بنگلہ دیش میں حسینہ واجد حکومت کے خاتمے کے بعد بھی سیاسی تشدد جاری، ایک برس میں 300 ہلاکتیں
بنگلہ دیش میں حسینہ واجد حکومت کے خاتمے کے بعد بھی سیاسی تشدد جاری، ایک برس میں 300 ہلاکتیں
اتوار 2 نومبر 2025 15:43
بنگلہ دیش میں انسانی حقوق کی تنظیم نے کہا ہے کہ حسینہ واجد کی حکومت کے خاتمے کے بعد سے سیاسی تشدد میں 300 کے قریب افراد مارے جا چکے ہیں۔
خبر رساں ایجنسی اے ایف پی کے مطابق سابق وزیراعظم شیخ حسینہ واجد کی آمرانہ حکومت نے طلبہ نے ایک پُرتشدد تحریک کے ذریعے ہٹا دیا تھا تاہم ایک سال گزرنے کے بعد بھی سیاسی احتجاج میں تشدد کا عنصر موجود ہے جس میں عام شہریوں کی ہلاکتیں ہوئی ہیں۔
ڈھاکہ میں بنگلہ دیش کی انسانی حقوق کی تنظیم اودھیکر کی رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ اگست 2024 میں حسینہ واجد کے انڈیا بھاگ جانے کے بعد سے رواں سال ستمبر کے اختتام تک سیاسی جماعتوں کے درمیان تشدد کے واقعات میں کم از کم 281 افراد کی موت ہوئی۔
گزشتہ ہفتے جاری ہونے والی سہ ماہی رپورٹ میں تنظیم نے کہا ہے کہ سب سے زیادہ ماورائے عدالت 40 مشتبہ ملزمان کو قتل کیا گیا جبکہ مزید 153 کو قتل کیا گیا۔
اودھیکر کے ڈائریکٹر ناصرالدین ایلان نے کہا کہ حسینہ واجد کی حکومت کے خاتمے کے بعد انسانی حقوق کی پاسداری میں بہتری آئی ہے لیکن قانون نافذ کرنے والے اداروں کو اب بھی جوابدہ نہیں ٹھہرایا جا رہا۔
ناصرالدین ایلان نے کہا کہ ’ہاں، ہم حسینہ واجد کے دور کی طرح متواتر ماورائے عدالت قتل یا جبری گمشدگیوں کے واقعات کا تسلسل نہیں دیکھتے، لیکن حراست میں ہونے والی اموات، رشوت ستانی اور متاثرین کو ہراساں کرنے کا سلسلہ اب بھی جاری ہے۔‘
انہوں نے کہا کہ حسینہ واجد کی سیاسی جماعت عوامی لیگ کے ساتھ منسلک ہونے کی وجہ سے مبینہ طور پر ’معصوم لوگ مظالم کا شکار ہو جاتے ہیں۔‘
حسینہ واجد کے 15 سالہ دور حکومت میں بڑے پیمانے پر انسانی حقوق کی خلاف ورزیاں دیکھنے میں آئیں، جن میں ان کے سیاسی مخالفین کی بڑے پیمانے پر حراست اور ماورائے عدالت قتل شامل ہیں۔
اودھیکر کی رپورٹ میں یہ بھی کہا گیا ہے کہ حسینہ کے زوال کے بعد سے ایک سال میں بہت سے لوگ اپنی مالی یا سماجی حیثیت سے قطع نظر سیاسی جماعتوں کی طرف سے تشدد کا شکار ہوئے۔ ان میں اگلے عام انتخابات کی دوڑ میں سب سے آگے نظر آنے والی بنگلہ دیش نیشنلسٹ پارٹی، اور حسینہ واجد کی حکومت کو گرانے والے مظاہروں کا آغاز کرنے اور امتیازی سلوک کی مخالف سٹوڈنٹ موومنٹ بھی شامل ہیں۔
رپورٹ پر بنگلہ دیش کی عبوری حکومت نے ابھی تک کوئی ردعمل ظاہر کیا۔ فائل فوٹو: اے ایف پی
رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ جماعت اسلامی بنگلہ دیش بھی پُرتشدد سیاسی واقعات میں ملوث رہی۔
اودھیکر نے یہ بھی کہا کہ اس عرصے کے دوران ہجوم کے حملے نسبتاً کثرت سے ہوتے رہے ہیں جس کی بنیادی وجہ پولیس کی ناقص کارکردگی ہے۔
رپورٹ میں کہا گیا کہ ’سیاسی مفادات کے حصول کے لیے پولیس کو استعمال کیا گیا اور اہلکاروں کو کھلی چھوٹ دی گئی، جس کی وجہ سے اُن پر آخرکار اپوزیشن (عوامی لیگ) سے وابستہ کارکنوں کو مارنے اور تشدد کرنے کا راستہ کھلا۔
اودھیکر کی رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ حسینہ واجد کی حکومت گرنے کے بعد پولیس بڑی حد تک غیرفعال ہو گئی اور اپنا مورال کھو بیٹھی تھی۔
اودھیکر کی رپورٹ پر بنگلہ دیش کی عبوری حکومت اور نہ ہی کسی سیاسی پارٹی نے ابھی تک کوئی ردعمل ظاہر کیا ہے۔