Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

’آپ پاکستان کی کریم ہیں تو دودھ خراب ہے‘

اساتذہ کے جملوں میں مزاح، غصے اور جنجھلاہٹ کے سارے رنگ نمایاں تھے (فائل فوٹو سوشل میڈیا)
اپنے اساتذہ کے مشہور جملوں کے ذکر کا سلسلہ شروع ہوا تو سوشل میڈیا صارفین نے سکول لائف سے لے کر اعلی تعلیم تک کے دوران سنائی دینے والے دلچسپ، طنزیہ اور غصے بھرے جملوں سے متعلق اپنی یادیں تازہ کر ڈالیں۔
سوشل ٹائم لائنز زندگی سے متعلق تقریبا ہر معاملے کو اپنی گفتگو کے دائرے میں شامل رکھتی ہیں، کبھی حالات اور واقعات اس کا موقع مہیا کرتے ہیں تو کبھی کسی صارف ہی کی گفتگو باقیوں کو یہ موقع دے دیتی ہے کہ وہ اپنے پسندیدہ موضوع پر گفتگو کر سکیں۔
کچھ ایسا ہی معاملہ حالیہ موضوع کے ساتھ ہوا جب ایک سوشل میڈیا صارف نے اپنے ٹیچر کا ایک جملہ ’میں تمہیں بعد میں دیکھ لوں گا‘ لکھتے ہوئے اس کا احوال بیان کیا اور ساتھ ہی تصویر شیئر کی جس پر لکھا تھا ’اپنے اساتذہ کے مشہور جملے شیئر کریں‘، جواب میں صارفین نے ناصرف اس میں دلچسپی کا مظاہر کیا بلکہ اپنے دور طالب علمی سے متعلق یادیں تازہ کیں، بہت سے صارف ایسے بھی سامنے آئے جنہوں نے ایک ہی ٹیچر سے پڑھا تھا لیکن وہ اس سے قبل ایک دوسرے سے واقف نہ تھے۔
خود کو مصنف، مترجم اور قصہ گو کے طور پر متعارف کرانے والے مشرف علی فاروقی نے اپنی ٹویٹ میں لکھا ’مجھے یہ جملہ اس وقت سننا پڑا جب کلاس کے دیگر طلبہ نے بھانڈا پھوڑ دیا کہ پیچھے کی نشستوں سے شیر کے دھاڑنے کی جو آواز آئی ہے وہ میری تھی۔‘

سندر وقار نامی صارف نے اپنا تجربہ شیئر کرتے ہوئے لکھا ’سکول میں اردو ٹیچر تھی جو کہا کرتی تھیں اگر آپ لوگ پاکستان کی کریم ہیں تو دودھ میں ضرور کوئی خرابی ہے۔‘
 

اس موقع پر ریم خورشید اور سندر وقار کے درمیان مذکورہ استاد سے متعلق گفتگو بھی ہوئی جو اردو کا مضمون پڑھانے والی ٹیچر کی شناخت اور مسکراہٹ کے تبادلے پر ختم ہوئی۔

نادر بٹ نامی ایک صارف گفتگو کا حصہ بنے تو انہوں نے دودھ اور کریم سے متعلق جملہ شیئر کرنے والی سندس وقار کے جواب میں لکھا کہ ’میرے خیال میں ان کا جملہ - اگر یہ کریم ہے تو دودھ پھٹا ہوا ہو گا - ہوتا تھا۔ جواب میں سندر وقار نے لکھا کہ میری یادداشت میں ان کے یہی الفاظ ہیں جو وہ تقریبا ہر ہفتے ایک بار کہا کرتی تھیں۔

ٹیچرز کی جانب سے کہے جانے والے جملے ہی نہیں بلکہ ان جملوں کے اثرات تک صارفین نے اپنی گفتگو کا حصہ بنائے۔ قسطنطیہ نامی ایک ہینڈل نے لکھا ’ہمارے ریاضی کے استاد نے ایک بار پوچھا کہ کاس تھیٹا کیا ہوتا ہے؟ غیرمتوقع طور پر مجھے اس کا جواب معلوم تھا، میرے جواب پر انہوں نے کہا ’کبھی کبھی کھوٹا سکہ بھی چل ہی جاتا ہے۔ اس پر پوری کلاس میں قہقہے پھوٹ پڑے، میں نے خواہش کی کہ کاش میں نے جواب ہی نہ دیا ہوتا۔ اس کے بعد میں کبھی بھی ریاضی کو پسند ہیں کر سکا۔‘
 

ایک اور صارف نے اپنے ریاضی کے استاد مسٹر سہوترا کا جملہ شیئر کرتے ہوئے لکھا ’کچھ لوگ وائز ہوتے ہیں اور کچھ ادروائز‘۔ اس پر شازیہ سہیل نامی صارف نے ان سے پوچھا کہ کیا یہ لاہور کے ہال روڈ پر واقع سکول کا واقعہ ہے؟ جب کہ گیم اوور نامی صارف نے خیال ظاہر کیا کہ یہ لاہور ہی ایک اور سکول کے سر سہوترا کا جملہ ہو سکتا ہے۔
 

آمنہ عمر راجہ نے اپنے ریاضی کے پروفیسر کا جملہ نقل کرتے ہوئے لکھا ’کچھ لوگوں کا اعلی تعلیم کچھ نہیں بگاڑ سکتی‘ تو امتیاز نامی صارف نے اپنی یاد تازہ کرتے ہوئے لکھا ’ہمارے ایک استاد مکرم اکثر ہمیں فرمایا کرتے تھے: پترو! پڑھ پڑھ لو ، نہیں تو یہ سارے ریڑھیوں والے اور بس کنڈکٹر ، ڈرائیور ماضی میں میرے ہی شاگرد رہے تھے۔‘
 

بظاہر تفریح سی محسوس ہونے والی گفتگو کچھ صارفین کی آنکھیں نم کرنے کی وجہ بنی تو وہ اپنا تجربہ شیئر کرنے سے رہ نہ سکے۔ سپورٹس لور نامی ہینڈل نے لکھا کہ ’آج آپ کی وجہ سے مجھے اپنے ٹیچرز کی یاد آ گئی، قسم سے آنکھوں میں آنسو آ گئے۔‘
 

روویدہ ریاض نامی صارف نے اپنی کلاس میں پیش آنے والے واقعے کا ذکر کرتے ہوئے لکھا ’میرے ایک ہم جماعت نے فزکس کے استاد کی توجہ بٹانے کے لیے ان سے پوچھا کہ سیر جوہری بم کیسے بنتا ہے؟ جواب میں فزکس ٹیچر کا کہنا تھا پہلے آملیٹ بنانا سیکھ بم بعد میں بنانا۔‘
 

ڈاکٹر زاہد پرویز نامی صارف نے ڈاؤ میں گائنی اور آبس پڑھانے والی مرحوم استاد رضیہ لطیف انصاری کا ذکر کرتے ہوئے لکھا ’جب وہ کسی طالب علم پر غصہ ہوتی تو ہمیشہ کہتیں بغیر مرکز کے غیر منظم پروٹوپلازم کا ماس ہو۔‘
 

روبیہ نامی صارف نے اپنا تجربہ شیئر کرتے ہوئے لکھا ’ماسٹرز کرنے کے بعد ہم تین دوستوں نے ایم فل پروگرام میں داخلہ لیا تو ہمارے استادوں میں سے ایک ے کہا کیا، تم لوگ پھر آ گئے؟ سچ کہتے ہیں برائی جڑ سے ختم نہیں ہوتی۔ وہ ٹیچر اب میرے کولیگ ہیں۔‘
 

اساتذہ اور ان کے مشہور جملوں کا ذکر ہوا تو یہ سابق طلبہ تک ہی محدود نہیں رہا بلکہ ایک خاتون استاد بھی گفتگو کا حصہ بنیں۔ عابدہ سلطانہ نے اپنے تبصرے میں لکھا ’میں ایک استاد ہوں اور یہ کمنٹس پڑھ کر اپنی ہنسی روک نہیں پا رہی۔‘

اپنے زمانہ طالب علمی کی یادیں تازہ کرنے والے صارفین نے اساتذہ کے دلچسپ جملوں کا ذکر کرتے ہوئے انہیں زیور تعلیم سے آراستہ کرنے والوں کے متعلق نیک خواہشات اور تمناؤں کا اظہار بھی کیا۔
  • واٹس ایپ پر پاکستان کی خبروں کے لیے ’اردو نیوز‘ گروپ جوائن کریں

شیئر: