Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

پاکستان کے دیہی علاقوں کی رونقیں بحال

'دیہات میں ایسا لگتا ہے جیسے کورونا وائرس ایک خواب ہے۔' فائل فوٹو: گیٹی
کورونا وائرس نے جہاں دنیا کی رونقوں کو ماند کر دیا ہے وہیں پاکستان میں دیہاتوں کی رونقیں جیسے بحال ہو گئی ہوں۔ 
شہری علاقوں میں لاک ڈاؤن کے باعث کاروبار اور مختلف ملازمت کرنے والے سب ہی شدید متاثر ہو رہے ہیں اور اس صورتحال میں اب شہروں سے رفتہ رفتہ وہ لوگ اپنے آبائی علاقوں کو واپس لوٹ رہے ہیں جو ملازمت یا کاروبار کے باعث اپنے آبائی علاقوں کو چھوڑ کر شہروں کا رخ کر چکے تھے۔
خیبرپختونخوا کے ضلع مانسہرہ کے گاؤں اوگی سے تعلق رکھنے والے حمید خان نے لاک ڈاؤن کے باعث کراچی سے واپس اپنے آبائی علاقے کا رخ کیا ہے۔ وہ کراچی میں آٹو ورکشاپ میں کام کرتے تھے لیکن لاک ڈاؤن کے باعث انہیں موقع ملا کہ وہ اپنے آبائی علاقے میں یہ وقت گزار سکیں اور ان کے مطابق انہیں اتنے دن گزارنے کا موقع کم و بیش 10 سال بعد ملا ہے۔
اردو نیوز سے بات کرتے ہوئے حمید خان نے کہا کہ وہ عید کے بعد اپنے اہل خانہ کو بھی کراچی منتقل کرنے کا ارادہ رکھتے تھے۔ ’رمضان سے قبل اپنے آبائی علاقے کو واپس جانے کا پلان بنایا تھا اور اس بار عید کے بعد واپسی پر اپنے اہل خانہ کو بھی ساتھ لانے کا ارادہ تھا لیکن اب پتہ نہیں حالات کب بہتر ہوں گے۔‘
حمید خان نے سنہ 2000 میں روزگار کی تلاش میں کراچی کا رخ کیا اور اس کے بعد وہیں کہ ہو کر رہ گئے تھے۔ 
’ہر سال رمضان سے پہلے اپنے گاؤں آتا لیکن پچھلے دو برس سے عیدین پر بھی اپنے اہل خانے سے ملنے نہیں آیا تھا۔‘
کورونا وائرس کی وبا کے دنوں میں شہری اور دیہاتی زندگی کا تجربہ بتاتے ہوئے حمید خان کہتے ہیں کہ دیہات میں ایسا لگتا ہے جیسے کورونا وائرس ایک خواب ہے جو صرف شہریوں کو ہی نظر آتا ہے۔ ’میل جول میں اتنا احتیاط نہیں، حجروں میں رونقیں بحال ہو گئی ہیں جیسے پندرہ بیس سال پہلے ہوا کرتی تھی، کیونکہ شہروں سے زیادہ لوگ اب اپنے آبائی علاقوں کا رخ کر رہے ہیں۔‘

'دیہی علاقوں میں ایسی احتیاط تدابیر کم ہی اپنائی جاتی ہیں۔' فوٹو: اردو نیوز

’ہم تو خوش ہیں لوگ واپس آرہے ہیں‘

پاکستان میں کورونا وائرس کی کیسز میں اضافہ ہورہا ہے اور ان کیسز کی بڑی تعداد شہری علاقوں سے رپورٹ ہوئی ہے۔
شہروں سے دیہاتوں کی طرف رخ کرنے والے افراد کا ماننا ہے کہ دیہاتوں کو واپس لوٹنے کی وجہ شہروں میں کاروباری سرگرمیاں متاثر ہونے کے علاوہ دیہاتوں میں کورونا وائرس کے کم کیسز رپورٹ ہونا بھی ہے۔  
بلوچستان کے علاقے قلعہ پشین کے رہائشی محمد یاسر نے بتایا کہ ’ہمارے گاؤں سے جو لوگ مزدوری کے لیے شہروں کو گئے تھے اب وہ واپس آ رہے ہیں اور ایسا لگتا ہے جیسے پرانے دن لوٹ آئے ہوں‘۔
محمد یاسر کے مطابق ان کے گاؤں کے زیادہ تر افراد اسلام آباد، کراچی، حیدرآباد اور دیگر شہروں میں چائے ڈھابوں اور پراپرٹی دفاتر میں کام کرتے ہیں۔ 

اب شہروں سے رفتہ رفتہ لوگ اپنے آبائی علاقوں کو واپس لوٹ رہے ہیں۔ فائل فوٹو: روئٹرز

کورونا وائرس کے خطرات کے حوالے سے پشین کے محمد یاسر کہتے ہیں کہ اخبار اور ٹی وی سے اس وبا سے بچنے کی احتیاطی تدابیر سننے کو ملتی ہیں لیکن دیہی علاقوں میں ایسی احتیاط کم ہی اپنائی جاتی ہیں۔
 ’اس کی ایک وجہ یہ بھی ہے کہ گاؤں کے لوگوں کو پتہ ہوتا ہے کہ کون باہر سے آیا ہے، جن علاقوں میں وبا کا علم ہوتا ہے وہاں جانے سے گریز کیا جاتا ہے اور وہاں کے لوگوں کو یہاں آنے سے روکا جاتا ہے۔‘ 
محمد یاسر کے مطابق ایسے لوگ بھی اب گاؤں کا رخ کر رہے ہیں جو عید کے عید آتے تھے ’ہمیں خوشی ہے لوگ واپس آ رہے ہیں اور پرانے دن لوٹ رہے ہیں‘۔ 

'بیوی بچوں کو گاؤں لے کر آنے کا فیصلہ اس لیے کیا کہ شہر میں گھر میں رہ رہ کر اکتا گئے تھے۔' فوٹو: اردو نیوز

’وقت اور اپنوں کے قریب ہونے کے باوجود میل جول نہیں کرسکتے‘

مری کے رضا عباسی کی کہانی مختلف ہے۔ رضا عباسی اسلام آباد میں ایک پرائیوٹ کمپنی پ15 برس سے ملازمت کر رہے ہیں اور لاک ڈاؤن کی وجہ سے وہ بیوی بچوں کو لے کر اپنے مری چلے گئے ہیں۔ 
رضا عباسی بتاتے ہیں کہ بیوی بچوں کو گاؤں لے کر آنے کا فیصلہ اس لیے کیا کہ شہر میں گھر میں رہ رہ کر اکتا گئے تھے اور فیصلہ کیا  کہ اپنے آبائی علاقے میں کچھ وقت گزار لیں گے جہاں ذہنی دباؤ بھی کم ہو جائے گا۔ ’شہر میں رہ کر ہمیشہ خواہش رہتی تھی کہ اپنے رشتہ داروں اور پرانے دوستوں کے ساتھ وقت گزاروں لیکن اب وقت بھی ہے، اپنے لوگوں کے درمیان بھی ہوں لیکن ان سے ملاقات نہیں کر سکتا۔‘
رضا عباسی کہتے ہیں کہ وہ اپنے گاؤں میں بھی کورونا وائرس سے بچنے کی مکمل احتیاطی تدابیر اپنائے ہوئے ہیں اور باقیوں کو بھی اس کی ہی تلقین کرتے ہیں۔ 

شیئر:

متعلقہ خبریں