Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

کن مریضوں کو گھروں میں قرنطینہ کی اجازت مل سکتی؟

ماہرین کے مطابق لوگوں کے گھروں میں قرنطینہ ہونے سے ہسپتالوں پر بوجھ کم ہوگا (فوٹو: روئٹرز)
 کورونا کے حوالے سے قائم ماہرین کی مشاورتی کمیٹی نے حکومت کو وائرس کے بڑھتے ہوئے کیسز سے نمٹنے کے لیے بڑے شہروں میں مقیم صاحبِ حیثیت مریضوں کو گھروں پر ہی علیحدگی میں رکھنے کی تجویز دی ہے۔ کمیٹی کے مطابق 'اس تجویز کا مقصد یہ ہے کہ ملک کے ہسپتالوں پر بوجھ نہ پڑے اور صرف شدید بیمار مریضوں کو ہی ہسپتال میں رکھا جائے۔'
اردو نیوز سے بات کرتے ہوئے پنجاب حکومت کے تشکیل کردہ ماہرین کے مشاورتی گروپ کے چیئرمین ڈاکٹر محمود شوکت نے بتایا کہ 'انہوں نے وزیراعظم عمران خان اور وزیراعلٰی پنجاب عثمان بزدار تک یہ تجویز پہنچائی ہے کہ بڑے شہروں میں کورونا کے ایسے مریضوں کو جو خود قرنطینہ جیسی سہولیات کا اہتمام کر سکتے ہیں کو اپنے گھروں میں ہی رہنے کی اجازت دی جائے۔'

 

ان کا کہنا تھا کہ 'فی الحال حکومت نے ان کی تجویز پر عمل درآمد نہیں کیا ہے اور بظاہر چین سے آنے والے ماہرین کے مشورے کے مطابق چینی ماڈل پر ہی عمل درآمد ہو رہا ہے۔' 'اس ماڈل کے تحت کورونا کے مریضوں کو حکومت کی مقرر کردہ جگہوں میں رکھا جاتا ہے تاکہ وہ حکام کی نگرانی میں رہیں اور دوسروں تک یہ مرض منتقل نہ کریں۔'
تاہم انہوں نے کہا کہ 'یورپ کے کئی ممالک میں دوسرے ماڈل پر عمل درآمد ہو رہا ہے۔' 'یورپ میں ایسے لوگوں کو جو زیادہ بیمار نہ ہوں مگر ان کا کورونا مثبت آئے کو اپنے ہی گھروں میں 14 دن تک علیحدہ رہنے کا کہا جاتا ہے اور صرف ان مریضوں کو ہسپتال لے جایا جاتا ہے جن کی حالت بگڑ جائے۔'
'اس کی بڑی مثال برطانوی وزیراعظم بورس جانسن ہیں جو ٹیسٹ مثبت آنے پر اپنے گھر میں ہی قرنطینہ میں رہے حتیٰ کہ کئی دن بعد طبیعت خراب ہونے پر انہیں ہسپتال منتقل کیا گیا۔'
انہوں نے کہا کہ 'پاکستان کے موجودہ چینی ماڈل کے لیے بھی دلائل موجود ہیں کہ یہاں پر لوگ یورپ کی طرح ذمہ دار نہیں اور خدشہ ہوتا ہے کہ وہ باہر نکل کر دوسروں کو وائرس منتقل نہ کر دیں۔'

ماہرین کہتے ہیں کہ ہسپتال دور دراز کے مریضوں کے لیے مخصوص کر دیں (فوٹو: اے ایف پی)

ڈاکٹر محمود شوکت کا کہنا تھا کہ 'پاکستان کے پاس چین جیسے وسائل نہیں کہ 10 روز میں ہسپتال بنا دیں اس لیے جب مریضوں کی تعداد بڑھے گی تو چین کا ماڈل بہرحال بدلنا ہی پڑے گا۔'
'مجھے یقین ہے کہ حکومت ماہرین کی تجویز بالآخر مان ہی لے گی اور چند مخصوص شرائط پر پورا اترنے والے مریضوں کو گھروں میں ہی قرنطینہ کی اجازت دے دی جائے گی۔'
اس سوال پر کہ وہ کونسے مریض ہیں جن کو گھروں پر ہی رکھنے کی تجویز دی گئی ہے ڈاکٹر شوکت کا کہنا تھا کہ 'لاہور، کراچی اور اسلام آباد جیسے بڑے شہروں میں بڑے گھروں میں رہنے والے پڑھے لکھے افراد کو یہ اجازت دی جا سکتی ہے کہ وہ خود کو ایک کمرے تک ہی محدود کر لیں اور 11 یا 14 دن علیحدہ گزار کا صحت یابی کا انتظار کریں۔ہاں اگر ان کی طبیعت بگڑ جائے تو انہیں ہسپتال منتقل کیا جا سکتا ہے۔'

چینی ماہرین نے کورونا کے مریضوں کو ہسپتالوں میں رکھنے کی تجویز دی ہے (فوٹو: روئٹرز)

'دوسری طرف حکومتی قرنطینہ سینٹرز اور ہسپتال دُوردراز کے علاقوں میں رہنے والے اور ایک یا دو کمرے کے گھر میں بڑے خاندان کے ساتھ رہنے والے افراد کے لیے مخصوص کر دینے چاہییں۔اس کی وجہ یہ ہے کہ ایسے لوگ گھروں میں باقی افراد کو کورونا منتقل کر سکتے ہیں اور دوردراز سے لوگ طبیعت خراب ہونے کی صورت میں فوری طور پر ہسپتال نہیں پہنچ پاتے اس لیے انہیں حکومتی نگرانی میں رکھا جانا چاہیے۔'
ڈاکٹر شوکت پنجاب میں سپیشلائزڈ ہیلتھ کیئر اور میڈیکل ایجوکیشن کے سیکرٹری بھی ہیں۔ ان کا کہنا تھا کہ 'لاہور کے میو ہسپتال، سروسز ہسپتال اور اسی طرح دیگر شہروں کے پرہجوم بڑے ہسپتال کورونا کے مریضوں کو رکھنے کے لیے موزوں نہیں ہیں۔'

ماہرین کے مطابق پُرہجوم ہسپتالوں میں کورونا پھیلنے کا خدشہ زیادہ ہے (فوٹو: اے ایف پی)

'اس طرح ایک تو عام امراض میں مبتلا لوگوں کا علاج متاثر ہوتا ہے اور ان تک کورونا منتقل ہونے کے خدشات میں اضافہ ہو جاتا ہے، دوسرا عام ڈاکٹروں اور طبی عملے میں بھی کورونا کے پھیلنے کا خدشہ بڑھ جاتا ہے۔'
'ابھی تو شکر ہے کہ ہمارے ملک میں مریضوں کی تعداد کم ہے اور ہسپتال اس قابل ہیں کہ وہ سب کو سہولیات مہیا کر سکیں مگر جب مریض زیادہ بڑھ جائیں گے تو پھر جگہ بھی کم پڑ جائے گی اور صحت مند ڈاکٹروں کی بھی شدت سے ضرورت محسوس ہو گی اس لیے ضروری ہو گا کہ گھروں پر قرنطینہ کی اجازت دی جائے۔'

ماہرین نے صاحبِ حیثیت مریضوں کو گھروں پر رکھنے کی تجویز دی ہے (فوٹو: اے ایف پی)

ایک اور سوال پر ڈاکٹر شوکت کا کہنا تھا کہ 'اگرچہ ماہرین کی کمیٹی حکومت نے خود تشکیل دی ہے مگر ہمارا کردار مشاورتی نوعیت کا ہے اور حکومت پر لازم نہیں کہ وہ ہماری ہر تجویز پر عمل کرے، تاہم اب تک کمیٹی کی کئی تجاویز مان کر ٹیسٹ کرنے اور مریضوں کو ڈیل کرنے کے نظام میں چند تبدیلیاں کی گئی ہیں۔'
لاہور کی یونیورسٹی آف ہیلتھ سائنسز کے وائس چانسلر پروفیسر ڈاکٹر جاوید اکرم نے اردو نیوز کو بتایا کہ 'انہوں نے بھی اسی طرح کی تجاویز حکومتی کمیٹی تک پہنچائی ہیں۔'
'حکومت کو مریضوں میں چند شرائط کو دیکھ کر فیصلہ کرنا ہو گا کہ آیا انہیں گھر پر رکھنے کی اجازت دی جا سکتی ہے یا نہیں۔'

ماہرین کی تجویز پر ابھی مریضوں کو گھروں پر قرنطینہ کی اجازت نہیں ملی (فوٹو: اے ایف پی)

 اس سے قبل ڈپٹی کمشنر اسلام آباد حمزہ شفقات نے اردو نیوز کو بتایا تھا کہ 'وفاقی دارالحکومت میں پالیسی کے تحت صرف ایسے مریضوں کو ہسپتالوں میں رکھا جا رہا ہے جن کی حالت تشویش ناک ہو اور انہیں طبی امداد کی ضرورت ہو۔'
'کورونا وائرس کا شکار ایسے افراد جن کی بظاہر صحت ٹھیک ہو ان کو گھروں پر ہی قرنطینہ کی اجازت ہے، تاہم پنجاب اور دیگر صوبوں میں ابھی تک یہ پالیسی نہیں نافذ کی گئی ہے۔'

شیئر: