Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

شہباز سمجھوتے کے حامی کیوں؟

شہباز شریف نے وزیراعظم عمران خان کو مصالحت کی پیشکش کی ہے (فوٹو: ٹوئٹر)
پاکستان میں سال 2018 کے عام انتخابات سے پہلے جب مسلم لیگ ن نے انتخابی مہم شروع کرنا تھی تو اس کا آغاز جماعت کے سربراہ محمد شہباز شریف نے پاکستان کے ایک مشہور ٹی وی اینکر پرسن جاوید چوہدری کے شو میں ایک انٹرویو سے کیا۔
سیاسی پنڈتوں نے اس ٹی وی انٹرویو کو شہباز شریف کی مستقبل کی مصالحتی سیاست سے تعبیر کیا تھا کیونکہ اس انٹرویو کا لب لباب یہ تھا کہ پاکستان کے مقتدر حلقے نئے سماجی معاہدے کی راہ ہموار کریں جس میں وہ بذات خود پرانی تلخیوں کو بھلانے کے لیے تیار ہیں۔
یہ ٹھیک اس وقت کی بات ہے جب مسلم لیگ ن کے قائد نواز شریف اور ان کی صاحبزادی مریم نواز راولپنڈی کی اڈیالہ جیل میں تھے۔ شہباز شریف نئے سماجی معاہدے میں کامیاب تو نہ ہو سکے، تحریک انصاف کی حکومت بننے کے بعد البتہ انہوں نے خود بھی جیل یاترا کی اور اس کے بعد کچھ ماہ لندن میں قیام پذیر رہے۔

 

تحریک انصاف کی حکومت کو دو سال ہونے کو ہیں ایسے میں وبا پھیلنے کی صورتحال میں وہ وطن واپس آئے لیکن آتے ہی احتساب بیورو (نیب) نے ان کے خلاف کمانیں پھر کس لیں ہیں۔ نیب کے دو بار بلانے پر وہ پیش نہیں ہوئے اب اگلی پیشی چار مئی کو ہے۔
وطن واپسی کے بعد شہباز شریف ایک مرتبہ پھر جاوید چوہدری کے شو میں آئے اور اب کی بار انہوں نے وزیراعظم عمران خان کو مصالحت کی پیش کش کی ہے، تاہم اس مشروط پیش کش میں انہوں نے کہا ہے کہ ’وزیراعظم اپنی انا کو چھوڑ دیں تو ہم تعاون کرنے کو تیار ہیں۔‘
دلچسپ بات یہ ہے کہ ٹھیک ایسے وقت میں جب شہباز شریف مشروط سمجھوتے کے لیے رضامند دکھائی دیتے ہیں اسی وقت سابق وزیراعظم شاہد خاقان عباسی بھی مخلتف ٹی وی شوز میں آ کر سیاسی موضوعات پر گفتگو کر رہے ہیں تاہم ان کے لہجے میں کسی طرح کی کوئی لچک دکھائی نہیں دیتی۔

شہباز شریف کے پاس زیادہ وقت نہیں


تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ پارٹی کے اندر دو نظریات موجود ہیں (فوٹو: اے ایف پی)

مسلم لیگ ن کے صدر کی جانب سے مصالحتی پیش کش کو سیاسی تجزیہ کار ایک سنجیدہ کوشش قرار دے رہے ہیں، لیکن سیاسی تجزیہ کار اور معروف اینکر افتخار احمد اس حالیہ کوشش کو کچھ اور انداز میں دیکھتے ہیں ’سادہ سی بات ہے شہباز شریف ایک سخت کام کرنے والے انسان ہیں۔ ان کی زیادہ تر سیاست کام کے گرد گھومتی ہے اور انہیں اس بات کا اچھی طرح اندازہ ہے کہ وہ ریٹائرمنٹ کی عمر کے قریب پہنچ چکے ہیں۔‘
صرف وہی نہیں بلکہ نواز شریف اور عمران خان بھی ستر سال کو پہنچنے والے ہیں۔ ’2023 کے انتخابات شائد ان تینوں کے لیے نہیں ہیں، اور شہباز شریف بھی اس بات کو اچھی طرح سمجھتے ہیں اور وہ مزید توانائیاں ایسی سیاسی چپقلش میں نہیں ضائع کرنا چاہتے جس کا بظاہر کوئی انجام نہیں۔ تاہم انہوں نے جو بھی مصالحتی پیش کش کی ہے آگے سے مثبت جواب نہیں آئے گا۔‘

ماہرین کے مطابق عمران خان کی جانب سے مثبت ردِعمل کی توقع نہیں (فوٹو: اے ایف پی)

سینئر صحافی و تجزیہ کار مجیب الرحمان شامی سمجھتے ہیں کہ 'شہباز شریف کی جانب سے دی جانے والی پیش کش کورونا وائرس سے نمٹنے کے لیے اقدامات سے متعلق تھی۔'
ان کا کہنا تھا کہ ’عالمی وبا سے نمٹنے کے لیے تمام سیاسی جماعتوں کو سیاسی اختلافات بالائے طاق رکھ کر کردار ادا کرنا چاہیے۔‘
انہوں نے آرمی پبلک سکول پشاور حملے کا حوالہ دیتے ہوئے کہا کہ 'اس وقت بھی نیشنل ایکشن پلان کی تشکیل کے موقع پر تمام سیاسی جماعتوں نے اتفاق ظاہر کیا تھا اور موجودہ حالات میں بھی شہباز شریف اس کی پیش کش کر رہے ہیں۔'

لیگی اندرونی اختلاف اب کوئی بڑی خبر نہیں

شہباز شریف کے موجود بیان اور پھر شاہد خاقان عباسی کی طرف سے جماعتی نظریے پر کاربند رہنے کے پے درپے بیانات کے بارے میں سیاسی تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ 'اب تو یہ بات واضح ہے کہ پارٹی کے اندر دو نظریات موجود ہیں۔'

شہباز شریف ورکنگ ریلیشن شپ کے حامی جبکہ شاہد خاقان مخالف ہیں (فوٹو: اے ایف پی)

تجزیہ کار مرتضیٰ سولنگی کہتے ہیں کہ ’شہباز شریف کچھ بھی آفر کریں وہ آگے تبھی بڑھ سکیں گے جب پارٹی کے اندر خاص طور پر نواز شریف مطمئن ہوں، اور نواز شریف دونوں موقف بخوبی سمجھتے ہیں۔‘
شاہد خاقان عباسی کے بیانات سے متعلق مجیب الرحمان شامی کا کہنا ہے کہ ’مسلم لیگ ن میں دو دھڑے بہرحال موجود ہیں۔ شہباز شریف ورکنگ ریلیشن شپ کی خواہش رکھتے ہیں جبکہ شاہد خاقان عباسی اس کے مخالف نظریات کے حامل ہیں۔‘
تاہم اس بات سے تقریباً سبھی تجزیہ کار متفق ہیں کہ 'شہباز شریف کی پیش کش پر عمران خان کی جانب سے کسی مثبت ردِعمل کی توقع نہیں کی جا سکتی اور ن لیگ آج بھی اسی نظریے پر قائم ہے جس پر وہ اس سے پہلے تھی۔
  • واٹس ایپ پر پاکستان کی خبروں کے لیے ’اردو نیوز‘ گروپ جوائن کریں

شیئر: