Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

دلی کے طالبِ علم نوین چورے کی نظم

انڈین میڈیا کے مطابق تقریباً ہر مظاہرے میں نوین چورے کی نظم پڑھی گئی (فوٹو: سوشل میڈیا)
ایک سڑک پر خون ہے اور ایک انگلی ہے پڑی
پر کیوں پڑی ہے خون میں؟ جسم اس کا ہے کہاں؟
کون تھے وہ لوگ جن کے ہاتھوں میں تھیں لاٹھیاں؟
نہ پولیس ہوں نہ پترکار، بس ناگرک ہوں اک زمہ دار  
میرے سیدھے پرشن ہیں، سیدھا اتر دو مجھے
ہے سڑک پر خون کیوں، وہ لوگ آخر کون تھے؟
’آدمی چھوٹے ہیں صاحب، ہم کا پڑتے بیچ میں
ہم بچانے بھی گئے تھے تین پڑ گئے کھینچ  کے
موٹر سائیکل پر  آئے تھے روڈ پر کر دی کھڑی
اور دس لونڈے لپاڑے، لاٹھیاں اتی بڑی!
گالی دے کے نام پوچھا پیٹ میں گھونسہ دیا
ادھ موا وہ گر پڑا پھر دے دنا دن لاٹھیاں
پاؤں کی ہڈی مٹا دی، ماس کی لگدی بنا دی

انڈیا میں گذشتہ برس دسمبر میں شہریت کا متنازع قانون بنایا گیا تھا۔ (فوٹو:اے ایف پی)

خوں تو اتا بہا صاحب کہ ہم سے دیکھا نہ گیا 
ایک ان میں جوش میں تھا، جانے اس کو کیا پڑی
جیب سے چاقو نکالا  لاش کی انگلی  کاٹ لی
آخری تھا وار جس کا، ان کا وہ سردار تھا
اس نے ہی سب کو بتایا جو مرا غدار تھا
حق نہیں ان کو ہمارے دیش کے کسی کھونٹ پر
اجی دیمکیں ہے  دیمکیں!
 دیمکوں کو گر نہ رکھو جوتیوں کی نوک پر
سر پے یہ چڑھ جائیں گی، یہ کئی گنا بڑھ جائیں گی
پیر کے نیچے کچل دو  جیت ہو گی دھرم کی!
ہم تو خود ڈر گئے تھے صاحب، خوف ان کو تھا نہیں

دہلی میں شہریت متنازع قانون کے خلاف مظاہروں کے بعد مسلمانوں کے گھروں پر حملے کیے گئے۔ (فوٹو: اے ایف پی)

کس نسل کے لوگ تھے  کچھ سمجھ آیا نہیں
نہ کوئی انساں تھا ان میں، نہ کوئی تھا آدمی
ساتھ مل کر شیر بن گئے  پر گیدڑوں کی بھیڑ تھی
نوچ کھانے کی طلب تھی، جانور تاثیر تھی
ہاتھ میں تھیں لاٹھیاں تو بھینس بھی ان کی ہی تھی
ہم سے کاہے پوچھتے ہو کیوں سڑک پر خون ہے
پوچھو اس انگلی سے تم، کیوں یہاں گھٹنا گھٹی
جرم اس نے کیا کیا تھا جسم سے یہ کیوں کٹی ۔۔۔‘
میں تو سمجھا مر چکی ہے، انگلی میں پر جان تھی
بولی اب کیا چاہیے ووٹ تھا دے تو دیا
جی رہے تھے قید میں، موت دے دی شکریہ 

انڈین مسلمانوں کے مطابق شہریت کا ترمیمی قانون مسلمانوں کے خلاف ہے (فوٹو: اے ایف پی)

 آپ ہی تو ہو عدالت، آپ ہی قانون بھی
آپ سے کیسی شکایت آپ تو ہیں  نیند میں
آپ جیسے سو کھڑے ہیں جاہلوں کی بھیڑ میں
سو میں سے گر ایک بھی دے دے گواہی آپ کو
میں خوشی سے مان لوں گا بھیڑ کے انصاف کو
کیجیے اس پر بحث اب چینلوں میں بیٹھ کر
کیا ہوا گاندھی کا وعدہ، ہے کہاں امبید کر
سب برابر ہیں اگر تو بس مجھے ہی کیوں چنا
تم بتاؤ کون دے گا گھر کو میرے روٹیاں
 اصلیت سے کیا بے خبر ہو؟ شہری ہو ؟ دلی سے ہو؟
ایک نصیحت کر رہا ہوں  سوچ  کے بولا کرو
تم سوالوں سے بھرے ہو کیا تمہیں معلوم ہے
بھیڑ سے کچھ پوچھنا بھی جان لیوا جرم ہے
تفتیش کرنے آئے ہو؟ لو کھل کے کر لو شوق سے

انڈیا میں یونیورسٹی کے طلبہ نے بھی اس قانون کے خلاف احتجاج کیا (فوٹو: اے ایف پی)

فرق پڑتا ہی کہاں ہے پانچ دس  کی موت سے
چار دن چرچا رہے گی انصاف سب کو دلائیں گے
پانچویں دن بھول کے سب کام پر لگ جائیں گے
کام سے ہی کام رکھنا، ہاں مگر یہ یاد رکھنا
کوئی پوچھے کون تھے؟
بس تمہیں اتنا ہے کہنا، بھیڑ تھی کچھ لوگ تھے
پھر بھی کوئی ضد پکڑ لے کیا ہوا ، کس نے کیا؟
سوچ  کے انگلی اٹھانا کٹ رہی ہیں انگلیاں!
بات کو کچھ یوں گھمانا
ارے صاحب! اب جانے دیجیے
نفرتوں کا روگ تھے، دھرم تھا نہ جات ان کی
بس بھیڑ تھی کچھ لوگ تھے
  • واٹس ایپ پر پاکستان کی خبروں کے لیے ’اردو نیوز‘ گروپ جوائن کریں

شیئر:

متعلقہ خبریں