Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

سعودی فنکار ’زیزو‘ کو جب ایئرپورٹ پر امریکی پرستاروں نے پہچان لیا

زیاد کی عمر 15 برس تھی تو وہ امریکی ریاست ایریزونا منتقل ہوگئے (فوٹو: عرب نیوز)
سعودی فنکار زیاد السعدی جنہیں زیادہ تر لوگ زیزو کے نام سے جانتے ہیں، صرف سعودی موسیقی کا ایک نام نہیں ہیں بلکہ وہ اصل میں مالیکیولر اور سیلولر بائیولوجی کے ماہر ہیں تاہم ساتھ ہی ایک ایسے فنکار بھی ہیں جو اپنی فنکاری میں ثقافت، تخلیقی سوچ اور ارادے کو یکجا کر کرکے پیش کرتے ہیں۔
انھوں نے عرب نیوز سے بات کرتے ہوئے کہا کہ ’موسیقی میرے لیے ہمیشہ فکر و تشویش سے نجات کا ذریعہ رہی ہے۔ وہ بات جو میں لفظوں میں نہیں کہہ سکتا، موسیقی ان کا اظہار بن جاتی ہے۔‘
زیاد السعدی سعوی عرب میں پیدا ہوئے لیکن جب ان کی عمر 15 برس تھی تو وہ امریکی ریاست ایریزونا منتقل ہوگئے۔
انہوں نے بتایا ’امریکہ میں رہ کر میں نے دنیا کو ایک نئے ڈھنگ سے دیکھا لیکن سعودی عرب میں میری جڑیں اب بھی بہت مضبوط ہیں۔‘
12 برس تک وہ امریکی ثقافت میں ڈوبے رہے لیکن اس دوران بھی وہ اپنی میراث سےمنقطع نہیں ہوئے۔
ان کی زندگی میں 2005 میں اس وقت تبدیلی آئی جب حیاتیات کا ایک امتحان مکمل کرنے کے بعد ان کے ایک ہم جماعت نے انھیں عراق آ کر ایک سٹوڈیو میں ریکارڈنگ کی دعوت دی۔

زیاد 12 برس تک  امریکی ثقافت میں ڈوبے رہے لیکن اپنی میراث سے منقطع نہیں ہوئے۔ (فوٹو :عرب نیوز)

زیاد کا کہنا تھا ’اس دن میرے لیے سب کچھ بدل گیا۔ میں پہلی بار چل کر ریکارڈنگ سٹوڈیو میں گیا اور میرے اندر وہ جذبہ بیدار ہوا جو پہلے کبھی نہیں ہوا تھا۔‘
شام تک وہ اپنا پہلا گیت ریکارڈ کرا چکے تھے۔ موسیقی کے لیے جن آلات کی ضرورت ہوتی ہے انھیں خریدنے کے لیے بیتاب تھے۔ انھوں نے آڈیو انجینیئرنگ اور موسیقی کی ایک قسم ’رےپ‘ سیکھنی شروع کر دی۔
وہ بتاتے ہیں ’میرے اندر موسیقی کی چنگاریاں شاید بہت پہلے سے تھیں۔ 1998 سے میں راکیم، ایمی نیم اور ناس جیسے لیجنڈز کی لاجواب لائنوں سے سحر کا شکار تھا۔ انھوں نے میرے سٹائل کو تبدیل کر دیا اور ان ہی کی وجہ سے میں نے اپنی آواز تلاش کی۔‘

وہ بات جو میں لفظوں میں نہیں کہہ سکتا، موسیقی ان کا اظہار بن جاتی ہے (فوٹو: عرب نیوز)

بطور ایک سعودی کے جو موسیقی کی مغربی صنف ’رے پ‘ میں عمل دخل رکھتا ہے، اسے بعض اوقات کم اہمیت والا سمجھا جاتا ہے۔ ’جب لوگ سعودی کا لفظ سنتے ہیں تو اچھا ہونا تو ایک طرف، وہ یہ بھی نہیں سمجھ سکتے کہ ایک سعودی یہ کام کر بھی سکتا ہے۔‘
تاہم  زیاد السعدی کو آج کل مملکت میں موسیقی کے ابھرتے ہوئے منظر نامے میں امکانات کی وسعت دکھائی دے رہی ہے۔
وہ کہتے ہیں ’لوگ اس کے لیے بے چین ہیں اور ہر جگہ تخلیق اپنا رنگ جمار رہی ہی۔ میں ہمیشہ ان فنکاروں کے ساتھ مل کر کام کرنے کو تیار ہوں جن کے پاس کرنے کو کچھ نیا ہے۔‘

سوشل میڈیا موسیقی اور پیغام کو پھیلانے میں اہم کردار ادا کر رہا ہے (فوٹو: عرب نیوز)

ایک ’رے پ‘  آرٹسٹ کے لیے، موسیقی ایک دوسرے سے سیکھنے اور مل کر اسے آگے بڑھانا کا نام ہے۔
السعدی کوشش کر کے نئے فنکاروں کی تلاش کرتے ہیں اور غور کرتے ہیں کہ کس طرح ان نوجوان فنکاروں کا سٹائل ان کے اپنے انداز کو مزید مکمل کر سکتے ہیں۔
ان کے مطابق ’موسیقی میں وہ طاقت ہے کہ یہ ہر رکاوٹ کو عبور سکتی ہے۔ زبان مختلف ہو تو ہو، پس منظر بھلے دوسرا ہو، قومیت کوئی بھی ہو۔ جب آپ اپنی تخلیق میں مخلص ہوں گے تو لوگ آپ کے ساتھ جُڑ جائیں گے۔‘
سوشل میڈیا ان کی موسیقی اور پیغام کو پھیلانے میں بہت اہم کردار ادا کر رہا ہے۔

السعدی کے مطابق ’موسیقی میں  ہر رکاوٹ کو عبور کرنے کی طاقت ہے (فوٹو: ایس پی اے)

انہوں نے بتایا ’ان پلیٹ فارمز نے میرے جیسے فنکاروں کی زندگی بدل دی ہے۔ ہو سکتا ہے آج میں سوشل پلیٹ فارم پر کوئی شعر گا کر سنا دوں، اور کل اِسی شعر کو کوئی برازیل میں سُن رہا ہو۔‘
زیاد السعدی کی عالمی سطح تک پہچان کی وجہ سے انھیں غیر متوقع لمحات کا بھی سامنا ہوا ہے۔ خاص طور پر جب ایک مرتبہ ریاض ایئرپورٹ پر امریکی پرستاروں نے انھیں پہچان لیا۔
’وہ لوگ میری موسیقی سے واقف تھے اور میرے کلچر کے بارے میں مزید جاننا چاہتے تھے۔ ہمارے درمیان بہت بامعنی بات چیت ہوئی اور ان میں سے کئی امریکی میرے دوست بن گئے۔‘
مستقبل میں السعدی کا ارادہ ہے کہ وہ سعودی فنکاروں کی اگلی نسل کے لیے دروازے کھولیں۔
ان کا ماننا ہے’سعودی ہونا مجھے محدود نہیں کرتا بلکہ اس سےمجھے قوت ملتی ہے۔ ہم ایک دوسرے کے سات بہت کچھ شیئر کر سکتے ہیں اور مجھے یہ سوچ کر لطف آ رہا ہے کہ یہ سفر ہمیں کہاں تک لے کر جائے گا۔‘

 

شیئر: