Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

پاکستان سے پی آئی اے کی محدود پروازیں، مسافر پریشان

سعودی عرب کی جانب سے کورونا وائرس کے پھیلاؤ کو روکنے کے لیے احتیاطی تدبیر کے طور پر پاکستان اور انڈیا سمیت دیگر ممالک کے اقامہ ہولڈرز کو واپسی کے لیے دی گئی 72 گھنٹوں کی مہلت اتوار کو ختم ہو رہی ہے۔
پاکستان سے واپس جانے کے لیے لوگ تمام بڑے شہروں میں ایئر لائنز کے دفاتر کے باہر موجود ہیں لیکن ان کو ٹکٹس نہیں مل رہے۔
 پنجاب کے دارالحکومت لاہور میں بھی پی آئی اے کے مرکزی دفتر کے سامنے سینکڑوں لوگ ٹکٹ لینے کے انتظار میں کھڑے ہیں۔
سرگودھا کے یاسر علی ایک روز قبل اسی مقصد کے لیے لاہور آئے تاہم ان کو ابھی تک واپسی کا ٹکٹ نہیں مل رہا۔
اردو نیوز سے بات کرتے ہوئے ان کا کہنا تھا کہ ’میرا 18 مارچ کو پہلے سے ہی واپسی کا ٹکٹ بک تھا جیسے ہی ہمیں پتا چلا کہ سعودی عرب نے 72 گھنٹے کی ڈیڈ لائن دی ہے تو میں نے اسی وقت اپنے ٹریول ایجنٹ کو فون کیا تو اس نے معذرت کر لی، اس کا کہنا ہے کہ کسی بھی ائیر لائن کے ٹکٹ دستیاب نہیں۔‘
ان کے بقول ’اب میں خود لاہور آیا گیا ہوں کہ یہاں تو پی آئی اے کا ہیڈ کوارٹر ہے اور حکومت کو بھی پتا ہے کہ لوگ واپس جائیں گے۔ لیکن ابھی کسی بھی طرح کی کوئی امید دکھائی نہیں دے رہی۔
یاسر علی سعودی دارالحکومت ریاض میں ایک کنسٹرکشن کمپنی میں گذشتہ آٹھ سال سے کام کر رہے ہیں اور سالانہ چھٹیوں پر پاکستان واپس آئے تھے۔ تاہم کورونا وائرس کی وجہ سے پیدا ہونے والے غیر معمولی حالات میں ان کو سعودی عرب واپس جانا کھٹائی میں پڑتا دکھائی دے رہا ہے۔

ہزاروں مسافر ٹکٹ ملنے کے منتظر ہیں (فوٹو: اردو نیوز)

یاسر علی نے کہا کہ حکومت پہلے ان کو واپس بھجوانے میں ترجیح دے جن کو مارچ میں ہی واپس پہنچنا ہے، جن کی چھٹیاں دو یا تین مہینے رہتی ہیں، ان کو بعد میں بھی بھیجا جا سکتا ہے۔ 
’لیکن ادھر تو کچھ پتا ہی نہیں چل رہا وہ جو سپیشل فلائٹس چلائی گئی تھیں ان کے ٹکٹس کن کو اور کیسے دیے جا رہے ہیں؟
انہوں نے ٹریول ایجنٹ کے حوالے سے بتایا کہ کہ مرکزی سسٹم میں کسی بھی سپیشل جہاز کے ٹکٹس ظاہر ہی نہیں ہوئے۔ یاسر علی نے سوال اٹھایا کہ حکومت نے سپیشل پروازیں چلانے کے اعلان کے بعد ٹکٹس لیے جانے کا طریقہ کار واضع کیوں نہیں کیا؟

کتنے لوگ سعودی عرب جانے سے رہ جائیں گے؟

لاہور میں پاکستان کی قومی ایئر لائن کے ترجمان اطہر اعوان نے اردو نیوز کو بتایا کہ سعودی عرب جانے کے خواہش مند افراد میں سے پانچ ہزار سے زائد کی درخواستیں صرف لاہور میں موصول ہوئی ہیں۔
ترجمان کا کہنا تھا کہ پی آئی اے کے پاس نہ تو اتنے جہاز موجود ہیں اور نہ ہی سسٹم میں اتنی استعداد ہے کہ اتنے کم وقت میں اتنے سارے لوگوں کی واپسی کا انتظام کیا جا سکے۔
’پہلے ہی چھ جہاز جو سسٹم سے نکال کر لگائے گئے ہیں وہ ہی کُل استعداد تھی اور اگر آپ پرائیویٹ ایئر لائنز کی بات کریں تو ایک ہی ایئر بلیو ہے جو سعودی عرب کی ڈائریکٹ فلائٹس رکھتی ہے، انہوں نے تو ایک بھی جہاز اس مسئلے کے لیے اضافی نہیں چلایا۔‘
انہوں نے کہا کہ ایسی متعدد ایئر لائنز ہیں جو پاکستان سے براہ راست سعودی عرب نہیں جاتیں، ان کے آپریشن محدود ہو چکے ہیں، ایسے میں پی آئی اے کے علاوہ کوئی دوسری صورت نظر نہیں آ رہی۔

ٹریول ایجنٹس کے پاس ٹکٹ دستیاب نہیں ہیں (فوٹو: اردو نیوز)

غیر معمولی صورت حال کب تک؟

ترجمان پی آئی اے کے مطابق اس سوال کا جواب حکومتوں کے پاس نہیں تو ایک ائیر لائن کے پاس کیسے ہوگا؟ ’ہم تو اسی بات کے پابند ہیں جو بھی حکومتیں فیصلہ لیتی ہیں ہم نے بس اس پر اپنے وسائل کے اندر رہ کر عمل درآمد کرنا ہوتا ہے۔
اس سارے معاملے کا دوسرا اور بڑا پہلو یہ ہے کہ لوگوں نے اپنے ریٹرن ٹکٹس پہلے ہی خرید رکھے ہیں لیکن ان کی تاریخ 72 گھنٹے کی ڈیڈ لائن کے اندر اندر نہیں ہیں۔ ان کو اس بات کا بھی اندازہ نہیں ہو رہا کہ اگر وہ نہ پہنچ پائے تو ڈیڈ لائن کے بعد ان کی نوکریوں کی صورت حال کیا ہوگی۔
پی آئی اے لاہور آفس میں ہی لائن میں لگے ٹکٹ کے منتظر شفقت علی نے اپنی کہانی سناتے ہوئے کہا کہ ’میں نے 20 مارچ کو واپس جانا تھا۔ میں ایک شیف ہوں اگر میں مقررہ وقت پر نہیں پہنچا تو میری تو نوکری بھی چلی جائے گی۔ تکلیف دہ بات ہے کہ میرے پاس تو ٹکٹ بھی ہے جس کے پیسے میں نے پہلے ہی بھرے ہوئے ہیں۔ لیکن مجھے نہیں لگ رہا کہ اب اس کا کوئی فائدہ ہے۔
ترجمان پی آئی اے کے مطابق ایسے افراد جنہوں نے ٹکٹس پہلے لیے ہوئے ہیں لیکن ان کی مقررہ فلائٹ نہیں جائے گی تو یقیناً قانون کے مطابق انہیں ریفنڈ کیا جائے گا۔
لاہور میں ایک ٹریول کمپنی کے مالک محمد اظہر نے بتایا ’یہ سب کچھ سمجھ سے باہر ہے، ہمارے تو کاروبار ہی تباہ ہوگئے ہیں، کچھ لوگ ہمارے ادھر پھنسے ہوئے ہیں جن کو واپس لانے کی فکر ہے ہوٹلز نے بکنگز ختم کر دی ہیں اور کچھ کچھ لوگ ادھر کے ہیں جن کے ٹکٹس خریدے گئے ہیں۔
انہوں نے کہا کہ ’حکومت پاکستان کو چاہیے کہ سارے معاملے کو شفاف بنائے اور لوگوں کو کم از کم تسلی دی جائے کہ جو لوگ نہیں جا پائیں گے ان کی نوکریوں اور اقاموں کے بارے میں حالات معمول پر آنے پر کیا پالیسی روا رکھی جائے گی؟

شیئر: