Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

کورونا کے مریضوں کے حوالے سے ہر صوبے کی الگ پالیسی

چاروں صوبوں کے حکام نے اپنی اپنی پالیسی کو کورونا کے خاتمے کے لیے سب سے بہتر قرار دیا۔ فائل فوٹو: اے ایف پی
کورونا کے مشتبہ اور کنفرم مریضوں کے لیے جہاں بلوچستان، سندھ ، خیبر پختونخواہ  اور وفاقی دارلحکومت میں گھروں پر قرنطینہ کی اجازت ہے وہاں صوبہ پنجاب میں سب سے الگ پالیسی رائج ہے اور تمام کنفرم مریضوں کا سرکاری قرنطینہ یا ہسپتالوں میں رہنا لازم ہے اور کسی کو ہوم آئسولیشن کی اجازت نہیں ہے۔
اردو نیوز سے گفتگو کرتے ہوئے چاروں صوبوں کے حکام نے اپنی اپنی پالیسی کو کورونا کے خاتمے کے لیے سب سے بہتر قرار دیا تاہم متعلقہ پالیسیز کا جائزہ لینے کے بعد یہ بات سامنے آئی ہے کہ کورونا کے مریضوں کی نگرانی کا سب سے سخت انتظام پنجاب میں ہے۔
پنجاب میں ہر مریض کو حکومتی قرنطینہ میں رکھنا لازمی ہے جب کہ صوبہ بلوچستان میں کورونا کے مریض سرکاری نگرانی سے کافی حد تک بے نیاز ہو کر اپنی زندگی گزار سکتے ہیں۔
پنجاب میں  سرکاری قرنطینہ سے بہتر نگرانی مگر مریضوں کو شکایت
پاکستان کے سب سے بڑے صوبے پنجاب میں کورونا کے ہر کنفرم مریض کے لیے لازم ہے کہ وہ سرکاری قرنطینہ یا ہسپتالوں میں ہی اپنی علالت کے دن گزارے۔
 صوبائی سیکرٹری صحت پنجاب کیپٹن ریٹائرڈ عثمان نے اردو نیوز کو بتایا کہ جب تک کوئی شخص کورونا کا مشتبہ مریض ہے جیسا کہ باہر سے آنے والے افراد وغیرہ تو اس کے پاس آپشن ہے کہ اپنے خرچ پر فائیو سٹار ہوٹل میں قرنطینہ میں رہ سکے اور اس مقصد کے لیے حکومت نے لاہور کے پی سی ہوٹل، آواری ہوٹل وغیرہ کو قرنطینہ کا درجہ دے رکھا ہے۔
تاہم جونہی کسی شخص کا ٹیسٹ مثبت آتا ہے اور وہ کورونا کا کنفرم مریض بن جاتا ہے تو پھر اسے لازماً حکومتی قرنطینہ میں رہنا پڑتا ہے چاہے وہ وی آئی پی ہی کیوں نہ ہو۔

پنجاب میں کورونا کے ہر کنفرم مریض کے لیے لازم ہے کہ وہ سرکاری قرنطینہ یا ہسپتالوں میں ہی اپنی علالت کے دن گزارے۔ (فائل فوٹو: اے ایف پی)

حال ہی میں ڈپٹی سپیکر پنجاب اسمبلی دوست مزاری جب بیرون ملک سے ملتان ائرپورٹ پر اترے تو انہوں نے اپنے شہر لاہور میں قرنطینہ میں جانے کی اجازت مانگی تو انہیں یہ آپشن دیا گیا کہ وہ لاہور کے پی سی ہوٹل میں ٹیسٹ کی رپورٹ آنے تک ٹھہر سکتے ہیں مگر گھر انہیں بھی نہیں جانے دیا گیا۔
ان کا کہنا تھا کہ کورونا کا ٹیسٹ مثبت آنے پر مریض کو حکومتی قرنطینہ میں رکھنے سے ان کی بہتر نگرانی ہو سکتی ہے اور یہ امر یقینی ہو جاتا ہے کہ وہ  دوسروں میں مرض منتقل نہیں کر رہا۔
تاہم اس پالیسی کے نقصانات بھی سامنے آئے ہیں جیسا کہ حال ہی میں کئی مریضوں کی ویڈیوز سامنے آئی ہیں جس میں انہوں نے سرکاری قرنطینہ میں ناقص سہولیات کی شکایت کی اور اس میں رہنے کو قید سے تشبیہ دی۔ اسی طرح سرکاری قرنطینہ سے بھاگنے کے واقعات بھی سامنے آئے ہیں۔
اردو نیوز سے بات کرتے ہوئے لاہور کے جناح ہسپتال کے ایک سنئیر ڈاکٹرشبیر چودھری  کا کہنا تھا کہ سرکاری قرنطینہ میں عام مریضوں اور تکلیف دہ علامات والے مریضوں کو ایک ساتھ رکھا جاتا ہے جس سے تمام مریض سٹریس کا شکار ہو جاتے ہیں اس لیے اگر حکومت نے تمام کورونا مریضوں کو سرکاری قرنطینہ میں رکھنا ہی ہے تو ان کو علامات کے لحاظ سے علیحدہ رکھا جائے۔

بلوچستان میں کورونا کے مریضوں کو شکایت ہے کہ حکومت انکی نگرانی تو کیا خبر گیری تک نہیں کر رہی۔ فائل فوٹو: اے ایف پی

دوسری طرف ان کا کہنا تھا کہ عالمی ادارہ صحت نے گھروں پر قرنطینہ کی مکمل ہدایات دے رکھی ہیں ان پر عمل کر کے گھروں پر بھی مریضوں کو رہنے کی اجازت دی جانی چاہیے تاکہ سرکاری ہسپتالوں پر پریشر نہ بڑھے۔
ماہرین نے پنجاب حکومت کو تجویز دے رکھی ہے کہ جو مریض گھروں پر سہولت رکھتے ہیں کہ علیحدہ کمرے میں خود کو آئسولیٹ کر سکیں انہیں گھروں پر قرنطینہ کی اجازت دی جائے مگر تاحال پنجاب حکومت نے اس تجویز پر عمل نہیں کیا۔
اردو نیوز سے چند دن قبل بات کرتے ہوئے پنجاب حکومت کے تشکیل کردہ ماہرین کے مشاورتی گروپ کے چیئرمین ڈاکٹر محمود شوکت نے بتایا تھا کہ انہوں نے وزیراعظم عمران خان اور وزیراعلیٰ پنجاب عثمان بزدار تک یہ تجویز پہنچائی ہے کہ بڑے شہروں میں کورونا کے ایسے مریضوں کو جو خود قرنطینہ جیسی سہولیات کا اہتمام کر سکتے ہیں کو اپنے گھروں میں ہی رہنے کی اجازت دی جائے۔ ان کا کہنا تھا کہ بلآخر حکومت کو ایسا کرنا ہی پڑے گا کیوں جبکہ مریض زیادہ ہو جائیں گے تو سرکاری قرنطینہ پر پریشر بڑھ جائے گا اور مزید مریضوں کو گھروں پر ہی رکھنا پڑے گا سوائے انکے جنہیں طبی امداد کی ضرورت ہو۔

ہوم آئسولیشن کے لیے سندھ حکومت آگاہی دیتی ہے کہ گھر میں کیسے رہنا ہے۔ فائل فوٹو: اے ایف پی

بلوچستان میں نگرانی کا فقدان
دوسری طرف صوبہ بلوچستان میں کورونا کے مریضوں کو شکایت ہے کہ حکومت ان کی نگرانی تو کیا خبر گیری تک نہیں کر رہی۔
کوئٹہ کے سریاب روڈ کے ایک رہائشی روح اللہ نے بتایا کہ وہ اور ان بھائی دونوں ٹیسٹ کے بعد کورونا کے مریض ثابت ہوئے ہیں مگر حکومت کی طرف سے صرف فون پر انہیں بتایا گیا ہے کہ ان کا ٹیسٹ مثبت آیا ہے۔ اس کے بعد محکمہ صحت کی طرف سے ان کی کوئی خبر نہیں لی گئی کہ آیا وہ قرنطینہ میں بھی ہیں کہ باہر پھر رہے ہیں۔
اس سے قبل کوئٹہ کے علاقے جیل روڈ کے قریب فقیر آباد میں دس سے زائد کورونا کے کیسز رپورٹ ہوئے تھے مگر ان کی نگرانی کا کوئی انتظام نہیں تھا اور وہ علاقے میں باآسانی گھوم پھر رہے تھے جس پر اہل علاقہ نےنوٹس لینے کا مطالبہ کیا تو پھر حکومتی مشینری حرکت میں آئی اور ان کو پابند کیا گیا۔
اسی علاقے کے ایک اور رہائشی نے بتایا کہ اس نے 27  اپریل کو کورونا ٹیسٹ کروایا تھا مگر تین مئی تک اسے رپورٹ نہیں ملی جس کی وجہ سے وہ اور ان کا خاندان شدید زہنی اذیت میں مبتلا ہیں۔

سندھ حکومت نے تمام بڑے ہسپتالوں میں کورونا کے آئیولیشن  وارڈز بنا دیے ہیں۔ فائل فوٹو: اے ایف پی

اس نے بتایا کہ نہ تو وہ باہر جا سکتا ہے نا اہل خانہ سے مل سکتا ہے جب کہ اسے معلوم تک نہیں کہ وہ کورونا کا مریض ہے بھی یا نہیں۔ ایک نجی ٹی وی کے ٹیکنکل سٹاف کے رکن کا ٹیسٹ تین ہفتے قبل ہوا تھا مگر اسے ابھی تک رپورٹ نہیں ملی۔
 تین مئی کو جاری ہونے والی بلوچستان کے محکمہ صحت کی اپنی رپورٹ کے مطابق صوبے میں کورونا ٹیسٹ کے بعد 2351 کیسز التوا کا شکار ہیں کیونکہ ان کی رپورٹ نہیں آئی ہے۔
ترجمان بلوچستان حکومت لیاقت شہوانی کا دعوی ہے کہ صوبائی حکومت کورونا کے تمام مریضوں کی خبر گیری کرتی ہے۔
اردو نیوز سے بات کرتے ہوئے انہوں نے کہا جن مریضوں کا کورونا ٹیسٹ مثبت آتا ہے محکمہ صحت کی ٹیم ان کے گھروں میں جا کر جائزہ لیتی ہے کہ آیا ان کے گھروں میں قرنطینہ کی گنجائش موجود ہے یا نہیں اور اگر گھر میں علیحدہ کمرہ موجود ہو تو انہیں گھروں میں قرنطینہ کی اجازت دی جاتی ہے۔
’بصورت دیگر حکومتی قرنطینہ میں لے جایا جاتا ہے۔‘ ان کا کہنا تھا کہ 3 مئی تک صوبے میں 849 مریض گھروں میں ہی قرنطینہ میں ہیں جب کہ 91 مریض مختلف ہسپتالوں میں موجود ہیں۔

اسلام آباد میں بھی زیادہ تر کورونا مریض ہوم آئسولیشن میں رکھے گئے ہیں۔ فائل فوٹو: اے ایف پی

انہوں نے کوئٹہ کے رہائشیوں کے اس دعوے کی نفی کی کہ ٹیسٹ کی رپورٹس ہفتوں تک نہیں آتی ۔ ان کا دعوی تھا کہ ہر کورونا ٹیسٹ کی رپورٹ 48 سے 72 گھنٹوں میں مریض تک پہنچ جاتی ہے تاہم چونکہ حکومت کی ٹیمیں گزشتہ دو ماہ سے کام کرکے تھک گئی ہیں اس لیے ان میں ردوبدل کیا گیا ہے جس کی وجہ سے ایک دن مزید تاخیر ہوئی ہے۔
سندھ، وفاق ،خیبر پختونخواہ میں لچکدار پالیسی
صوبہ سندھ میں کورونا وائرس کے حکومتی فوکل پرسن عاطف حسین نے اردو نیوز کو بتایا کہ جن کورونا مریضوں میں تکلیف دہ علامات نہ ہوں ان کو گھروں میں ہی رہنے کی اجازت ہے۔
ان کا کہنا تھا کہ سندھ حکومت نے سب سے پہلے کورونا کو روکنے کے  اقدامات کیے اور نہ صرف کراچی میں 1000 بیڈز کا فیلڈ ہسپتال بنایا بلکہ سکھر اور گڈاب جیسے علاقوں میں بھی انتظامات کیے اور تمام بڑے ہسپتالوں میں کورونا کے آئیولیشن  وارڈز بنا دیے ہیں تاکہ مریضوں کی بڑھتی ہوئی تعداد کو وہاں رکھا جا سکے۔
انہوں نے کہا کہ ڈاکٹرز کی تجویز پر حکومت نے مریضوں کو گھروں میں قرنطینہ کی اجازت دینا شروع کر دی اور اس وقت کراچی میں 80 فیصد کورونا کے مریض ہوم آئسولیشن میں ہیں کیونکہ انہیں تکلیف دہ علامات لاحق نہیں ہیں۔

ترجمان بلوچستان حکومت کا دعویٰ ہے کہ صوبائی حکومت کورونا کے تمام مریضوں کی خبر گیری کرتی ہے۔ فائل فوٹو: روئٹرز

ہوم آئسولیشن کے لیے سندھ حکومت کا ایک طریق کار ہے اور دیکھا جاتا ہے کہ مریض کے لیے گھر میں واش روم کی سہولت ہے یا نہیں اسی طرح انہیں آگاہی دی جاتی ہے کہ گھر میں کیسے رہنا ہے کہ دوسرے محفوظ رہیں۔ ’روزانہ کی بنیاد پر ان سے فون پر رابطہ رہتا ہے اور انہیں ہاٹ لائن نمبر دیا جاتا ہے کہ اگر طبیعت بگڑے تو انہیں ہسپتال منتقل کیا جا سکے۔‘
عاطف حسین کا کہنا تھا کہ ’حکومت کے تجربے سے سامنے آیا کہ ہوم آئسولیشن اس لیے بھی بہتر ہے کہ مریض گھروں میں کم سٹریس کا شکار ہوتے ہیں اور جلدی ریکور ہو جاتے ہیں۔‘
صوبہ خیبر پختونخواہ میں پاکستان تحریک انصاف کی ہی حکومت ہے مگر وہاں کورونا مریضوں کو رکھنے کے حوالے سے پالیسی پنجاب کی صوبائی حکومت سے مختلف ہے۔
اردو نیوز سے بات کرتے ہوئے صوبائی محکمہ صحت کے ترجمان رضوان ملک نے بتایا کہ جو مریض اچھی حالت میں ہوں اور ان میں کورونا کی علامات خطرے سے باہر ہوں انہیں گھروں میں ہی قرنطینہ کی اجازت ہے ۔ ’تاہم جن مریضوں کی طبی حالت خراب ہو انہیں آئسولیشن سنٹر لے جایا جاتا ہے۔‘
وفاقی دارلحکومت اسلام آباد میں بھی زیادہ تر کورونا مریض ہوم آئسولیشن میں رکھے گئے ہیں۔ اردو نیوز سے بات کرتے ہوئے اسلام آباد کے ڈی ایچ او ضعیم ضیا نے بتایا کہ ’ صرف ان مریضوں کو سرکاری ہسپتالوں میں لے جایا جاتا ہے جن کی حالت خراب ہو اور انہیں طبی امداد کی ضرورت ہو۔​‘
  • واٹس ایپ پر پاکستان کی خبروں کے لیے ’اردو نیوز‘ گروپ جوائن کریں

شیئر: