Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

وفاق اور سندھ حکومت میں سرد جنگ کیوں؟

وفاقی اور صوبائی حکومتوں کی ایک دوسرے پر الزام تراشی کے باعث کورونا وائرس کے پھیلاؤ کو روکنے کی کوششیں متاثر ہو رہی ہیں (فوٹو: سوشل میڈیا)
موجوہ ہنگامی حالات میں پاکستان کے تمام ادارے اپنی استعداد کے مطابق کورونا وائرس کے خطرے سے نبرد آزما ہیں تاہم اس سنگین صورتحال میں بھی وفاق اور سندھ حکومت کے درمیان الزامات کی سرد جنگ جاری ہے ۔
پاکستان تحریک انصاف اور پاکستان پیپلز پارٹی کے رہنماؤں کی ایک دوسرے پر الزام تراشی کے باعث کورونا وائرس کے پھیلاؤ کو روکنے کے لیے کی گئی وفاقی اور صوبائی حکومت کی کوششیں متاثر ہو رہی ہیں۔
26 فروری کو کراچی میں پاکستان کا پہلا کورونا وائرس مریض سامنے آنے کے بعد سے اب تک ہر انتظامی معاملے پہ وفاقی اور سندھ حکومت میں اختلاف رہا اور دونوں جانب سے الزامات کی سیاست دیکھنے میں آئی جس کے چند مواقع درج ذیل ہیں۔

لاک ڈاؤن کا معاملہ:

وزیرِ اعلیٰ سندھ مراد علی شاہ نے سب سے پہلے صوبے بھر میں لاک ڈاؤن کی بات کی تاکہ وائرس کے پھیلاؤ کو روکا جا سکے، تاہم پی ٹی آئی رہنماؤں نے اس فیصلے کے خلاف تاویلیں پیش کیں۔

وفاق کی جانب سے لاک ڈاؤن کی ضرورت سے انکار کے باوجود پنجاب حکومت نے بھی لاک ڈاؤن کا اعلان کیا (فوٹو: اے ایف پی)

حتیٰ کہ  جب سندھ حکومت نے 23 مارچ کو لاک ڈاؤن نافذ کر دیا اس کے بعد بھی وزیرِ اعظم عمران خان اور پارٹی کے دیگر رہنماا اس کی مخالفت کرتے رہے۔
صورتحال تب دلچسپ ہوئی جب وفاق کی جانب سے لاک ڈاؤن کی ضرورت سے انکار کے باوجود پنجاب حکومت نے بھی لاک ڈاؤن کا اعلان کر دیا۔
اس کے بعد وزیراعظم اور وفاقی وزراء نے لفظ لاک ڈاؤن کی مختلف تشریحات پیش کر کے یہ ثابت کرنے کی کوشش کی کیسے پنجاب کا لاک ڈاؤن سندھ سے مختلف اور بہتر ہے۔

سندھ کے پی ٹی آئی رہنماؤں کی گمشدگی:

کورونا وائرس کے سدباب کی کوششوں میں حکومت سندھ خاصی متحرک رہی جس کے برعکس سندھ بالخصوص کراچی میں پی ٹی آئی کے عوامی نمائندے اور اعلیٰ قیادت کہیں دکھائی نہ دی۔
کراچی کے عوام نے تو سوشل میڈیا پر پی ٹی آئی رہنماؤں کے اپنے انتخابی حلقے سے گمشدگی کے حوالے سے تبصرے شروع کر دیے تھے۔

چین سے بھیجے گئے ماسکس پر بھی وفاقی اور سندھ حکومت کا مؤقف مختلف رہا (فوٹو: روئٹرز)

امدادی سامان پر قبضے کی جنگ:

26 مارچ کو چین سے امدادی طبی سامان کراچی پہنچا جس میں 5 لاکھ حفاظتی ماسکس بھی شامل تھے۔
وزیرِ اعلیٰ سندھ نے یہ سامان ایئرپورٹ پر وصول کیا اور بعد میں اعلان کیا کہ سندھ خیر سگالی کے جذبے کے تحت صرف 2 لاکھ ماسکس اپنے لیے رکھے گا اور باقی دیگر صوبوں کے لیے وفاق کے حوالے کردے گا۔
اس اقدام کے جواب میں پی ٹی آئی رہنماء شہباز گل نے سندھ حکومت کو آڑے ہاتھوں لیا اور دعویٰ کیا کہ یہ ماسکس سندھ کے لیے نہیں بلکہ حکومت پاکستان کے لیے آئے تھے۔

مستحقین کا تعین اور راشن کی تقسیم:

سندھ حکومت نے لاک ڈاؤن کے اعلان کے ساتھ ہی دعویٰ کیا تھا کہ وہ تمام ضرورت مندوں کو گھر گھر راشن پہنچائے گی تاہم یہ اعلان صرف بیان تک ہی رہا اور پیپلز پارٹی کو اس حوالے سے خاصی تنقید کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے۔

سندھ حکومت مستحقین تک راشن کی فراہمی میں ناکامی کے باعث تنقید کی زد میں ہے (فوٹو:سوشل میڈیا)

دوسری جانب وفاقی حکومت کا بھی یہ بیانیہ رہا کہ لاک ڈاؤن میں ہچکچاہٹ کی وجہ دیہاڑی دار مزدور ہیں۔
یہاں یہ بات قابلِ ذکر ہے کہ وفاقی حکومت کے احساس کفالت پروگرام سے پورے ملک میں لوگ استفادہ حاصل کر رہے ہیں، تاہم سندھ حکومت مستحقین تک راشن کی فراہمی میں ناکامی کے باعث شدید تنقید کی زد میں ہے۔

سندھ کے پی ٹی آئی رہنماؤں کی واپسی :

طویل عرصے تک منظر سے غائب رہنے کے بعد اپریل کے آغاز میں سندھ میں پی ٹی آئی کے رہنما اچانک سامنے آئے اور میڈیا کو بیانات دیے۔
ان رہنماوں میں فیصل واوڈا، علی زیدی، فردوس شمیم نقوی اور حلیم عادل شیخ پیش پیش رہے۔
گورنر سندھ عمران اسماعیل نے بھی احساس پروگرام کے تحت رقوم کی تقسیم کا جائزہ لیا اور صوبے میں کورونا وائرس کے مریضوں کی تعداد میں اضافے کی وجہ پیپلز پارٹی کی نا اہلی کو قرار دیا۔
وزیرِ اعلیٰ سندھ مراد علی شاہ نے ایک پریس کانفرنس میں وفاقی حکومت کے سامنے ہاتھ تک جوڑے اور درخواست کی کہ اس وقت سیاست نہ کی جائے۔

حکومت سندھ کے ترجمان مرتضیٰ وہاب نے بیان دیا کہ وفاقی حکومت کی جانب سے صوبے کو دی جانے والی ٹیسٹنگ کٹس غیر معیاری ہیں (فوٹو:سوشل میڈیا)

ٹیسٹنگ کٹس تنازع:

سیاسی چپقلش کے دوران حکومت سندھ کے ترجمان مرتضیٰ وہاب نے بیان دیا کہ وفاقی حکومت کی جانب سے صوبے کو دی جانے والی ٹیسٹنگ کٹس غیر معیاری ہیں تاہم پی ٹی آئی حکومت نے اس دعوے کو رد کر دیا۔
اطلاعات کے مطابق اس حوالے سے نیشنل کوآرڈینیشن کمیٹی کے اجلاس میں وزیر اعلیٰ سندھ کو تنقید کا سامنا کرنا پڑا اور این ڈی ایم اے کے سربراہ نے انہیں آگاہ کیا کہ ملک بھر میں کورونا وائرس کے ٹیسٹ انہی کٹس کے ذریعے کیے جا رہے ہیں۔

صوبائی خودمختاری پر سوالیہ نشان:

ملک میں اس وقت لاک ڈاؤن کے مختلف درجات ہیں جن کا نفاذ متعلقہ حکومت کی ایماء پہ کیا گیا ہے۔
وفاق کی جانب سے تنقید کی جا رہی ہے کہ سندھ حکومت اٹھارویں ترمیم کے تحت اپنے عوام کی فلاح کی ذمہ دار ہے لیکن ایسا کرنے سے قاصر ہونے کی وجہ سے وفاقی حکومت نے سندھ کے عوام کو ریلیف فراہم کیا ہے۔
دوسری جانب سندھ میں کاروباری مراکز تاحال بند ہیں اور صنعتیں بھی محدود پیمانے پر کام کر رہی ہیں،جبکہ اس کے برعکس وفاقی حکومت نے صنعتوں کے حوالے سے لاک ڈاؤن میں خاصی نرمی کر دی ہے۔

تاجر سندھ میں بھی لاک ڈاؤن میں نرمی کا مطالبہ کر رہے ہیں تاہم صوبائی حکومت اس حوالے سے وفاقی حکومت کی تائید نہیں کر رہی (فوٹو:سوشل میڈیا)

لاک ڈاؤن کے نفاذ میں تفریق اور وفاق سے مختلف موقف رکھنے کی وجہ سے تحریک انصاف کے رہنماؤں کی جانب سے پیپلز پارٹی کو شدید تنقید کا نشانہ بنایا جا رہا ہے۔
ساتھ ہی کاروباری اور صنعتی شعبوں کی جانب سے بھی دباؤ بڑھ رہا ہے، اور تاجر سندھ میں بھی لاک ڈاؤن میں نرمی کا مطالبہ کر رہے ہیں تاہم صوبائی حکومت اس حوالے سے وفاقی حکومت کی تائید نہیں کر رہی۔
اٹھارویں ترمیم کی واپسی کے حوالے سے افواہوں کے جواب میں پیپلز پارٹی کے چیئرمین بلاول بھٹو زرداری نے پریس کانفرنس کی اور وفاقی حکومت کو ایسی کسی محاظ آرائی سے دور رہنے کا مشورہ دیا۔

گورنر سندھ کا متنازع بیان:

چند روز قبل گورنر سندھ عمران اسماعیل میں کورونا وائرس کی تصدیق ہوئی جس کے بعد انہوں نے خود کو آئسولیٹ کر لیا۔ اس دوران بھی انہوں نے بیان دیا کہ سندھ کے ان پڑھ لوگ زیادہ شعور نہیں رکھتے اور ان کے کافی قریب آ گئے جس کی وجہ سے وہ متاثر ہوئے۔
گورنر سندھ کو اس بیان پر شدید تنقید کا سامنا کرنا پڑا اور پیپلز پارٹی کے رہنماؤں نے انہیں آڑے ہاتھوں لیا۔

چند روز قبل گورنر سندھ عمران اسماعیل میں کورونا وائرس کی تصدیق ہوئی جس کے بعد انہوں نے خود کو آئسولیٹ کرلیا (فوٹو:سوشل میڈیا)

کیا سندھ میں لاک ڈاؤن میں نرمی ہوگی؟

کاروباری حلقوں کی جانب سے دباؤ اور وفاق کی جانب سے سرد مہری کے باعث سندھ حکومت پر لاک ڈاؤن میں نرمی کرنے کے لیے دباؤ بڑھتا جا رہا ہے۔
سندھ حکومت اس حوالے سے وفاق کی حمایت چاہ رہی ہے مگر وفاق سندھ حکومت کو اٹھارویں ترمیم کا حوالہ دے کر معاملے سے کنارہ کشی اختیار کیے ہوئے ہے۔
  • واٹس ایپ پر پاکستان کی خبروں کے لیے ’اردو نیوز‘ گروپ جوائن کریں

شیئر:

متعلقہ خبریں