Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

امان اللہ خان کی لاہور میں تدفین: ’آج مزاح یتیم ہوگیا‘

امان اللہ خان کا شمار پاکستان کے ٹاپ کامیڈینز میں ہوتا تھا (فوٹو:سوشل میڈیا)
پاکستان کے عظیم مزاحیہ فنکار امان اللہ خان کو لاہور میں ان کی رہائش گاہ پیراگون سٹی کے قبرستان میں سپرد خاک کر دیا گیا ہے۔ امان اللہ تقریباً ایک سال سے پھیپھڑوں سمیت دیگر امراض میں مبتلا تھے اور لاہور کے ہی ایک نجی ہسپتال میں زیر علاج تھے۔
جمعے کی صبح کی ان کی موت کی خبر جنگل میں آگ کی طرح پھیل گئی۔ پیراگون میں ان کی رہائشگاہ پر لوگ پہنچنا شروع ہو گئے جہاں ان کی آخری رسومات ادا کی جانی تھیں۔
سب سے پہلے پہنچنے والے فنکاروں میں راشد محمود خان اور نعمان اعجاز تھے۔ راشد محمود نے اردو نیوز سے بات کرتے ہوئے کہا ’امان اللہ ایک عہد تھا اور جتنے بھی آپ کو اس وقت سکرین پر یا تھیٹر میں مزاحیہ فنکار نظر آتے ہیں سب کے سب امان اللہ کے شاگرد ہیں، ان کے بچے ہیں۔‘
راشد محمود نے یہ بھی کہا کہ امان اللہ نے مزاح میں وہ صنف متعارف کروائی جو اس سے پہلے موجود نہیں تھی۔ آج میں اپنے بہت ہی اچھے دوست سے محروم ہوگیا۔ میرا اور امان اللہ کا رشتہ کئی دہائیوں پر محیط تھا۔‘
نعمان اعجاز جب امان اللہ کی رہائش گاہ پہنچے تو ان کی آنکھیں نم تھیں اور وہ کچھ بھی نہیں بول رہے تھے۔
امان اللہ کے صاحبزادے امانت کو گلے لگا کر وہ کافی دیر دلاسہ دیتے رہے تب بھی ان کی آنکھیں نم تھیں۔
جب ان سے پوچھا گیا کہ اس عظیم فنکار کے بارے آپ کیا کہیں گے تو ان کا کہنا تھا ’آج مجھے کچھ نہیں بولنا بہت زندگی پڑی ہے ہم امان اللہ کی ہی باتیں کریں، آج ان کے جانے کا غم ہے، آج کچھ نہیں بولا جائے گا صرف اتنا کہوں گا آج مزاح یتیم ہوگیا۔‘
امان اللہ کی رہائش گاہ پر نماز جنازہ کا وقت دو دفعہ تبدیل کرنا پڑا کیونکہ ان کے چاہنے والے تھے کہ آئے جا رہے تھے۔ ٹی وی اور سٹیج کی تمام بڑی شخصیات سوگواران میں شامل تھیں۔
سہیل احمد، عرفان کھوسٹ، کاشف نثار، روبی انعم، امتیاز کوکب اور گلوکار اسرار احمد اور کون سا ایسا نام تھا جو اس عظیم فنکار کی آخری رسومات میں شریک نہیں تھا۔

نعمان اعجاز امان اللہ خان کے گھر پہنچنے تو ان کی آنکھیں نم تھیں (فائل فوٹو: ٹوئٹر)

جنازے کے وقت گورنر پنجاب چوہدری سرور اور وزیر اطلاعات فیاض الحسن چوہان بھی پہنچ گئے۔ اس موقعے پر گورنر پنجاب کا کہنا تھا کہ ’امان اللہ ایک بین الاقوامی فنکار تھے ان کا خلا کبھی پُر نہیں ہوگا وہ برطانیہ جب بھی آتے میرے مہمان ہوتے۔ میں ان کا ایک قریبی دوست تھا جس پر مجھے ہمیشہ فخر رہے گا۔‘
امان اللہ کے جنازے میں سینکڑوں افراد نے شرکت کی اور انہیں ان کی رہائش گاہ کے قریب قبرستان میں سپرد خاک کر دیا گیا۔

بسوں میں ٹافیاں بیچنے سے کامیڈی کنگ بننے تک 

امان اللہ خان 1950 کو لاہورمیں پیدا ہوئے۔ بچپن انتہائی غربت میں گزرا، بسوں میں ٹافیاں بیچیں، معروف لوک گلوکار عالم لوہار کے ساتھ میلوں میں بھی پرفارم کیا۔ پھر قسمت کی دیوی مہربان ہوئی اور ان کو 1976 میں ایک سٹیج ڈرامے میں ایک چھوٹا سا رول مل گیا جسے بہت پذیرائی ملی۔
80 کی دہائی کا آغاز ان کے لیے کامیابیاں لایا اور پھر انہوں نے پیچھے مڑ کر نہیں دیکھا۔ انہوں نے مسلسل 42 سال تک لوگوں کو ہنسایا۔
امان اللہ نے چار شادیاں کر رکھی تھیں اور ان کے چودہ بچے ہیں۔
امان اللہ خان کا شمار پاکستان کے ٹاپ کامیڈینز میں ہوتا تھا ان کو اعزاز حاصل رہا کہ انہوں نے لگا تار 860 دن لائیو تھیٹر پر پرفارمنس دی۔ جب کہ حکومت پاکستان نے انہیں پرائیڈ آف پرفارمنس کے اعزاز سے بھی نواز۔

امان اللہ چند ماہ سے بیمار تھے اور پہلے بھی دو تین بار ہسپتال داخل کرائے گئے (فوٹو: سوشل میڈیا)

انہوں نے سنہ 2010 میں ٹیلی ویژن سکرین کا رخ کیا اور جیو نیوز کے پروگرام خبرناک میں بطور کامیڈین شرکت کی اس کے علاوہ  وہ دنیا نیوز اور نیو ٹی وی سے بھی منسلک رہے۔
ان کی آخری نوکری آپ نیوز کے ساتھ تھی جو بیماری کے باعث انہیں چھوڑنا پڑی۔ امان اللہ خان نے دو پاکستانی فلموں میں اداکاری کے جوہر بھی دکھائے ہیں جن میں ایک ’ون ٹو کا ون‘ 2006 میں ریلیز ہوئی جبکہ ’نامعلوم افراد‘ 2014 میں ریلیز ہوئی۔
وہ ون مین شو پر ملکہ رکھتے تھے، انہوں نے انڈیا سمیت دنیا بھر کے ممالک میں پرفارم کیا تھا۔

شیئر: