Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

’نواز شریف کی حیثیت ایک مفرور کی ہے‘

مریم نواز کا نام ایگزٹ کنٹرول لسٹ میں شامل ہے: (فوٹو ٹوئٹر)
وزیر اعظم عمران خان کے معاون خصوصی برائے احتساب بیرسٹر شہزاد اکبر نے کہا ہے کہ اس وقت نواز شریف ایک مفرور ہیں۔ مفرور سے ملنے اور عیادت کے لیے حکومت مریم نواز کو لندن جانے کی اجازت نہیں دے گی۔
’اردو نیوز‘ کو دیے گئے خصوصی انٹرویو میں بیرسٹر شہزاد اکبر نے کہا کہ ’ای سی ایل سے نام نکالنے کا اختیار وفاقی کابینہ کا ہے، کابینہ کا بھی یہی ذہن ہے اور اس وقت ایسے کچھ حقائق بھی نہیں ہیں کہ انہیں (مریم نواز) کو ملک سے باہر جانے کی اجازت دی جائے۔‘
انھوں نے کہا کہ ’ان کا مقدمہ عدالت کے سامنے بھی ہے، دیکھتے ہیں کہ عدالت کی طرف سے کیا ہوتا ہے۔ اگر عدالت کو ان کی طرف سے کوئی ایسی چیز نظر آتی ہے۔  صرف یہ کہنا کہ میرے والد وہاں بیمار ہیں اور مجھے ان کے علاج کے لیے جانا ہے نہ تو آپ ڈاکٹر ہیں۔ آپ میڈیکل سکول کی ڈراپ آؤٹ ہیں۔ اس کے بعد وہاں پر جو آپ کے والد صاحب بیمار ہیں ان کی بیماری پر بھی ملک میں بہت زیادہ شک پایا جاتا ہے۔‘
انھوں نے مزید کہا کہ ’پنجاب حکومت نے ان کی سزا معطلی کو بھی ختم کر دیا ہے۔ اس وقت قانون کی نظر میں نواز شریف کا درجہ ہے کیونکہ ابھی تک عدالت کی طرف سے بھی کچھ نہیں آیا اور وہ خود بھی عدالت نہیں گئے وہ ایک مفرور کی حیثیت رکھتے ہیں۔‘
ان کا کہنا ہے کہ ’اس قانون کے تحت ان (مریم نواز) کا ملک سے باہر جانے کے بارے میں میں نہیں سمجھتا کہ انہیں اجازت دی جا سکتی ہے۔ اس کے لیے کچھ میرٹ تو ہونا چاہیے، نواز شریف سے تو قوم آج بھی پوچھ رہی ہیں کہ آپ نے چار ماہ میں لندن میں کون سا علاج کرایا ہے جس کے لیے آپ گئے تھے انہوں نے تو آج تک اپنے ٹیسٹ کی رپورٹ نہیں بھیجی۔‘

شہزاد اکبر کے مطابق بڑے مقدمات میں جو بڑی گرفتاریاں ہوئی ہیں وہاں پر پلی بارگین بھی ہو رہی ہے (فوٹو: ٹوئٹر)

نواز شریف کو وطن واپس لانے کے حوالے سے پوچھے گئے سوال پر شہزاد اکبر نے کہا کہ ’مفرور کو واپس لانے کے لیے پنجاب حکومت کا جو فیصلہ ہے جس میں کہا گیا ہے کہ وہ اپنے آپ کو قانون کے حوالے کریں۔ اب انھوں نے وفاقی حکومت کو بھیجا ہے۔ وفاقی حکومت نے پہلے بھی برطانیہ کو ایک چٹھی بھیجی تھی جس میں بتایا گیا تھا کہ ہمارے ایک سزا یافتہ شخص علاج کے لیے  برطانیہ آ رہے ہیں اور ان کے علاج کے لیے یہ شرائط رکھی گئی ہے اور اس حوالے سے برطانوی حکومت کو اپ ڈیٹ کیا جاتا رہے گا۔‘
ایک اور سوال کے جواب میں انھوں نے کہا کہ ’بڑے مقدمات میں جو بڑی گرفتاریاں ہوئی ہیں وہاں پر پلی بارگین بھی ہو رہی ہے۔ کوئی بھی بڑا آدمی یا سیاستدان جو کرپشن اور لوٹ مار میں ملوث ہوتا ہے وہ پلی بارگین نہیں کرتا بلکہ اس کی کوشش ہوتی ہے کہ وہ اپنی سیاست بچائے اور مقدمہ بازی میں جائے تاکہ وہ وقت گزار سکے اور وہ انتظار کرتا ہے کہ آٹھ دس سال گزر جائیں اور حالات بدل جائے اور اس کی بچت ہو جائے۔‘
سوشل میڈیا رولز سے متعلق سوال کے جواب میں انھوں نے کہا کہ ’سوشل میڈیا رولز کو لے کر کر بھی کچھ غلط فہمی ہے۔ یہ رولز 2017 کے قانون کی روشنی میں بنائے گئے ہیں جو نون لیگ کی حکومت نے پاس کیا تھا۔ اس قانون کو بھی ایک دفعہ دیکھنے کی ضرورت ہے۔ میں سمجھتا ہوں کہ وہ قانون میڈیا اور سوشل میڈیا پر بہت زیادہ قدغنیں لگاتا ہے۔‘

ان کے مطابق  ریگولیشنز کے ذریعے میڈیا اور سوشل میڈیا پر کسی قسم کی کوئی قدغن نہیں لگائی جا سکتی۔ (فوٹو: ٹوئٹر)

انھوں نے کہا کہ ’کابینہ نے ابھی صرف ان رولز کی منظوری دی ہے وہ رولز ابھی نوٹیفائی نہیں ہوئے۔  وزیراعظم بہت پہلے وزارت سائنس اینڈ ٹیکنالوجی کو سوشل میڈیا کمپنیوں، سوشل میڈیا حقوق کے لیے قائم کرنے والوں اور دیگر سٹیک ہولڈرز کے ساتھ مشاورت کے احکامات جاری کر چکے ہیں۔‘
ان کا کہنا ہے کہ ’سوشل میڈیا ریگولیشن پر کسی کو اعتراض نہیں ہے کیونکہ بعض اوقات سوشل میڈیا ہر کسی کی ذاتی زندگی میں بھی مداخلت کرنا شروع کر دیتا ہے۔ ریگولیشنز کے ذریعے میڈیا اور سوشل میڈیا پر کسی قسم کی کوئی قدغن نہیں لگائی جا سکتی کیونکہ اس کا تحفظ آئین میں موجود ہے۔ ایک رول بنا کر آئین میں دیے گئے حق کو ختم نہیں کیا جا سکتا ۔رولز پرمشاورت دو ماہ تک جاری رہے گی اور دو ماہ بعد جب منظور ہو کر وہ نوٹیفائی ہوں گے تب رولز کہلائیں گے فی الحال وہ صرف مسودہ ہے۔‘
انھوں نے کہا کہ ایسٹ ریکوری یونٹ کا قیام وفاقی کابینہ کا فیصلہ تھا جس کے تحت دیگر ممالک میں موجود مقدمات بالخصوص منی لانڈرنگ کے حوالے سے تفتیشی عمل میں تیزی لانے کے اقدامات کرنا تھا۔ اس حوالے سے کامیابیاں بھی مل رہی ہیں اور کام بھی پہلے سے تیز ہوا ہے۔
 

شیئر: