Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

’اعترافی بیان مجسٹریٹ کو ہی دیا جاسکتا ہے‘

جسٹس منیب اختر کے مطابق ‘بظاہر ملزمان کے خلاف اقبال جرم کے علاوہ کوئی ثبوت نہیں ہے (فوٹو: اے ایف پی)
سپریم کورٹ آف پاکستان میں فوجی عدالتوں سے سزا پانے والے 71 ملزمان کی بریت کے خلاف وزارت دفاع کی اپیلوں پر سماعت کے دوران بینچ میں شامل جسٹس منیب اختر نے ریمارکس دیے ہیں کہ ’قانون شہادت کے تحت فوجی افسر کے سامنے اعتراف جرم کی کوئی حیثیت نہیں، ملزم کا اعترافی بیان صرف مجسٹریٹ کے سامنے ریکارڈ ہو سکتا ہے۔‘
سپریم کورٹ میں جسٹس مشیر عالم کی سربراہی میں تین رکنی بینچ نے پیر کو فوجی عدالتوں سے سزا پانے والے 71 ملزمان کی بریت کے خلاف وزارت دفاع کی اپیلوں پر سماعت کی۔
سماعت کے دوران اڈیشنل اٹارنی جنرل ساجد الیاس بھٹی نے فوجی عدالت کے ٹرائل کے طریقہ کار پر بحث کی اور اپیل کا طریقہ کار واضح کیا۔ انہوں نے بتایا کہ تحقیقات اور ٹرائل کے دوران ملزمان کو بری بھی کیا جاتا ہے۔ ان کے مطابق فوجی عدالتوں سے عدم شواہد پر پانچ ملزمان بری بھی ہوئے۔
ساجد الیاس بھٹی نے پشاور ہائی کورٹ کے فیصلے پراعتراض اٹھاتے ہوئے کہا کہ 71 اپیلیں ہیں ہر ملزم پر علیحدہ الزام ہے ہائی کورٹ نے فیصلہ میں نہ قانون کو مدنظر رکھا اور نہ ہی حقائق کو دیکھا۔
جسٹس منیب اختر نے استفسار کیا  کہ کیا ملزمان کے اعترافی بیان کے علاوہ کوئی شواہد بھی موجود ہیں؟ ’صرف ایف آئی آر اور اعترافی بیان کوئی شواہد نہیں ہے۔
اڈیشنل اٹارنی جنرل نے بتایا کہ فوجی عدالت میں جرم تسلیم کرنے پر فوری سزا سنائی جا سکتی ہے۔ حراستی مراکز کے آ فیسر کا بیان ضرور ریکارڈ پر موجود ہوتا ہے.
جسٹس منیب اختر نے ریمارکس دیے کہ ’بظاہر ملزمان کے خلاف اقبال جرم کے علاوہ کوئی ثبوت نہیں ہے۔
اس پر اڈیشنل اٹارنی جنرل نے کہا کہ عدالت خصوصی حالات کو بھی مدنظر رکھے۔ دہشت گردوں کے خلاف کوئی گواہی دینے کو تیار نہیں تھا۔’دہشت گرد جنت کا ٹکٹ سمجھ کر اعتراف جرم کرتے ہیں۔‘
 پارلیمان نے حقائق کو مدنظر رکھتے ہوئے فوجی عدالتیں بنائیں۔

جسٹس اختر  کے مطابق فیصلے میں لکھا ہے کہ تمام افراد کے اعترافی بیانات کی لکھائی ایک جیسی ہے (فوٹو: ٹوئٹر)

اڈیشنل اٹارنی جنرل نے پشاور ہائی کورٹ کے فیصلے کے نکات پڑھتے ہوئے کہا کہ ہائی کورٹ نے اپیل میں استعمال ہونے والا اختیار آئینی درخواست میں کیا۔ ’ہائی کورٹ نے کہا کہ ٹرائل میں کوئی زخمی پیش ہوا نہ پوسٹ مارٹم رپورٹ پیش کی گئی۔ لیکن حقیقت میں فوج کے کسی شہید کا پوسٹمارٹم نہیں کرایا جاتا۔  ہائی کورٹ نے ضابطہ فوجداری کو مدنظر رکھ کر فیصلہ دیا ہے جبکہ  فوجی عدالتوں پر ضابطہ فوجداری کا اطلاق ہی نہیں ہوتا۔‘
جسٹس منیب اختر نے کہا کہ ہائی کورٹ کے فیصلے میں لکھا ہے کہ تمام افراد کے اعترافی بیانات کی لکھائی ایک جیسی ہے۔
اڈیشنل اٹارنی جنرل نے عدالت کو بتایا کہ رولز میں جو فارمیٹ دیا گیا ہے بیان اس کے مطابق ہی لکھا جاتا ہے۔
اڈیشنل اٹارنی جنرل کے دلائل کے بعد ملزمان کے وکلا نے دلائل دیے۔
ملزم جمشید علی اور اختر علی کے وکیل لائق سواتی نے عدالت کو بتایا کہ ملزمان کو فئیر ٹرائل کا موقع نہیں دیا گیا۔’ میرے موکل کو جو وکیل دیا گیا وہ ڈمی تھا۔ ملزمان کے اعترافی بیانات کی شہادت دینے والے افسران سے جرح میں ایک ہی قسم کے سوالات کیے گئے اور نو سے زائد سوال کسی بھی گواہ پر نہیں ہوئے۔
ملزم سے پوچھا جاتا ہے کیا تمہیں وکیل کرنا ہے جواب ملتا ہے نہیں۔ جب پوچھا جاتا ہے کہ گھر والوں سے ملنا ہے تو جواب لکھا جاتا ہے نہیں۔ یہ فئیر ٹرائیل ہے؟

عدالت عظمیٰ نے فوجی عدالت سے بری ہونے والے ملزمان کی تفصیلات طلب کرلیں (فوٹو: اے پی)

جسٹس منیب اختر نے کہا کہ آپ کسی قانون کا حوالہ دیں، ان تمام حوالوں کو بیان کرنے کی یہاں کوئی حیثیت نہیں ہے، درخواست گزار نے عدالت کے دائرہ اختیار کو چیلنج کیا ہے آپ اس پر آئیں۔
ملزم کے وکیل نے عدالت کو بتایا کہ ’میرے موکل کو 2012 میں اسلام آباد سے گرفتار کیا گیا اور کوئی ایف آئی آر درج نہیں ہوئی۔ پانچ سال بعد مجسٹریٹ کے سامنے پیش کیا گیا اور اعترافی بیان سامنے آیا۔ پانچ سال کس قانون کے تحت کسی ملزم کو حراست میں بغیر بتائے رکھا جا سکتا ہے، کیا آرمی ایکٹ میں اس کی اجازت ہے؟ عدالت جائزہ لے کہ آئین بالادست ہے یا آرمی ایکٹ؟ پانچ سال بعد اعترافی بیان کی کیا حیثیت رہ جاتی ہے؟ اور ان ملزمان کے خلاف موقع کا کوئی گواہ بھی موجود نہیں۔
ملزمان کے وکیل لائق سواتی نے کہا کہ ایک اور ملزم اختر علی کو دہشت گرد کو کھانا کھلانے پر سزائے موت دی گئی۔ جمشید علی گرفتاری سے پندرہ دن پہلے سعودی عرب سے آیا تھا۔
جسٹس مشیر عالم نے کہا کہ کھانے کے ساتھ رہائش بھی فراہم کی تھی۔ وکیل نے جواب دیا کہ اس کی بھی نہ کوئی تاریخ موجود ہے اور ہی گواہ۔

جسٹس اختر نے ریمارکس دیے کہ صرف ایف آئی آر اور اعترافی بیان کوئی شواہد نہیں ہے (فوٹو: ٹوئٹر)

عدالت نے تمام فریقین کو سننے کے بعد کیس کی مزید سماعت ملتوی کرتے ہوئے ملزمان کے خلاف شواہد اورفوجی عدالت سے بری ہونے والے ملزمان کی تفصیلات بھی طلب کر لیں۔
سماعت کے اختتام پر اڈیشنل اٹارنی جنرل ساجد الیاس بھٹی نے عدالت سے استدعا کی کہ پشاور ہائی کورٹ کو فوجی عدالت کے فیصلوں کے خلاف زیر التوا اپیلوں پر فیصلہ سنانے سے روکا جائے۔
جسٹس مشیر عالم نے اڈیشنل اٹارنی جنرل کی استدعا مسترد کرتے ہوئے کہا ’فیصلہ آنے دیں پھر دیکھ لیں گے۔
عدالت نے کیس کی مزید سماعت منگل تک ملتوی کر دی۔

شیئر: