ امن کے اس موقع کا فائدہ اٹھائیں۔
ٹرمپ نے کہا کہ امریکی وزیر خارجہ مائیک پومپیو جلد طالبان نمائندوں کے ساتھ ایک معاہدے پر دستخط کی تقریب کا مشاہدہ کریں گے۔ ’جبکہ وزیر دفاع مارک ایسپر افغان حکومت کے ساتھ مل کر ایک مشترکہ اعلامیہ جاری کریں گے۔‘

ٹرمپ نے کہا کہ انہوں نے فوجیوں کو واپس بلانے اور جنگ کے خاتمے کا وعدہ کیا تھا۔ فوٹو: اے ایف پی

بیان میں ٹرمپ نے مزید کہا ہے کہ اگر طالبان اور افغان حکومت اپنے وعدوں پر پورا اترتے ہیں تو افغانستان میں جنگ اختتام پر پہنچ سکتی ہے اور امریکی فوجیوں کو واپس بلایا جا سکتا ہے۔
انہوں نے مزید کہا کہ جب وہ انتخابات کے لیے کھڑے ہوئے تھے تو انہوں نے فوجیوں کو واپس بلانے اور اس جنگ کو ختم کرنے کا وعدہ کیا تھا۔ ’ہم اس وعدہ پر کافی آگے جا رہے ہیں۔‘
واضح رہے کہ 11 ستمبر 2001 میں امریکی شہر نیویارک میں دہشتگرد حملے کے بعد امریکہ نے افغانستان میں اپنے فوجی بھیجے تھے۔ یہ قدم اس الزام کے تحت لگایا گیا تھا کہ افغانستان نے القاعدہ سے تعلق رکھنے والے عناصر کو پناہ دی ہے۔
امریکہ کے اس وقت کے صدر جارج بش کے دور میں ان فوجیوں کی تعداد میں اضافہ ہوا۔ مئی 2011 میں القاعدہ رہنما اُسامہ بن لادن کی ہلاکت کے بعد صدر باراک اُبامہ نے اعلان کیا کہ فوجیوں کی تعداد میں کمی لائی جائے گی۔
تاہم 2017 میں اقتدار میں آنے کے بعد صدر ٹرمپ نے اعلان کیا کہ انہیں فوجیوں کو واپس بلانے کی کوئی جلدی نہیں۔
جولائی 2018 میں امریکہ اور طالبان کے درمیان مذاکرات کا باقائدہ آغاز ہوا، لیکن ٹرمپ نے 2019 میں انہیں روکنے کا اعلان کیا۔ یہ اعلان افغانستان میں امریکی فوجی کی ہلاکت کے بعد کیا گیا تھا۔ نومبر 2019 میں ٹرمپ نے افغانستان کا اچانک دورہ کیا اور ان مذکرات کا دوبارہ آغاز کرنے کا اعلان کیا۔
  • واٹس ایپ پر پاکستان کی خبروں کے لیے ’اردو نیوز‘ گروپ جوائن کریں

شیئر: