Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

’مشکل وقت میں عوامی نمائندے موسمی پرندے ہوگئے‘

شہریوں کو بنیادی اشیائے ضرورت کی قلت کا سامنا ہے (فوٹو: اے ایف پی)
کورونا وائرس کے بحران کے بعد جہاں ایک طرف حکومت کو بیماری کا پھیلاؤ روکنے میں مشکلات کا سامنا ہے، وہاں کاروبار زندگی بند ہونے کی وجہ سے عام لوگوں کو ضرورت کی اشیا کے حصول اور طبی سہولیات تک رسائی کا مسئلہ بھی درپیش ہے۔
حکومت عام آدمی کو سہولیات فراہم کرنے کے لیے وسائل اور افرادی قوت کی کمی کا جواز پیش کر رہی ہے تو اپوزیشن اس کو حکومتی نااہلی قرار دے رہی ہے۔
ایسے میں ملک میں ایک ایسے نظام کی کمی محسوس کی جا رہی ہے جس کے ذریعے سے اس نوعیت کے ہنگامی حالات میں لوگوں کی دہلیز پر جا کر ان کی مدد کی جا سکے۔
کچھ سماجی تنظیمیں اور لوگ انفرادی سطح پر اس خلا کو پورا کرنے کی کوشش کر رہے ہیں لیکن سوشل میڈیا اور دیگر پلیٹ فارمز پر تمام سیاسی جماعتوں پر تنقید کی جا رہی ہے کہ وہ مشکل کی اس گھڑی میں کوئی ایسا متبادل نظام بنانے میں ناکام رہی ہیں جو عوامی رابطے کے ذریعے لوگوں کی بنیادی سطح پر منظم طریقے سے مدد کرے۔
اردونیوز نے مقامی سطح پر حالات کا اندازہ لگانے کے لیے پاکستان کے مختلف علاقوں میں عام لوگوں سے بات کی ہے جن کا کہنا تھا کہ حکومت اور سیاسی جماعتوں کی عدم موجودگی میں سماجی تنظیمیں اور عام لوگ ایک دوسرے کے سہارے پر ہیں۔
شہریوں کا کہنا ہے کہ اگر سیاسی جماعتیں صحیح معنوں میں اپنے ووٹروں سے قریبی رابطے میں ہوتیں تو آج اسی طرح گھر گھر جا کر دروازوں پر لوگوں کی مدد کرتیں جیسے کہ وہ الیکشن کے موقعے پر ہر ووٹر کی پرچی اس کو اس کے گھر میں پہنچاتی ہیں اور ’ٹائیگر فورس‘ کے قیام کی ضرورت نہ پڑتی۔
وزیراعظم عمران خان کے حلقے میانوالی کے رہائشی مقامی صحافی محمد بلال خان نے اردو نیوز کو بتایا کہ وہاں سے اب تک کورونا کے چار مریضوں کی تشخیص ہو چکی ہے لیکن مشکل حالات میں لوگوں کی مدد کرنے کے لیے کوئی بھی خاطر خواہ اقدامات نہیں کر رہا۔

لوگ حکومتی امداد کے منتظر ہیں (فوٹو: اے ایف پی)

’یہاں کسی نے بھی ڈور ٹو ڈور مہم شروع نہیں کی تا کہ مشتبہ مریضوں کو گھروں سے تلاش کیا جا سکے یا کسی ضرورت مند کو راشن پہنچایا جائے۔ سرکاری طور پر صرف اس علاقے میں کچھ امداد بھیجی گئی ہے جس کو کورونا مریض نکلنے پر بند کیا گیا تھا۔‘
انہوں نے مزید کہا کہ ’وزیراعظم کے حلقے میں تقریبا 70 فیصد لوگ دیہاڑی دار مزدور ہیں، وہ انتہائی پریشان ہیں۔ حکومت ان کو آٹا فراہم کرنے میں مکمل طور پر ناکام ہوچکی ہے، روزانہ اگر آٹے کے 500 تھیلے چاہئیں ہوں تو وہ صرف 100 کا بندوبست کر پاتے ہیں۔‘
ان کے بقول ’سیاسی جماعتیں اور عوامی نمائندے تو موسمی پرندے بن کر غائب ہوگئے ہیں۔ وزیراعظم عمران خان کے خاص نمائندے جن کو انہوں نے حلقے کے امور دیکھنے کے لیے متعین کیا ہوا ہے نہ ان کا پتا ہے اور نہ ہی مسلم لیگ نواز کے کسی رکن کا۔ باقی سیاسی جماعتوں کو تو یہاں کوئی جانتا ہی نہیں۔‘
بلال خان نے بتایا کہ مقامی سماجی تنظیمیں اور کچھ لوگ انفرادی سطح پر ضرورت مندوں کی مدد کر رہے ہیں جب کہ سرکاری انتظامیہ آٹے کے بحران سے ہی نہیں نکل پا رہی۔

کچھ فلاحی تنظیمیں اپنے طور پر شہریوں کی مدد کر رہی ہیں (فوٹو: اے ایف پی)

اپوزیشن لیڈر شہباز شریف کے حلقے کے رہائشی یونس عدیل کا کہنا ہے کہ لاہور کے کئی حصوں میں لاک ڈاؤن کامیاب نہیں ہوا اور لوگ اسی وقت گھروں کو جاتے ہیں جب انہیں پولیس دکھائی دیتی ہے۔
تاہم ان کا کہنا تھا کہ عوامی نمائندے ڈر رہے ہیں اور لوگوں سے مل کر انہیں لاک ڈاؤن پر رضا مند کرنے کی کوئی کوشش نہیں کر رہے۔
’شہباز شریف خود تو نہیں آئے لیکن ان کے متعین کیے گیے نمائندے طلحہ برکی یہاں آتے رہتے ہیں۔ انہوں نے پارٹی کے کچھ اراکین کو لوگوں کی مدد کرنے کے لیے کہا ہے لیکن ابھی عملی طور پر کوئی قدم نہیں اٹھایا گیا۔ یہاں سماجی تنظیمیں بھی سرگرم نہیں ہیں۔ سب (سرکاری مدد کا) انتظار کر رہے ہیں۔‘
لاڑکانہ کے سماجی کارکن ریاض پیرزادہ نے بتایا کہ بلاول بھٹو کے حلقے کے پیپلز پارٹی کے صوبائی رکن اسمبلی اور کچھ یونین کونسلز کے اراکین نے اجلاس تو منعقد کیے ہیں لیکن لوگوں کی مدد کے لیے ابھی تک عملی سطح پر کوئی قدم نہیں اٹھایا گیا۔
’حکومت لوگوں کو جمع ہونے سے روکنے کے لیے کافی سختی کر رہی ہے۔ کام بند ہونے کی وجہ سے بہت لوگ بے روزگار ہو گئے ہیں۔ مزدور بہت ہی پریشان ہیں، کوئی انہیں راشن یا مدد نہیں پہنچا رہا۔‘
انہوں نے کہا کہ ’لوگ حکومتی اراکین کے ڈیروں پر رابطے کرتے ہیں تو وہاں سے جواب ملتا ہے کہ سرکاری پیکیج آ رہا ہے، پیکیج آئے گا تو مدد ملے گی۔ بلاول نے خود کو کراچی یا دبئی میں سیلف آئیسولیشن میں رکھا ہوا ہے، دوسری بڑی سیاسی جماعتوں جی ڈی اے (گرینڈ ڈیمو کریٹک الائنس)  اور جئیے سندھ کی طرف سے بھی کوئی اقدامات نہیں اٹھائے گئے۔‘

لاک ڈاؤن کی وجہ سے ملک میں لاکھوں لوگوں کا کام ٹھپ ہوگیا ہے (فوٹو: اے ایف پی)

جمعیت علمائے اسلام کے سربراہ مولانا فضل الرحمان کے علاقے سے تعلق رکھنے والے ایک سرکاری ملازم عصمت شاہ کا کہنا تھا کہ ڈیرہ اسماعیل خان اور ٹانک دونوں اضلاع جو مولانا کا سیاسی گڑھ سمجھے جاتے ہیں میں کوئی بھی مستحق لوگوں کی مدد نہیں کر پا رہا۔
’یہاں سب کچھ ہی ختم ہو گیا ہے، اس علاقے کے ہزاروں لوگ ریڑھی بان یا دیہاڑی دار مزدور ہیں۔ ان کا کام ٹھپ ہو گیا ہے۔ ان کی تعداد اتنی زیادہ ہے کہ سماجی حلقے سر توڑ کوشش کر کے بھی سب کی مدد نہیں کر سکتے اور سرکاری یا سیاسی طبقات کی اس طرف توجہ نہیں ہے۔‘
’مولانا فضل الرحمان توآج تک گھر سے ہی نہیں نکلے۔ ان کے بیٹے اسد محمود جو ٹانک سے رکن قومی اسمبلی ہیں، آج اسلام آباد سے آئے ہیں اور ابھی تک صرف ایک پریس کانفرنس کی ہے۔ ڈیرہ اسماعیل خان سے پی ٹی آئی کے رکن قومی اسمبلی علی امین گنڈاپور نے کورونا ٹیسٹ کی لیبارٹری قائم کرنے کا اعلان کیا ہے، لیکن عملی قدم کوئی نہیں اٹھایا جا رہا۔‘
وسطی پنجاب میں زرعی ادویات کے کاروبار سے منسلک جھنگ کے شہری اختر علی تارڑ کا کہنا تھا کہ ان کے علاقے میں انتظامی و سیاسی مشینری تو درکنار مقامی ڈاکٹرز بھی کورونا کے ڈر سے اپنے کلینکس بند کر کے غائب ہو گیے ہیں اور ضرورت مند افراد کی مدد اب عام لوگ انفرادی سطح پر کر رہے ہیں۔
’لوگ وٹس ایپ پر مہم چلا کر بے روزگار ہونے والوں کے لیے فنڈ اکٹھا کر رہے ہیں، اور ان کے راشن کا بندوبست کرنے کی کوشش کر رہے ہیں۔‘

ضرورت مندوں کی مدد کے لیے شہری واٹس ایپ پر مہم چلا رہے ہیں (فوٹو: اے ایف پی)

جہلم کی کاروباری شخصیت ناصربٹ نے اردو نیوز کو بتایا کہ ان کے علاقے میں ایک لطیفہ بن گیا ہے کہ ’لاک ڈاون پرصیح عمل سیاسی نمائندے کر رہے ہیں۔ کیونکہ جب سے کورونا آیا ہے وہ نہ تو باہر نکلے ہیں اور نہ ہی انہوں نے کسی کی مدد کی ہے۔‘
اسلام آباد کے ڈپٹی کمشنر حمزہ شفقات نے اردو نیوز کو بتایا کہ عوامی نمائندے پس منظر میں رہ کر انتظامیہ کو ضرورت مند افراد کی فہرستیں مہیا کر رہے ہیں۔ ان کا کہنا تھا کہ انتظامیہ ان کو سامنے نہیں لانا چاہتی کیونکہ اس سے امدادی کاموں کو ایک ’سیاسی زاویہ‘ مل جائے گا۔
  • واٹس ایپ پر پاکستان کی خبروں کے لیے ’اردو نیوز‘ گروپ جوائن کریں

شیئر: