Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

مشکل وقت اب شروع ہو رہا ہے

کسی کو نہیں معلوم کہ انڈیا میں جب آمد ورفت پر پابندیاں ختم ہوں گی تو وائرس پھیلے گا یا نہیں؟ فوٹو: اے ایف پی
لاک ڈاؤن کبھی نہ کبھی تو ختم کرنا پڑے گا یہ تو طے ہے، کیونکہ اب وہ لوگ بھی تھک چکے ہیں جو یہ سوچ کر خوش ہو رہے تھے کہ ’ورک فرام ہوم‘ کریں گے اور وہ بھی جو یہ سوچ رہے تھے کہ لاک ڈاؤن سے کورونا وائرس پر قابو پایا جاسکتا ہے۔
ہم اس وقت جہاں ہیں وہاں پہنچنے میں 40 دن لگے ہیں اور دو ہفتے ابھی باقی ہیں۔ وبا کے پھیلنے کی رفتار سست ضرور ہوئی ہے لیکن یہ کسی کو نہیں معلوم کہ جب آمد ورفت پر پابندیاں ختم ہوں گی تو کیا ہوگا؟
کیا کیسز پھر تیزی سے بڑھیں گے؟ اور اگر ایسا ہوتا ہے تو کیا دوبارہ سوا ارب لوگوں کو ان کے گھروں میں محدود کر دیا جائے گا؟

 

اور اگر ایسا ہوا تو معیشت کا کیا ہوگا جس کے بارے میں ماہرین کی رائے سن کر بہت سے لوگ یہ سوال کرنے لگے ہیں کہ بھوک اور بے روزگاری سے مرنا بہتر ہے یا وائرس سے؟
بات یہ ہے کہ اگر مرنا ہی ہے تو کوئی فرق نہیں پڑتا، جو کام آسانی سے ہو جائے وہ کر لینا چاہیے، محنت تو زندہ رہنے کے لیے کرنی چاہیے۔
لیکن اگر زندہ رہنے کا پروگرام ہے تو یہ سمجھ لینا چاہیے کہ صرف لاک ڈاؤن مسئلے کا حل نہیں ہے۔ ڈیڑھ مہینے کے ملک گیر کرفیو کا اثر ابھی سامنے بھی آنا شروع نہیں ہوا ہے۔
 اعداد و شمار کی باریکیوں میں جائے بغیر بس یہ سمجھ لیجیے کہ کروڑوں کی تعداد میں نوکریاں جاسکتی ہیں اور جانا شروع ہو گئی ہیں۔ کوئی تنخواہیں کم کر رہا ہے، کوئی بغیر تنخواہ چھٹی پر بھیج رہا ہے اور کوئی فون ہی نہیں اٹھا رہا اس لیے ملازمین کو یہ بھی معلوم نہیں کہ نوکری باقی ہے بھی یا نہیں۔
چھوٹے کارخانے ایک بار بند ہوجائیں تو انہیں دوبارہ شروع کرنا بہت مشکل ہوتا ہے۔ یہ سب مالی گنجائش کا کھیل ہے جسے بزنس میں ’وار چیسٹ‘ کہتے ہیں، یا وہ رقم جو اس جنگ سے بچ کر نکلنے کے لیے درکار ہوگی۔
 اس مشکل وقت میں بڑی مچھلیوں کو بھی بہت نقصان ہو رہا ہے، وہ زخم تو کھائیں گی لیکن پھر بھی بچ جائیں گی، کچھ اپنے مدافعتی نظام کی وجہ سے اور کچھ بینکوں کی مہربانیوں سے جو آج کل نان پرفارمنگ ایسٹس کے بوجھ تلے کچھ یوں دبے ہوئے ہیں کہ قرضے دینے سے پہلے چار مرتبہ سوچتے ہیں۔ لیکن قرضہ نہیں دیں گے تو پیسے کا کریں گے کیا؟ اس لیے وہ بڑی مچھلیوں کو زیادہ خوشی سے پیسہ دیتے ہیں اور دیتے رہیں گے۔

انڈیا میں معاشی ماہرین کا کہنا ہے کہ غریبوں پرلاک ڈاؤن کے اثرات ظاہر ہو رہے ہیں۔ فوٹو: اے ایف پی

چھوٹے کارخانے چلانے والے حکومت کے مالی پیکج کا انتظار کرتے رہیں گے جس کا ڈیڑھ مہینا گزر جانے کے بعد بھی بس اخباروں میں ہی ذکر نظر آتا ہے۔ ان میں سے زیادہ تر کے پاس اتنی گنجائش نہیں ہوتی کہ ملازمین کو دو تین مہینے بٹھا کر تنخواہیں دیتے رہیں۔
چند روز قبل ایک اخبار نے لکھا تھا کہ معیشت کو پٹری پر واپس لانے کے لیے خود وزیر اعظم نے کمان سنبھالی۔ جیسے اب تک گھوڑے کی کمان کسی سائیس کے ہاتھوں میں دے رکھی تھی اور اب ریس کا فیصلہ کن مرحلہ آگیا ہے تو خود سٹار جاکی گھوڑے پر سورا ہوگئے ہیں۔
بھائی، اگر آپ کو یاد ہو تو میعشت کا پہلے ہی برا حال تھا، گذشتہ دو سال سے شرح نمو صرف ایک ہی سمت میں جا رہی تھی، یعنی جنوب کی طرف، اور جیسے حکومت کی طرح شیئر مارکیٹ کو بھی اس کی خبر نہ ہو، وہ اپنے ہی خیالوں میں مگن روز بلندیوں کے نئے ریکارڈ توڑ رہی تھی۔
اگر شیئر بازار اور معیشت کا موازنہ گھوڑا گاڑی سے کیا جائے تو کوئی گھوڑے کو گاڑی سے جوڑنا بھول گیا تھا۔ لیکن شیئر مارکیٹ سے معیشت کی اصل حالت کا انداز نہیں لگایا جاسکتا۔
آگے آنے والے چیلنجز کے بارے میں اندازہ لگانا کوئی راکٹ سائنس نہیں ہے۔ غریبوں کو فی الحال اس بحث سے باہر رکھتے ہیں کیونکہ ان پر تو بجلی گرنا شروع ہوگئی ہے۔
لیکن اگر آپ غریب نہیں ہیں اور اب تک ورک فرام ہوم کر رہے تھے یا دکان یا کاروبار بند ہونے کی اب تک آپ کو زیادہ فکر نہیں تھی، اور آپ یہ سوچ رہے تھے کہ ساری زندگی گزر گئی محنت کرتے کرتے، یہ فیملی کے ساتھ وقت گزارنے کا اچھا موقع ہے۔

بڑی بڑی ریٹنگ ایجنسیاں کہہ رہی ہیں کہ شرح نمو گھٹ کر صفر بھی ہو سکتی ہے۔ فوٹو: اے ایف پی

لیکن اب عاجز آچکے ہیں تب بھی ذرا سوچیے کہ لاک ڈاؤن ختم ہونے کے بعد بھی کیا آپ مالز یا سنیما ہال میں جائیں گے؟ یا یہ سوچیں گے کہ بڑی مشکل سے جان بچی ہے اب جب تک کورون اوائرس کا ٹیکہ تیار نہیں ہوجاتا کوئی ایسا کام نہ کرو جو ذرا بھی غیر ضروری ہے۔
آپ ہوائی جہاز میں سفر کریں گے جہاں ایک بند جگہ میں آپ تین چار سو لوگوں کے ساتھ بیٹھے ہوں گے؟ یا ہوٹل میں کھانا کھانے جائیں گے؟ اور اگر کچھ پیسے جوڑ رکھیں ہیں تو کرفیو کھلتے ہی نئی گاڑی خریدنے جائیں گے یا پیسوں کو سنبھال کر رکھیں گے کہ کہیں دوبارہ اسی مشکل میں نہ گھر جائیں جس سے ابھی نکلنا ہی شروع ہوئے ہیں۔
کہنے کا مطلب صرف یہ ہے کہ ہندوستان کی معیشت صارفین کے سہارے چلتی ہے۔ جسے انگریزی میں کہتے ہیں کنزمپشن یا کنزیومر ڈریون اکانومی، یعنی اس کے سوا ارب عوام، غریب ہوں یا امیر، اپنی حیثیت کے مطابق سامان خریدتے ہیں، جس سے ڈیمانڈ بڑھتی ہے، کمپنیاں مینیوفیکچرنگ کرتی ہیں، جس سے نوکریاں پیدا ہوتی ہیں اور یوں میعشت بھی ترقی کرتی ہے۔
لیکن یہ سارا کھیل اعتماد کا ہے۔ لوگوں کو لگتا ہےکہ نوکری یا آمندی محفوظ ہے تو وہ ان چیزوں پربھی پیسہ خرچ کرتے جو فوری طور پر ضروری نہ ہوں، نیا فرج یا واشنگ مشین، یا بیرون ملک سفر، لیکن عدم استحکام اور خوف کے ماحول میں پہلا رئیکشن یہ ہی ہوتا ہے کہ آگے چلکر حالات کیا رخ اختیار کریں گے، کچھ معلوم نہیں، اس لیے خاموشی سے بیٹھے رہو یہ پیسہ مشکل وقت میں کام آئے گا۔
یہ ہی ماحول اس وقت انڈیا میں ہے۔ بڑی بڑی ریٹنگ ایجنسیاں کہہ رہی ہیں کہ شرح نمو گھٹ کر صفر بھی ہو سکتی ہے اور یہاں تک کہ منفی میں بھی جاسکتی ہے۔ جیسا میں نے پہلے کہا کہ جو لوگ یہ سمجھ رہے تھے کہ لاک ڈاؤن مسئلہ کا حل ہے وہ اب فوراً کاروبار شروع کرنے کی ضرورت پر زور دے رہے ہیں۔

انڈیا میں گذشتہ تقریباً ڈیڑھ سال سے گاڑیوں کی فروخت تیزی سے گر رہی تھی. فوٹو: اے ایف پی

اسی ہفتے دلی کے وزیراعلی اروند کیجریوال نے کہا کہ ریاستی حکومت کی آمدنی (گذشتہ برس اپریل کے مقابلے میں)  3500 کروڑ روپے سے کم ہو کر تین سو کروڑ روپے رہ گئی ہے۔ یا یہ کہیے کہ لاک ڈاؤن کی وجہ سے ریاستی حکومت کی آمدنی دس فیصد سے بھی کم رہ گئی ہے۔
تو کیا حیرت ہے کہ اروند کیجریوال پوچھ رہے تھے کہ ایسے حالات میں حکومت کیسے چلے گی؟ بس کم و بیش یہی حالت دوسری ریاستوں اور وفاقی حکومت کی بھی ہوگی۔
کار انڈسٹری کی مثال لیجیے۔ وہ اس لیے کہ ملک میں میں مینوفیکچرنگ کا آدھے سے زیادہ حصہ اسی سیکٹر سے آتا ہے۔ گذشتہ تقریباً ڈیڑھ سال سے گاڑیوں کی فروخت تیزی سے گر رہی تھی اور بڑی تعداد میں ڈیلرشپ بند ہو رہی تھیں۔ اب اپریل میں ایک بھی گاڑی نہیں بکی ہے اور ایسا تاریخ میں پہلی مرتبہ ہوا ہے۔ جب تک ڈیلرشپ نہیں کھلتیں اور گاڑیوں کے خریدار نہیں لوٹتے، گاڑیاں بنانے کا کیا فائدہ ہے؟
گاڑیوں کے تمام پرزے بڑی فیکٹریاں خود نہیں بناتیں، کچھ مقامی طور پر بنواتی ہیں اور کچھ چین سے امپورٹ کرتی ہیں۔
 جب تک یہ سپلائی چین پوری طرح بحال نہیں ہوتی، چاہ کر بھی پروڈکشن شروع نہیں ہوسکتا۔ یہ فیکٹریاں خود بھی جب تک کام شروع نہیں کر سکتیں جب تک پوری لیبر کو کام کرنے کی اجازت نہ ملے، وہ آسانی سے ہوگا نہیں کیونکہ ان سے سوشل ڈسٹنسنگ کے نئے قواعد پر عمل کرنے کے لیے کہا جارہا ہے۔
بس شکر منائیے کہ حکومت نے کافی تنقید کے بعد یہ تجویز واپس لے لی ہے کہ اگر کسی بھی فیکٹری میں کورونا وائرس کا مریض ملتا ہے تو اس کے مالکان یا اعلیٰ افسران کے خلاف سخت کارروائی کی جائے گی۔

ہفتوں کی ذلت کے بعد لاکھوں ایسے مزدور اب آخرکار اپنے گھروں کو لوٹنا شروع ہوئے ہیں۔ فوٹو: اے ایف پی

اور لیبر کہاں سے آئے گی؟ ہفتوں کی ذلت کے بعد لاکھوں ایسے مزدور اب آخرکار اپنے گھروں کو لوٹنا شروع ہوئے ہیں جو ملک کے دوسرے حصوں میں جاکر کام کرتے تھے۔ یہ لوگ بہت مشکل وقت سے گزرے ہیں اس لیے اس وقت تک نہیں لوٹیں گے جب تک انہیں یقین نہ ہو جائے کہ اب حالات نارمل ہو گئے ہیں۔ اور نیا نارمل کیا ہوگا کسی کو نہیں معلوم ۔
تو اگے کیا ہوگا۔ کچھ پابندیاں چار مئی سے ختم کی گئی ہیں لیکن اتنی نہیں کہ ان سے کوئی خاص فرق پڑے۔ دلی ممبئی جیسے بڑے شہر، جہاں زیادہ تر کاروبار ہوتا ہے، کوروناوائرس کے زیادہ کیسز ہونے کی وجہ سے تقریباً پوری طرح بند ہیں۔
20 مئی کے بعد اگر پابندیاں پوری طرح ختم ہوگئیں تو پھر دو تین ہفتوں میں یہ معلوم ہوگا کہ وبا کے پھیلنے کی رفتار واقعی سست ہوگئی ہے یا لاک ڈاؤن کی وجہ سے عارضی طور پر سست ہوئی تھی۔
اس پس منظر میں بس ایک معمولی سی تفصیل اور۔ انڈیا میں تقریباً نوے فیصد لوگ انفارمل سیکٹر میں کام کرتے ہیں، چھوٹے چھوٹے کارخانوں میں، بلڈنگ پراجیکٹس پر، وہ کہیں سڑکیں بناتے ہیں تو کہیں گاڑیوں کی مرمت کرتے ہیں لیکن حکومت کی فلاحی سکیموں سے محروم رہتے ہیں۔
 ان میں بڑی تعداد ایسے لوگوں کی ہوتی ہے جو دورگاؤں دیہات میں اپنے گھر چھوڑ کر شہری علاقوں میں جاکر کام کرتے ہیں۔ گھروں میں کام کرنے والی عورتیں، سکیورٹی گارڈ، ڈروائیو، مالی، یومیہ مزدوری کرنے والے لوگ، آپ نے انہیں کہیں نہ کہیں ضرور دیکھا ہوگا۔

انڈیا میں لاک ڈاؤن کے آغاز پر لاکھوں مزدور گھروں سے دور بڑے شہروں میں پھنس گئے تھے۔ فوٹو: اے ایف پی

جن لوگوں نے معیشت کو پٹری پر واپس لانے کا بیڑا اٹھایا ہے، یہ لوگ ان کی فہرست میں سب سے اوپر ہونے چاہییں۔ لیکن لگتا نہیں ہے کہ ایسا ہے۔ ان لاکھوں لوگوں سے حکومت ٹرین اور بسوں کے کرائے بھی وصول کر رہی ہے جو اپنی نوکریاں ختم ہوجانے کے بعد چھ ہفتوں سے بس کسی طرح یہاں وہاں خیرات پر گزارا کر رہے تھے۔
عام حالات میں وہ پیسہ کما کر اپنے گھر بھیجتے ہیں، اب اپنے گھروں کو لوٹنے کے لیےگھر سے ہی پیسہ منگوا رہے ہیں۔جیسے بھی ہو۔
جب تک یہ لوگ ٹرین میں سوار نہ ہوں، گاڑی کا پٹری پر آنا بے معنی بھی ہے اور ممکن بھی نہیں۔کچھ کے لیے سواری کا انتظام ہوا ہے لیکن بہت سے تو فی الحال بھوکے پیاسے پیدل ہی اپنے گھروں کو لوٹ رہے ہیں۔ واپسی کا سفر ابھی باقی ہے۔
اس لیے لگتا ہےکہ مشکل وقت تو اب شروع ہو رہا ہے۔
  • اردو نیوز میں شائع ہونے والے کالم اور بلاگز واٹس ایپ پر حاصل کرنے کے لیے ’’اردو نیوز بلاگز‘‘ گروپ جوائن کریں

شیئر: