Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

آن لائن تعلیم: اساتذہ تیارنہ طلبہ

اساتذہ کا کہنا ہے کہ سکولوں کو ان کی قابلیت کے مطابق کام دینا چاہیے (فوٹو:اے ایف پی)
پاکستان میں نجی سکولز نے لاک ڈاؤن کی وجہ سے آن لائن کلاسز کا آغاز کر دیا ہے جس کی وجہ سے مختلف سکولوں نے سوشل میڈیا کے مختلف پلیٹ فارمز استعمال کر کے طالبِ علموں تک تعلیم پہنچانا شروع کر دی ہے۔
تاہم ان سب میں والدین اور اساتذہ کو کسی نہ کسی مشکل میں ڈال دیا ہے جس کی وجہ اُن کا جدید ٹیکنالوجی سے واقف نہ ہونا ہے۔
نجی سکول کی ایک ٹیچر نے نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر بتایا ہے کہ 'اُن کو سکول کی جانب سے ہدایات دی گئی ہیں کہ وہ سکول کے یوٹیوب چینل پر لیکچر کی وڈیو بنا کر اپ لوڈ کیا کریں اور اس وڈیو میں بچوں کی توجہ برقرار رکھنے کے لیے دلچسپ میوزک اور تصویروں کا استعمال بھی کیا جائے۔'

 

ٹیچر کا کہنا ہے کہ 'وہ ان ہدایات کی وجہ سے ذہنی تناؤ کا شکار ہیں کیونکہ نہ ہی اُن کو یو ٹیوب پر وڈیو اپ لوڈ کرنا آتی ہے، اور نہ کسی بھی طرح کی ایڈیٹنگ کا اُن کو علم ہے۔'
اُردو نیوز سے بات کرتے ہوئے ٹیچر کا کہنا تھا کہ 'یہ سب کرنے کے لیے اُن کو دو دن دیے جاتے ہیں جو اُن جیسی ٹیچرز کے لیے انتہائی کم ہیں۔ اُنھوں نے اس کام کے لیے پیشہ ور افراد کی مدد لینے کی کوشش بھی کی ہے مگر اُن کے مطابق وہ اُن سے ایڈیٹنگ کے لیے پانچ ہزار کا مطالبہ کر رہے ہیں۔'
ٹیچر کا کہنا ہے کہ 'سکولوں کو ٹیچرز کی قابلیت کے مطابق اُن کو کام دینا چاہیے۔' اُنھوں نے کہا ہے کہ 'وہ ایک عام وڈیو میں بھی کلاس کی طرح لیکچر دے سکتی ہیں، مگر اس طرح کی چیزیں اُن کی مشکلوں میں اضافے کی وجہ بن گئی ہیں۔'
واضح رہے کہ ان دنوں میں عام طور پر نئی کلاسز کا آغاز ہو جاتا تھا اور گرمیوں کی تعطیلات سے قبل بچوں کے کورسز مکمل کروا کر ان کو چھٹیوں کا کام دیا جاتا تھا مگر کورونا وائرس کے باعث اب حالات مختلف ہیں، اور ٹیچرز کے ساتھ ساتھ والدین کو بھی وہ سب کرنا پڑ رہا ہے شاید جس کا اُنھوں نے کبھی سوچا بھی نہیں ہو گا۔

اساتذہ کا کہنا ہے کہ وہ نئی ہدایات کی وجہ سے ذہنی تناؤ کا شکار ہیں (فوٹو: سوشل میڈیا)

افشا عثمان کے دو بچے ہیں اور دونوں پرائیوٹ سکول میں پڑھ رہے ہیں۔ افشا نے اُردو نیوز سے بات کرتے ہوئے بتایا کہ 'سکول ٹیچرز کی جانب سے واٹس ایپ پر گروپس بنائے گے ہیں جن میں بچوں سے گھر پر ہی ایکٹیویٹی کراونے کے لیے کہا جاتا ہے۔ جس کے لیے کئی جتن کرنا پڑتے ہیں۔ افشا نے بتایا کہ 'اُن کی تعلیم انٹرمیڈیٹ ہے اور اُن کو فیس بک اور یوٹیوب کے بارے میں اتنا علم نہیں ہے۔'
افشا نے کہا کہ 'پرائیویٹ سکولز کو چاہیے کہ ان حالات میں بچوں سے ایسی سرگرمیاں کروائیں جو آسانی سے کروائی جا سکتی ہوں۔' انہوں نے بتایا کہ 'اُن کی بیٹی کو پاکستانی ہیروز پر ایک پروجیکٹ ملا تھا جس میں اُن کی بیٹی کو قائداعظم کا روپ دھارنا تھا جس کے لیے اُن کو ان تھک محنت کر کے گھر پر ہی چیزیں تیار کرنا پڑیں اور بیٹی کی وڈیو بنانا پڑی، یہ صرف ایک پروجیکٹ تھا۔ اس جیسے کئی ایسے کام ہیں جو ٹیچرز کی جانب سے گروپس میں دیے جا رہے ہیں۔'
افشا نے کہا کہ 'ہر چیز آن لائن کرنے سے قبل سکولوں کو چاہیے تھا کہ وہ پہلے والدین کو بھی ٹریننگ دیتے تاکہ اُن جیسے کئی والدین جو سوشل میڈیا سے واقفیت نہیں رکھتے تھے، اُن کے لیے آسانی ہو جاتی۔'
دوسری جانب پرائیویٹ ایجوکیشن انسٹی ٹیوٹ ریگولیٹری اتھارٹی کی فوکل پرسن نے اُردو نیوز سے بات کرتے ہوئے کہا کہ 'اُن کی جانب سے کسی بھی سکول کو یہ نہیں کہا گیا کہ یوٹیوب چینل بنا کر لیکچرز اپ لوڈ کیے جائیں۔' اُنھوں نے کہا کہ 'اُن کی طرف سے پرائیوٹ سکولز کے لیے صرف پالیسی بنائی گئی تھی جس میں اُن کو آن لائن کلاسز کے آغاز کا کہا گیا تھا۔'

سکولوں سے کہا گیا ہے کہ بچوں کو پڑھائی کے لیے مصروف رکھا جائے (فوٹو: سوشل میڈیا)

اُنھوں نے کہا کہ 'سکول فیس بک، یوٹیوب، یا پھر واٹس ایپ خود استعمال کر رہے ہیں۔ اُن کے ادارے کی جانب سے کسی مخصوص میڈیم کے استعمال کی ہدایات نہیں دی گئیں۔'
اُنھوں نے بتایا کہ 'اُن کی جانب سے سکولوں سے کہا گیا ہے کہ موجودہ صورتِ حال میں بچوں کو پڑھائی کے ذریعے مصروف رکھا جا سکتا ہے جس کے لیے سوشل میڈیا یا دیگر ٹیکنالوجیز کا استعمال کیا جا سکتا ہے۔'
خیال رہے کہ کورونا وائرس کی وجہ سے حکومت کی جانب سے ملک بھر کے سکولوں میں 31 مئی تک تعطیلات ہیں۔
  • واٹس ایپ پر پاکستان کی خبروں کے لیے ’اردو نیوز‘ گروپ جوائن کریں

شیئر: