سعودی فنکار زیاد السعدی جنہیں زیادہ تر لوگ زیزو کے نام سے جانتے ہیں، صرف سعودی موسیقی کا ایک نام نہیں ہیں بلکہ وہ اصل میں مالیکیولر اور سیلولر بائیولوجی کے ماہر ہیں تاہم ساتھ ہی ایک ایسے فنکار بھی ہیں جو اپنی فنکاری میں ثقافت، تخلیقی سوچ اور ارادے کو یکجا کر کرکے پیش کرتے ہیں۔
انھوں نے عرب نیوز سے بات کرتے ہوئے کہا کہ ’موسیقی میرے لیے ہمیشہ فکر و تشویش سے نجات کا ذریعہ رہی ہے۔ وہ بات جو میں لفظوں میں نہیں کہہ سکتا، موسیقی ان کا اظہار بن جاتی ہے۔‘
مزید پڑھیں
-
سعودی میوزک کمپوزر اور ریپر کا عربی میں پہلا ہپ ہاپ پوڈ کاسٹNode ID: 721181
-
سوشل میڈیا سے اداکاری تک کا سفر، کم عمر سعودی فنکارہ سے ملیےNode ID: 831486
زیاد السعدی سعوی عرب میں پیدا ہوئے لیکن جب ان کی عمر 15 برس تھی تو وہ امریکی ریاست ایریزونا منتقل ہوگئے۔
انہوں نے بتایا ’امریکہ میں رہ کر میں نے دنیا کو ایک نئے ڈھنگ سے دیکھا لیکن سعودی عرب میں میری جڑیں اب بھی بہت مضبوط ہیں۔‘
12 برس تک وہ امریکی ثقافت میں ڈوبے رہے لیکن اس دوران بھی وہ اپنی میراث سےمنقطع نہیں ہوئے۔
ان کی زندگی میں 2005 میں اس وقت تبدیلی آئی جب حیاتیات کا ایک امتحان مکمل کرنے کے بعد ان کے ایک ہم جماعت نے انھیں عراق آ کر ایک سٹوڈیو میں ریکارڈنگ کی دعوت دی۔

زیاد کا کہنا تھا ’اس دن میرے لیے سب کچھ بدل گیا۔ میں پہلی بار چل کر ریکارڈنگ سٹوڈیو میں گیا اور میرے اندر وہ جذبہ بیدار ہوا جو پہلے کبھی نہیں ہوا تھا۔‘
شام تک وہ اپنا پہلا گیت ریکارڈ کرا چکے تھے۔ موسیقی کے لیے جن آلات کی ضرورت ہوتی ہے انھیں خریدنے کے لیے بیتاب تھے۔ انھوں نے آڈیو انجینیئرنگ اور موسیقی کی ایک قسم ’رےپ‘ سیکھنی شروع کر دی۔
وہ بتاتے ہیں ’میرے اندر موسیقی کی چنگاریاں شاید بہت پہلے سے تھیں۔ 1998 سے میں راکیم، ایمی نیم اور ناس جیسے لیجنڈز کی لاجواب لائنوں سے سحر کا شکار تھا۔ انھوں نے میرے سٹائل کو تبدیل کر دیا اور ان ہی کی وجہ سے میں نے اپنی آواز تلاش کی۔‘

بطور ایک سعودی کے جو موسیقی کی مغربی صنف ’رے پ‘ میں عمل دخل رکھتا ہے، اسے بعض اوقات کم اہمیت والا سمجھا جاتا ہے۔ ’جب لوگ سعودی کا لفظ سنتے ہیں تو اچھا ہونا تو ایک طرف، وہ یہ بھی نہیں سمجھ سکتے کہ ایک سعودی یہ کام کر بھی سکتا ہے۔‘
تاہم زیاد السعدی کو آج کل مملکت میں موسیقی کے ابھرتے ہوئے منظر نامے میں امکانات کی وسعت دکھائی دے رہی ہے۔
وہ کہتے ہیں ’لوگ اس کے لیے بے چین ہیں اور ہر جگہ تخلیق اپنا رنگ جمار رہی ہی۔ میں ہمیشہ ان فنکاروں کے ساتھ مل کر کام کرنے کو تیار ہوں جن کے پاس کرنے کو کچھ نیا ہے۔‘

ایک ’رے پ‘ آرٹسٹ کے لیے، موسیقی ایک دوسرے سے سیکھنے اور مل کر اسے آگے بڑھانا کا نام ہے۔
السعدی کوشش کر کے نئے فنکاروں کی تلاش کرتے ہیں اور غور کرتے ہیں کہ کس طرح ان نوجوان فنکاروں کا سٹائل ان کے اپنے انداز کو مزید مکمل کر سکتے ہیں۔
ان کے مطابق ’موسیقی میں وہ طاقت ہے کہ یہ ہر رکاوٹ کو عبور سکتی ہے۔ زبان مختلف ہو تو ہو، پس منظر بھلے دوسرا ہو، قومیت کوئی بھی ہو۔ جب آپ اپنی تخلیق میں مخلص ہوں گے تو لوگ آپ کے ساتھ جُڑ جائیں گے۔‘
سوشل میڈیا ان کی موسیقی اور پیغام کو پھیلانے میں بہت اہم کردار ادا کر رہا ہے۔
