Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

انڈین فضائیہ کا طبی عملے کو خراج تحسین، پھولوں کی بارش

انڈیا میں لاک ڈاؤن ہوئے 40 روز ہو چکے ہیں اور گذشتہ 24 گھنٹوں میں کووڈ 19 کے ریکارڈ 26 سو سے زائد کیسز سامنے آئے ہیں، جبکہ ایک دن میں سب سے زیادہ 83 ہلاکتیں بھی رپورٹ ہوئی ہیں۔ 
ملک میں کورونا وائرس سے متاثرہ افراد کی مجموعی تعداد 40 ہزار تک پہنچ چکی ہے جبکہ مرنے والوں کی تعداد 13 سو سے زیادہ ہے۔
دریں اثنا انڈین حکومت نے کورونا کے خلاف فرنٹ لائن پر کام کرنے والے ڈاکٹروں اور طبی عملے کو فضائیہ کے طیاروں کے ذریعے خراج تحسین پیش کیا ہے جبکہ مختلف ہسپتالوں پر ہیلی کاپٹروں کے ذریعے پھول بھی برسائے گئے ہیں۔
سرکاری انڈین خبر رساں ادارے اے این آئی نے دارالحکومت نئی دہلی کے اہم مقامات کے اوپر پرواز کرتے طیاروں کی تصاویر جاری کرتے ہوئے لکھا ہے کہ ’انڈین فضائیہ کے طیار ے کووڈ 19 کے خلاف جنگ میں شامل پیشہ ور طبی عملے اور فرنٹ لائن ورکرز کو خراج تحسین پیش کرنے کے لیے راج پتھ کے اوپر سے گزرتے ہوئے۔‘
اس حوالے سے سوشل میڈیا پر بھی بحث جاری ہے اور ٹوئٹر پر 'انڈین ایئر فورس' اور 'ایئر فورس' دونوں ٹرینڈ کر رہے ہیں۔
کورونا سے لڑنے والوں کے احترام میں انڈین بحریہ کے بیڑے بھی شام کو گشت کریں گے۔ اس کے علاوہ ایئر فورس کے ہیلی کاپٹرز سے دہلی کے مختلف ہسپتالوں پر پھول بھی برسائے گئے، جبکہ مغربی بنگال کی حکومت نے طیاروں کو گزرنے کی اجازت نہیں دی ہے۔
 
دوسری جانب انڈیا میں مسلمانوں کو نشانہ بنائے جانے کا سلسلہ جاری ہے۔ گذشتہ روز سے اتوار کی صبح تک انڈیا میں ٹوئٹر پر 'سٹاپ ٹارگٹنگ مسلم' یعنی مسلمانوں کو نشانہ بنانا بند کرو ٹرینڈ کرتا رہا۔
بظاہر یہ ٹرینڈ اس وقت سامنے آئے جب ایک مسلمان سول سرونٹ (آئی اے ایس افسر) محمد محسن کو جنوبی انڈیا کی ریاست کرناٹک نے ایک ٹویٹ کی وجہ سے شوکاز نوٹس جاری کیا۔
دراصل محسن نے 'تبلیغی ہیروز' کے ہیش ٹیگ کے ساتھ تبلیغی جماعت کے لوگوں کی جانب سے پلازمہ کا عطیہ کرنے کی تعریف کی تھی۔ ہر چند کہ یہ کوئی جرم نہیں لیکن محمد محسن کو اس کے لیے نوٹس جاری کیے جانے کو سوشل میڈیا پر تنقید کا نشانہ بنایا جا رہا ہے۔
عائشہ رینا نامی ایک صارف نے لکھا ہے کہ 'کرناٹک کے ایک آئی اے ایس آفسر محمد محسن کو تبلغی ہیروز کی جانب سے پلازمہ دینے کی تعریف کرنے پر شوکاز نوٹس جاری کیا گیا ہے۔ کیا تعریف کرنا اچھا جذبہ ہے یا جرم ہے لیکن جب بات ایک برادری کی ہوتی ہے تو اسے ہمیشہ نشانہ بنایا جاتا ہے۔'
اس ہیش ٹیگ کے ساتھ مختلف تصاویر بھی شیئر کی جا رہی ہیں جن میں بڑے اور کھلے عام جرائم کرنے والے تو کھلے گھوم رہے ہیں لیکن شہریت کے ترمیمی قانون کے خلاف مظاہرہ کرنے والوں کو نشانہ بنایا جا رہا ہے۔
ایک صارف نے لکھا ہے کہ 'کسی کی تعریف کرنے سے پہلے آپ دیکھ لیں کہ کہیں وہ مسلمان تو نہیں ہے۔'
ایک صارف محسن خان نے دو تصاویر پوسٹ کی ہیں جن میں ایک لڑکی نے قلم اٹھا رکھی ہے اور دوسری تصویر میں ایک لڑکے نے پستول اور اس کے ساتھ انھوں نے لکھا ہے کہ 'یہ ہے نیا انڈیا جس میں ایک کو جیل اور دوسرے کو بیل یعنی ضمانت پر رہائی ملی ہوئی ہے۔'
لبیہ نامی صارف کی طرح بہت سے لوگوں نے ایک پوسٹ جاری کی ہے جس میں چند مسلمانوں کے نام ہیں جن پر غیر قانونی سرگرمیوں میں ملوث ہونے کے مقدمات درج کیے گئے ہیں۔ ان کے لیے انصاف کا مطالبہ کیا گیا ہے۔
لبیبہ رحیم نے لکھا ہے کہ ’صفورہ زرگر کے لیے انصاف، سیف الرحمان کے لیے انصاف، مسرت زہرہ کے لیے انصاف، ڈاکٹر کفیل کے لیے انصاف، شرجیل امام کے لیے انصاف، گل شفا کے لیے انصاف، عمر خالد کے لیے انصاف، ڈاکٹر ظفر الاسلام کے لیے انصاف۔'
انڈیا کے معروف سماجی و سیاسی رہنما یوگیندر یادو نے اپنے ایک ویڈیو پیغام میں کہا ہے کہ کورونا کی اس وبا کے دوران لاک ڈاؤن میں پولیس ایسے لوگوں کے خلاف چن چن کر کارروائی کر رہی ہے جو شہریت کے ترمیمی قانون کے خلاف مظاہرے میں پیش پیش تھے۔
 انھوں نے اس پر گہری تشویش کا اظہار بھی کیا ہے۔
 

شیئر: