Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

بیرون ملک پھنسے سعودیوں کے لیے سفارتخانے کے پرتعیش انتظامات

کورونا وائرس کی وجہ سے عائد ہونے والی سفری پابندیوں کے باعث بیرون ملک پھنسے سینکڑوں سعودی شہری مملکت کے خرچ  پر پُرتعیش زندگی گذار رہے ہیں۔
سعودی عرب میں کورونا وائرس کا پہلا کیس رپورٹ ہونے کے بعد سے حکومت سکولوں اور دفاتر کو بند کرنے، بین الاقوامی اور مقامی پروازوں کو روکنے جیسے اقدامات کے ذریعے اپنے لوگوں کی حفاظت کے لیے تمام ضروری اقدامات کر رہی ہے۔

 متعدد سیاح، کاروباری افراد اور طلبہ امریکہ میں ہیں(فوٹو عرب نیوز)

دنیا بھر میں سعودی سفارت خانے اپنے شہریوں کی بحفاظت واپسی کے لیے پروازوں کی آخری تاریخ اور ٹوئٹر پر اہم رابطہ نمبر پوسٹ کر رہے ہیں۔
تاہم دوسرے ممالک میں تعلیم حاصل کرنے، ملازمت کرنے یا چھٹیوں پر جانے والے بہت سے سعودی شہری سفری پابندیوں کی وجہ سے اپنے ملک واپس نہیں آ سکے۔
جہاں دنیا کورونا کی وبا کے خلاف لڑ رہی ہے وہیں سعودی حکومت بیرون ملک پھنسے ہوئے اپنے شہریوں کی فلاح و بہبود اور صحت کو یقینی بنانے کی کوشش کر رہی ہے۔  سعودی حکومت اپنے شہریوں سے ان ممالک کے قواعد و ضوابط پر عمل کرنے پر زور دے رہی ہے جہاں آج کل یہ شہری موجود ہیں۔

شہریوں کو ان ممالک کے قواعد و ضوابط پر عمل کرنے کا کہا جا رہاہے(فوٹو عرب نیوز)

سعودی مملکت نے دو ہفتوں کے لیے بین الاقوامی پروازوں پر پابندی میں توسیع کر دی ہے تاکہ حکام کو ملک میں وائرس سے موثر انداز میں مقابلہ کرنے میں مدد ملے۔
متعدد سعودی خاندان، سیاح، کاروباری افراد اور طلبہ امریکی دارالحکومت  واشنگٹن ڈی سی میں پھنسے ہوئے ہیں اور انہیں اس بات کا کوئی اندازہ نہیں کہ ان کے انخلا کی اگلی پروازیں کب روانہ ہوں گی؟
تاہم سعودی سفارت خانے نے پھنسے ہوئے سعودی شہریوں کے لیے لگژری ہوٹل کی رہائش فراہم کی ہے جس میں کھانے اور مفت کپڑے دھونے کی خدمات شامل ہیں۔

واشنگٹن ڈی سی آنے سے پہلے ہی پرواز منسوخ کر دی گئی تھی(فوٹو عرب نیوز)

ایمن نصیف اور ان کا خاندان فلوریڈا کے اورلینڈو میں دو ہفتوں کی چھٹیوں پر تھا جب سفری پابندیاں عائد ہوئیں۔
جدہ کے ایک ماہرِ تعمیرات نصیف جو اپنی اہلیہ کے ساتھ امریکہ کے دورے پر تھے نے بتایا جب اورلینڈو میں ڈزنی ورلڈ بند کیا گیا تو ہمیں احساس ہوا  اور ہم نے سعودی عرب جانے والی پہلی پرواز کے لیے واشنگٹن واپس جانے کا فیصلہ کیا۔‘
’مجھے معلوم تھا کہ واشنگٹن ڈی سی آنے سے پہلے ہی پرواز منسوخ کر دی گئی تھی لہذا میں نے سفارت خانے سے ان کی مخصوص ہاٹ لائن پر  رابطہ کیا۔ سفارت خانے نے فورا ہی ہلٹن میک لین ہوٹل میں ہمارے قیام کا انتظام کر دیا۔
سعودی وزارتِ صحت نے 11 مارچ کے بعد مملکت میں داخل ہونے والے لوگوں کو 14 دن کے قرنطینہ میں جانے کو لازمی قرار دیا تھا  اور نصیف نے کہا کہ ان کے اہل خانہ کے کام کرنے کی جگہیں اس صورتحال پر بہت تعاون کرتی ہیں۔

ہمیں احساس ہے کہ وبائی مرض کتنا بڑا ہے (فوٹو عرب نیوز)

ڈاکٹر صفی ناز نے کہا کہ وہ بچوں کے امراض کی ماہر ہیں اور اس حوالے سے اپنا کردار ادا کرنے کے لیے جلد سے جلد سعودی عرب واپس آنا چاہتی ہیں۔
ان کا مزید کہنا تھا ’ میں یہاں اپنے اہلخانہ کے ساتھ سفارت خانے کے خرچ پر بیٹھی ہوں۔ سفارت خانہ ہماری رہائش ، کھانا اور یہاں تک کہ ہمارے کپڑوں کی دھلائی کی ادائیگی کا بھی خیال رکھتا ہے۔ اب میں واقعتاً جانتی ہوں کہ سعودی ہونے کا کیا مطلب ہے۔‘
نصیف نے کہا ’ ہم حکومت پر پڑنے والے بوجھ کو سمجھتے ہیں  اور ہم جلد سے جلد واپس جانا چاہتے ہیں لیکن ہمیں احساس ہے کہ وبائی مرض کتنا بڑا ہے تاہم اس بات سے ہم مطمئن ہیں کہ حکومت اس وائرس سے نمٹنے کے لیے انتہائی اقدامات کررہی ہے اور ہم ان کے ساتھ کھڑے ہیں۔‘

یہ نہیں سوچا تھا کہ چیزیں اس تیزی سے تبدیل ہو جائیں گی(فوٹو سوشل میڈیا)

ایک اور سعودی شہری  فاتن احمد ہلٹن میک لین ہوٹل میں پھنس گئی تھیں۔ فاتن اپنے بھائی سے ملنے فلوریڈا آئی تھیں اور سعودی عرب واپس جاتے ہوئے ان کی پرواز منسوخ ہو گئی تھی۔
انہوں نے کہا ’اگرچہ میں اپنے خـاندان اور گھر کو یاد کر رہی ہوں لیکن مجھے یہاں ملنے والی مدد  اور سہولت کی وجہ سے میرے پاس شکایت کرنے کے لیے کچھ نہیں۔ مجھے امید ہے کہ دنیا کم سے کم نقصان کے ساتھ اس بحران سے گزرے گی۔‘
فاتن احمد سفری پابندی کی افواہوں کو سننے سے قبل صرف 24 گھنٹوں کے لیے میامی میں تھیں اور واشنگٹن  ڈی سی کے لیے پہلی دستیاب فلائٹ پکڑنے کے لیے فوراً  ہی اورلینڈو روانہ ہوگئیں۔ تاہم  جب وہ وہاں پہنچیں تو سعودی عرب کی تمام پروازوں کو اڑنے کی ممانعت کر دی گئی تھیں۔

وبائی مرض کی وجہ سے سعودی عرب واپس نہیں جا سکیں (فوٹو اردونیوز)

ایک اور سعودی خاتون ابتہاج الحناکی ایک مختصر دورے کے لیے امریکی دارالحکومت میں تھیں تاہم وہ  وبائی مرض کی وجہ سے سعودی عرب واپس نہیں جا سکیں۔ لاک ڈاؤن ہونے پہلے ان کی پرواز سعودی مملکت سے امریکہ اترنے والی آخری پروازوں میں سے ایک تھی۔
دو بچوں کی والدہ نے عرب نیوز کو بتایا ’ میں نے یہ نہیں سوچا تھا کہ چیزیں اس تیزی سے تبدیل ہو جائیں گی۔ اپنا کام ختم کرنے کے بعد میں نے واپس جانے کی کوشش کی  لیکن بدقسمتی سے بہت دیر ہو چکی تھی۔‘
انہوں نے کہا ’میں اپنے دونوں بچوں کو بہت زیادہ یاد کرتی ہوں، میرا انھیں طویل عرصے تک چھوڑنے کا کوئی ارادہ نہیں تھا اور وہ اس کے لیے تیار نہیں تھے۔‘
اس کے باوجود ابتہاج نے کورونا وائرس پھیلنے کے دوران سخت احتیاطی تدابیر اختیار کرنے کے لیے اپنے ملک کی کوششوں کی تعریف کی ہے جس نے دنیا کو متاثر کیا ہے۔
واشنگٹن میں سعودی سفارت خانے کے ترجمان فہد نذیر نے عرب نیوز کو بتایا ’بیرون ملک سعودی شہریوں کی فلاح و بہبود  مملکت کے تمام سفارتی مشنوں کی اولین ترجیح ہے۔‘
امریکہ میں سعودی سفیر شہزادی ریما بنت بندر بن سلطان ذاتی طور پر سفارت خانے کی اس کوشش کی نگرانی کر رہی ہیں کہ اس بات کو یقینی بنایا جائے اس وقت بین الاقوامی سفری پابندیوں کی وجہ سے جو سعودی شہری مملکت واپس نہیں آ سکتے ان کے پاس  پابندیاں ختم ہونے تک مناسب رہائش موجود رہے۔
واشنگٹن میں سعودی سفارت خانے کے ترجمان فہد نذیر کا مزید کہنا تھا کہ واشنگٹن میں مملکت کے سفارت خانے،  نیویارک شہر میں اپنے قونصل خانوں کے علاوہ  لاس اینجلس اور ہیوسٹن نے بھی اس بات کو یقینی بنانے میں کوئی کسر نہیں چھوڑی کہ امریکہ کا دورہ کرنے والے 600  سعودی شہری جو اس وقت سعودی عرب واپس آنے سے قاصر ہیں ان کی ضروریات پوری کی جائیں۔
مفت فراہم کی جانے والی اس رہائش گاہ میں ہوائی اڈوں سے ہوٹلوں تک آمدورفت، ہوٹلوں میں قیام کے علاوہ طعام کی سہولت بھی شامل ہے۔ اس کے علاوہ  واشنگٹن میں مملکت کے ثقافتی مشن نے امریکہ میں 40،000 سعودی طلبا کو واضح رہنمائی اور مشورے فراہم کیے ہیں تاکہ ان کی تعلیم متاثر نہ ہو۔
امریکہ میں سعودی سفارت خانے اور قونصل خانوں نے بھی تمام سعودی شہریوں کو مشورہ دیا ہے کہ وہ جن ریاستوں میں رہائش پذیر ہیں ان کے جاری کردہ صحت عامہ اور حفاظت سے متعلق مشوروں پر سختی سے عمل کریں۔
  • سعودی عرب کی خبروں کے لیے واٹس ایپ گروپ جوائن کریں

شیئر: