Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

’جو چیز بنتی ہے ہاتھوں ہاتھ بکتی ہے‘

لاہور کے علاقے ٹاؤن شپ میں یہ شام پانچ بجے کا وقت ہے اور ایک گھر کے ایک حصے کو عارضی دفتر میں تبدیل کر دیا گیا ہے۔ مین لاونج سے فرنیچر ہٹا کر بس دو میز اور چار چار کرسیاں رکھی ہوئی ہیں۔
میز کی دوسری طرف دو حضرات ماسک پہنے ہاتھوں پر دستانے چڑھائے لگاتار اپنے موبائل فونز پر مصروف ہیں۔ بیک وقت دونوں فون کانوں سے لگائے ہوئے ہیں۔ بائیں فون سے ریٹ سن کر دائیں کان سے لگائے ہوئے فون میں ریٹ بتائے جا رہے ہیں۔
’جناب! سادہ ماسک کے 2000 ڈبے 1300 روپے کے ریٹ پر دستیاب ہیں۔ جی؟ نہیں جی پیمنٹ نقد۔ نہیں سر جی آپ جب دوبارہ فون کریں گے تو شائد یہ ریٹ نہ ہو اور ہو سکتا ہے کہ اتنی مقدار میں ماسک بھی نہ ہوں۔‘ 
فون بند ہوتا ہے تو پھر گھنٹی بجتی ہے ’ہیلو ۔۔ اچھا ۔۔ پروٹیکٹیو کٹ ۔۔ کیا ریٹ ہے؟ ۔۔ وٹس ایپ پر تصویر بھیجو ابھی بتاتا ہوں۔‘
یہ محمد عارف (فرضی نام) ہیں جو میڈیکل سے متعلق مختلف اشیا کی فراہمی کا کاروبار کرتے ہیں لیکن جب سے کورونا کی وبا پھیلی ہے انہوں نے دیگر اشیا کو چھوڑ کر کورونا سے بچاو کے لیے ماسک، پروٹیکٹو کٹ اور اسی طرح کی چیزیں فراہم کرنا شروع کر دی ہیں۔ 

محمد عارف نے بتایا کہ ’سب سے زیادہ  ماسک اور ڈاکٹروں کے پہننے والی پروٹیکٹو کٹس کی ڈیمانڈ آرہی ہے (فوٹو: سوشل میڈیا)

اردو نیوز سے بات کرتے ہوئے محمد عارف نے بتایا کہ اس وقت کورونا کے بچاؤ کے لیے استعمال ہونے والی اشیا کی اتنی قلت ہے کہ چوبیس گھنٹے کام ہو رہا ہے لیکن پھر بھی چیزیں پوری نہیں ہو رہیں۔
پاکستان میں لاک ڈاون کا دوسرا ہفتہ جاری ہے اور بظاہر کاروباری سرگرمیاں نہ ہونے کے برابر ہیں مگر ایسے میں ایک کاروبار ایسا ہے جس نے نئی جہتیں تلاش کر لی ہیں اور وہ ہے کورونا وائرس سے بچاؤ کے لیے سازو سامان کی ترسیل۔

ڈیمانڈ اینڈ سپلائی چین

محمد عارف سے جب ہم نے پوچھا کہ سب سے زیادہ کیا چیز فروخت ہورہی ہے تو انہوں نے بتایا کہ ’سب سے زیادہ جس چیز کی ڈیمانڈ آرہی ہے وہ ہے ہر طرح کا ماسک اور ڈاکٹروں کے پہننے والی پروٹیکٹو کٹس۔‘
انہوں نے کہا کہ ’فیصل آباد اور سیالکوٹ کے کچھ کارخانیں جو پہلے شاپنگ بیگ یا اس سے ملتی جلتی پراڈکٹ بناتے تھے اب وہ ماسک اور کٹس بنا رہے ہیں چونکہ اس معیار کی مشینری نہیں ہے اس لیے سست کام ہو رہا ہے اور جو بھی چیز بنتی ہے وہ ہاتھوں ہاتھ بک جاتی ہے۔‘
لاہور سے تعلق رکھنے والے عرفان علی (فرضی نام) جو مختلف سرکاری ہسپتالوں میں حفظان صحت سے متعلق پراڈکٹس سپلائی کرتے ہیں، نے بتایا کہ اس وقت ایمرجنسی صورت حال ہے اور حفاظتی سامان کی خرید و فروخت اپنے عروج پر ہے۔

عرفان علی کہتے ہیں چوبیس گھنٹے کام ہو رہا ہے لیکن پھر بھی چیزیں پوری نہیں ہو رہیں (فوٹو: سوشل میڈیا)

’آپ اس بات سے اندازہ لگائیں ایک کارگو طیارہ لاہور ایئرپورٹ پر لینڈ ہوتا ہے تو جس نے بھی کورونا سے متعلق سامان درآمد کیا ہوتا ہے وہ ایئرپورٹ سے ہی اس کی تصاویر اور ویڈیوز مختلف گروپس میں ڈال دیتا ہے اور اگلے آدھے گھنٹے تک وہ سامان بک بھی چکا ہوتا ہے۔‘
انہوں نے بتایا کہ اس وقت صورت حال یہ ہے کہ  کاروباری افراد جو کسی نہ کسی طرح سے میڈیکل سپلائی لائن سے وابستہ تھے ان کا ایک نیٹ ورک ہے جو سرکاری و غیر سرکاری ہسپتالوں سے لے کر میڈیکل سٹورز تک پھیلا ہوا ہے۔ ہر وقت وٹس ایپ پر کسی نا کسی پراڈکٹ کی تصویر یا ویڈیو آرہی ہوتی ہے اور آپ نے اسی وقت ہاں یا نہ میں جواب دینا ہوتا ہے۔
عرفان نے بتایا کہ چونکہ سپلائی چین میں بہت سے لوگ شامل ہو چکے ہیں اور ہر کوئی اپنا منافع سائیڈ پر کر لیتا ہے اس لیے یہ چیزیں مہنگی فروخت ہورہی ہیں۔ ’آپ ایک پروٹیکٹو کٹ کو ہی لے لیں، سیالکوٹ سے یہ 180 روپے میں نکلتی ہے اور اس میں دو سے تین بروکر شامل ہونے کے بعد وہ 450 سے 500 روپے میں فروخت ہو رہی ہے اور یہ سارا کام کیش پر ہو رہا ہے۔‘

معیار کی جانچ

فارماسوٹیکل صنعت سے منسلک جانی پہچانی شخصیت نور مہر یہ سمجھتے ہیں کہ اس ایمرجنسی صورت حال میں پراڈکٹس کا معیار خراب ہو چکا ہے۔ 

نور مہر یہ سمجھتے ہیں کہ اس ایمرجنسی صورت حال میں پراڈکٹس کا معیار خراب ہو چکا ہے (فوٹو:سوشل میڈیا)

انہوں نے بتایا کہ سال 2015 میں ڈرگ ریگولیٹری اتھارٹی نے ایس آر او 204 جاری کیا تھا۔ یہ قانون بنیادی طور پر حفاظتی لباس سے متعلق ہے جس میں اس میٹیریل کا سٹیئرلائز ہونا بڑا ضروری ہے جس سے ڈاکٹروں کے حفاظتی لباس بنائے جا رہے ہیں۔
نور مہر کا کہنا ہے کہ ’اب تو ہر چیز بغیر کسی پیمانے کے بنائی جا رہی ہے، ہوزری کا کام کرنے والوں نے دھڑا دھڑ کپڑے کے ماسک بنانا شروع کر دیے ہیں۔ آپ کو ہر سڑک پر بکتے نظر آئیں گے حالانکہ بین الاقوامی معیار کے مطابق کپڑے کا ماسک کسی بھی وائرس سے بچاؤ میں صفر حد تک معاون ہے۔‘
’اسی طرح جو سرجیکل ماسک یا دستانے بنائے جا رہے ہیں وہ جس میٹیریل کے بنتے ہیں اس کا معیاری اور سائز کا درست ہونا بہت ضروری ہے۔‘ 
ان کا مزید کہنا تھا کہ حکومت کو چاہیے کہ اس وقت نئے معیار متعارف کروائے جو ڈیمانڈ اینڈ سپلائی چین کو متاثر نہ کرے۔ 
  • واٹس ایپ پر پاکستان کی خبروں کے لیے ’اردو نیوز‘ گروپ جوائن کریں

شیئر: