Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

’عورت آج بھی مرد سے کم تر‘

’سٹیج کی حالت خراب کرنے کی ذمہ داری حکومت کی ہے۔‘ (فوٹو: سوشل میڈیا)
پاکستانی ڈرامہ انڈسٹری کی لیجنڈ اداکارہ ثمینہ احمد نے حال ہی میں منظر صہبائی سے شادی کی ہے جو رواں ماہ اپریل کی چار تاریخ کو کراچی میں ہوئی ہے۔
اردو نیوز کے ساتھ ایک انٹرویو میں انہوں نے اپنے اداکاری کے سفر، سٹیج، فلم اور ڈرامہ انڈسٹری کے حوالے سے پوچھے گئے بہت سارے سوالوں کے جوابات دیے ہیں۔
ان سے سوال کیا گیا کہ مرد زندگی کے کسی حصے میں شادی کا فیصلہ کرے تو اس پر تنقید نہیں کی جاتی عورت ایسا کرے تو اس پر تنقید کے نشتر چلائے جاتے ہیں ایسا کیوں؟

 

ثمینہ احمد کہتی ہیں کہ 'ایسا اس لیے ہے کیونکہ عورت کو ہم  نے کبھی انڈیپینڈیٹ ہستی سمجھا ہی نہیں ہے اس کو مرد کے برابر حقوق اور درجہ دیا جائے تو شاید ایسی تنقید نہ ہو۔'
'ہم آج بھی عورت کو مرد سے کمتر سمجھتے ہیں۔ وہ آزادی سے اپنے فیصلے نہیں کر سکتی۔ باپ اور بھائی کی مرہون منت رہتی ہے۔'
آپ نے شادی کا فیصلہ کیا تو سوسائٹی یا فیملی کے پریشر کا کوئی خوف تھا؟
اس کے جواب میں انہوں نے کہا کہ 'میری فیملی کی طرف سے کوئی پریشر نہیں تھا بس یہ ہے کہ میں نے ایک فیصلہ کیا اور پُر اعتماد تھی، میرے اس فیصلے کو لوگوں کی جانب سے بھی سراہا گیا، میں سمجھتی ہوں کہ ہم بلاوجہ ہی لوگوں کو انڈر ایسٹیمیٹ کرتے ہیں حقیقت یہ ہے کہ ہم خود ڈر جاتے ہیں جس کی وجہ سے ایسا سوچتے ہیں کہ سوسائٹی کی طرف سے پریشر آئے گا۔'
'میرا تو یہی خیال ہے کہ آپ اگر کوئی فیصلہ کریں تو اس کے نتائج اچھے ہوں یا برے اس کا سامنا آپ نے خود ہی کرنا ہوتا ہے لہذا کسی قسم کا بھی پریشر لینے کی ضرورت ہوتی بھی نہیں۔'
انٹرویو کے دوران انہوں نے کہا کہ صحافی اور بہت سارے لوگ اس سوال میں پھنس کر رہ گئے ہیں کہ آخر کیوں ڈرامے غیر ازدواجی تعلقات اور ساس بہو کے جھگڑوں میں پھنس کر رہ گئے ہیں۔ ان کا مزید کہنا تھا کہ کسی حد تک بات درست بھی ہے لیکن یہ بہت سے گھروں کی ہی کہانیاں ہیں۔ 'ہاں یہ ضروری نہیں کہ ہر گھر میں ایسا ہورہا ہو۔'
'یاد رکھیے گا کہ کہانی ہمیشہ وہاں بنتی ہے جہاں کوئی غیر معمولی بات ہو رہی ہو، اگر میاں بیوی اور ساس بہو کے تعلقات آئیڈیل ہوں تو پھر تو کہانی کیا بنے گی۔ کہانی بنانے کے لیے کشمکش پیدا کرنا پڑتی ہے اور یہ بھی حقیقی زندگی سے ہی لیا جاتا ہے اور پھر اس کو ڈویلپ کر لیا جاتا ہے۔'

’اب عورت کو امپاور کرنے اور اعتماد دینے کی ضرورت ہے۔‘ فوٹو: سوشل میڈیا

'میں مانتی ہوں کہ ہمیں اس طرح کے ڈرامے جس میں عورتوں پر ظلم ڈھائے جاتے ہیں ان سے باہر نکلنا چاہیے۔ ہم کیوں یہ دِکھاتے ہیں کہ عورت کو ہمیشہ مرد کے سہارے کی ضرورت ہوتی ہے اسکے بغیر وہ زندگی نہیں گزار سکتی؟'
انہوں نے مزید کہا 'ہمارے ڈراموں میں کہیں نہ کہیں ایسا پیغام ضرور ہونا چاہیے کہ ایک عورت اپنی زندگی کے نہ صرف خود فیصلے کر سکتی ہے بلکہ اکیلے گزارنا چاہے تو گزار سکتی ہے۔'
'کہانیاں ایسی ہونی چاہیں کہ کسی لڑکی پر ظلم ڈھائے جا رہے ہیں یا وہ بہت پریشان ہے تو گھر بیٹھی لڑکیاں جن کے ساتھ ایسا کچھ ہو رہا ہے، وہ دیکھ کر کسی حل کی طرف جا سکیں، ان کوآپشن نظر آئے کہ اگر کوئی پریشانی آگئی ہے تو اس سے کیسے نکلنا ہے۔'
'میرے خیال سے بس بہت ہو گیا ظلم و ستم اب عورت کو امپاور کرنے اور اعتماد دینے کی ضرورت ہے۔'
ایک سوال کے جواب میں انہوں نے کہا کہ 'سوسائٹی کو ہم انڈر ایسٹیمیٹ کرتے ہیں حالانکہ سوسائٹی کا ایک بڑا حصہ باشعور ہے جو کہ ہر بات کھلے دل سے قبول کرتا اور سمجھتا ہے۔  ہاں ہم یہ کہہ سکتے ہیں کہ کہیں کہیں مزاحمت کا سامنا کرنا بھی پڑ جاتا ہے لیکن اس کا مطلب یہ نہیں ہے کہ سوسائٹی کھلے دل سے کچھ قبول ہی نہیں کرتی۔'
'باقی ٹی وی کا کام میرے حساب سے صرف اینٹرٹینمنٹ دینا نہیں ہے لوگوں کو باشعور کرنا بھی ہے اور باشعور وہ لوگ کر سکتے ہیں جو تخلیقی کام کر رہے ہیں۔'

’ لوگوں کے رویوں میں تبدیلی لانا تخلیق کاروں کا فرض ہے۔‘ فوٹو: ٹوئٹر

'تخلیقی کام لکھاری، آرٹسٹ، پرڈیوسر وغیرہ بخوبی کر سکتے ہیں بلکہ لوگوں کو ایجوکیٹ کرنا، ان کی سوچنے کی صلاحیت کو بہتر کرنا، خوبصورتی کی طرف لے کر جانا، ان کے رویوں میں تبدیلی لانا تخلیق کاروں کا بھی فرض ہے۔'
چینلز کا ڈراموں کی کہانیوں میں مداخلت اور لکھاری کو ڈکٹیٹ کرنے کے حوالے سے ثمینہ احمد نے کہا کہ 'چینل کی مداخلت سے مراد چینل میں کام کرنے والے لوگ ہی ہوتے ہیں اور یہ ہمیشہ سے ہی ہوتا آیا ہے کہ پرڈیوسر اور رائٹر مل کر کام کرتے ہیں۔'
'ایسا کبھی بھی نہیں ہوا کہ لکھاری صرف اپنی مرضی چلائے ہاں یہ ضرور غلط ہے کہ کوئی چینل ایک ہی طرح کے موضوعات پر کہانیاں لکھوائے اور بنوائے اور کسی اور موضوع کی طرف جانے کو تیار ہی نہ ہو۔'
'آج کل کی کہانیاں یکسانیت کا شکار کیوں ہیں اس سوال کے جواب میں لیجنڈ اداکارہ نے کہا کہ مجھے کام کرتے ہوئے 50 سال سے زائد کا عرصہ بیت چکا ہے اور اس دوران میں نے ڈراموں پر بہت سارے فیز آتے دیکھے۔'
'کبھی کسی سال ایک طرح کے موضوعات ہٹ ہوتے ہیں تو دوسرے ہی سال دوسری طرح کے موضوعات ہٹ ہوجاتے ہیں۔ لہٰذا ہم یہ نہیں کہہ سکتے کہ کسی بھی دور میں ڈراموں کی کہانیاں یکسانیت کا شکار ہیں۔'
ثمینہ احمد نے مزید کہا کہ 'مجھے بہت خوشی ہے کہ آج کل خواتین کو کام کرنےکا بہت زیادہ موقع میسر آرہا ہے، ڈرامے بھی بڑی تعداد میں آج خواتین لکھ رہی ہیں میرے خیال میں وہ زیادہ حساس ہوتی ہیں اور انہیں مردوں کی نسبت خواتین کے مسائل کا زیادہ اندازہ ہوتا ہے لیکن اس بات کا مطلب یہ نہیں ہے کہ مرد حضرات خواتین کے مسائل کے بارے میں نہیں جانتے یا وہ لکھ نہیں سکتے۔'

’آج کا ڈرامہ چوبیس پچیس یا چھبیس اقساط کا ہوتا ہے۔‘ فوٹو: فیس بک

'ایک وقت تھا کہ ڈرامے عورتوں کے گرد اس قدر گھوم رہے تھے کہ مردوں کا کردار برائے نام ہی رہ گیا تھا لیکن اب پھر سے کہانیاں ایسی لکھی جا رہی ہیں جن میں مردوں کے کردار بھی نظر آرہے ہیں اور اسی طرح سے ہونا چاہیے، کہانیاں بیلنسڈ ہی اچھی لگتی ہیں۔'
'میں ماضی اور حال کے ڈرامے کا موازنہ کرنا پسند نہیں کرتی۔ جو لوگ آج کے ڈرامے پر تنقید کرتے ہیں انہیں سمجھنا چاہیے کہ وقت تبدیل ہو چکا ہے 30 سال پہلے کا ڈرامہ آج سست لگتا ہے۔ آج ڈرامہ 13 اقساط کا نہیں ہے، پہلے ڈرامہ 13 اقساط کا ہوتا تھا آج 24 25 یا 26 اقساط کا ہوتا ہے۔'
'پہلے سیٹ لگا کر ڈرامے شوٹ کیے جاتے تھے۔ دو تین کرداروں کیساتھ ہی ڈرامہ مکمل کر لیا جاتا تھا لیکن آج ڈرامے کی اقساط زیادہ ہونے کی وجہ سے سیٹ پر شوٹ کرنا ممکن نہیں، پہلے ریہرسلز ہوا کرتی تھیں ایک ہفتے میں ایک ہی قسط شوٹ کرنی ہوتی تھی تو ریہرسل کرنا ممکن تھا لیکن آج ڈرامہ لمبا ہے اس لیے ریہرسلز کرنا ممکن نہیں۔'
'پہلے تین چار کیمروں پر کام ہوتا تھا، آج سنگل کیمرے پر کام ہو رہا ہے، لہٰذا سمجھنے کی ضرورت ہے کہ آج ڈرامے کے لوازمات اور ڈیمانڈز اور ہیں۔'
'ریٹنگ کیا چیز ہے اور یہ کتنی جینوئن ہے اس سوال کے جواب میں اداکارہ نے کہا کہ جو کمپنی ریٹنگ کر رہی ہے اس نے چند ایک میٹرز کراچی میں لگائے ہیں، چند حیدر آباد اور اسی طرح چند ایک لاہور میں لگائے ہیں، جبکہ ہماری آبادی بہت زیادہ ہے اس لیے ریٹنگ سامپلز کے نتائج زیادہ تسلی بخش نہیں ہیں۔'
'اگر صحیح معنوں میں پتہ کرنا ہے کہ کون سا ڈرامہ کتنا دیکھا جا رہا ہے تو ریٹنگ میٹرز کی تعداد بڑھانا ہو گی۔'

’ میں نے جب کام شروع کیا میری عمر اٹھارہ برس تھی۔‘ فوٹو: سوشل میڈیا

'دوسرا میں نے تو ایسا سروے ہوتا نہیں دیکھا جس میں گھر گھر جا کر سوالنامہ دے کر لوگوں سے پوچھا جائے کہ وہ کس قسم کے ڈرامے دیکھنا پسند کرتے ہیں۔'
ثمینہ احمد نے مزید کہا کہ 'میں نے جب کام شروع کیا میری عمر 18 برس تھی، میں نے بلیک اینڈ وائٹ دور دیکھا، پھر لائیو اور ریکارڈنگز آگئیں، پھر مختلف سٹیشنز آئے پہلے لاہور پھر اسلام آباد اور پھر کراچی سمیت دیگر، ہر سٹیشن پر کام کرنے کا ماحول بھی مختلف ہوتا تھا۔ محمد نثار، کنور آفتاب، ساحرہ کاظمی سمیت بڑے بڑے نام تھے، جنہوں نے تخلیقی کام کیا۔'
'اس دور میں پی ٹی وی پر بچوں کے لیے خصوصی پروگرام ہوتے تھے، سائنس اور یوتھ کے پروگرامز بھی ہوتے تھے۔ آج اتنے چینلز ہیں لیکن بچوں کے لیے کوئی بھی پروگرام ترتیب نہیں دیا جا رہا۔'
'بچوں کے پاس صرف کارٹون نیٹ ورک کا ہی آپشن ہے۔ افسوس کی بات یہ ہے کہ پیمرا کی گائیڈ لائنز میں بھی ایسی چیزیں نہیں ہیں۔'
پی ٹی وی پرائیویٹ پروڈکشن خرید کر چلانے پر کیوں مجبور ہے اس سوال کے جواب میں انہوں نے کہا کہ 'میں پی ٹی وی کی ایڈمنسٹریشن میں تو نہیں ہوں اس لیے زیادہ جانتی نہیں لیکن اتنا ضرور جانتی ہوں کہ پی ٹی وی نے اپنے آپ کو خود اپنے ہاتھ سے جانے دیا، بہتر پالیسیاں نہیں بنائی گئیں؟'
'ہمارے بجلی کے بلوں میں آج بھی پی ٹی وی کے لیے کٹوتی ہوتی ہے، میں مانتی ہوں کہ اس ادارے کے اخراجات بہت زیادہ ہیں، ریموٹ ایریاز میں بھی ان کے بوسٹرز لگے ہوئے ہیں۔ گورنمنٹ کو اس کی فنڈنگ کرنی چاہیے تھی۔'
'یہ ایسا ادارہ تھا جہاں پرڈیوسرز، کیمرہ مین اور آرٹسٹ سب کی ٹریننگ ہوتی تھی لیکن اب ایسا کچھ بھی نہیں ہے۔ یہ آج بھی پرڈیوسرز، رائٹرز، کیمرہ مینوں کی تربیت کا سلسلہ شروع کر دے تو یقیناً ایوارڈ وننگ فلمیں/ڈرامے بنانے والے لوگ نکلیں گے۔'

’سال میں دس فلمیں بنا کر ریلیز کردینا فلمی صنعت کی بحالی نہیں ہے۔‘ (فوٹو: فیس بک)

'پی ٹی وی اب بھی بچوں کے پروگرامز اپنے سٹوڈیوز میں ریکارڈ کر سکتا ہے سائنس اور یوتھ کے پروگرام کر سکتا ہے لیکن کر کیوں نہیں رہا؟'
ایک سوال کے جواب میں انہوں نے کہا تھیٹر کی تباہی کی ذمہ دار حکومت ہے۔ 'الحمرا نے خود کام کرنا چھوڑ دیا اور پنے ہالز کرائے پر دینا شروع کیے تو اس کی اجازت حکومت نے ہی دی۔ جب صرف پیسے کمانا ہی ترجیح ہو گی تو پھر ایسی ہی تباہی ہو گی جو تھیٹر کی ہوئی۔'
 'ثمینہ احمد نے فلموں کے حوالے سے کہا کہ 'سال میں دس فلمیں بنا کر ریلیز کردینا فلمی صنعت کی بحالی نہیں ہے اور ویسے بھی فلمی صنعت کی بحالی کوئی اتنا آسان کام بھی نہیں ہے۔
'مجھے تو یہی لگتا ہے کہ ہر کوئی آج تجربہ ہی کر رہا ہے اور اچھی بات ہے ایسا ہونا بھی چاہیے خوشی ہوتی ہے۔ 'لال کبوتر' اور 'کیک جیسی' فلمیں دیکھ کر۔ سکینہ سموں نے فلم ’انتظار‘ بہت زبردست 'بنائی ہے اسی طرح نبیل قریشی بھی اچھا کام کر رہا ہے، ندیم بیگ اور ہمایوں سعید کامیڈی فلمیں بناتے ہیں جن کا سٹائل بالی وڈ جیسا ہے۔'
'سرمد کھوسٹ بھی بہترین کام کر رہے ہیں۔ سنسر بورڈ کی اجازت ملنے کے باوجود ان کی فلم ’زندگی تماشا ‘ ریلیز نہیں ہو سکی جو کہ بہت ہی غلط ہے فلم کو فلم کی طرح لینا چاہیے۔ خدا جانے ہمارے اندر 'قوت برداشت اتنی کم کیوں ہے۔'
'آخر میں انہوں نے کہا کہ مجھے کام کرتے ہوئے 50 سال سے زیادہ کا عرصہ گزر چکا ہے میں نے ہر کردار دل اور لگن سے کیا، مجھے کوئی کردار اچھا نہ لگے تو رد کر دیتی ہوں۔'

شیئر: