Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

قطر میں غیر ملکی کارکن کھانے کے لیے’بھیک مانگنے پر مجبور‘

کوورنا وائرس نے قطر میں موجود دوسرے ممالک سے تعلق رکھنے والے مزدوروں کو کھانے کے لیے بھیک مانگنے پر مجبور کر دیا ہے۔
قطر دنیا کے ان ممالک میں شمار ہوتا ہے جہاں کورونا کے کیسز بڑی تعداد میں موجود ہیں اور وہ ان سے نمٹنے کی کوشش کر رہا ہے۔
برطانوی اخبار دی گارڈین میں شائع ہونے والی ایک تحقیقاتی رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ 'ایک مالا مال ملک ہونے کے باوجود کم آمدن والے پریشان مزدوروں کو مالکان کی جانب سے بے سہارا چھوڑ دیا گیا ہے اور وہ ملک چھوڑنے کے قابل بھی نہیں ہیں۔'
'کچھ مزدوروں نے اپنے مالکان اور خیراتی اداروں سے کھانا مہیا کرنے کی اپیل کی ہے۔'
صفائی کا کام کرنے والے رفیق، جن کا تعلق بنگلہ دیش سے ہے، نے بتایا کہ ’میرے پاس زیادہ کھانے کا سامان نہیں بچا سوائے تھوڑے سے چاول اور دالوں کے، جو ختم ہونے کے قریب ہیں۔ اس کے بعد جانے کیا ہو گا۔'
رفیق ان بیس سے زائد مزدوروں میں شامل ہیں جن کی ملازمت مارچ میں ختم ہوئی۔ اخبار نے ان کے مسائل کے حوالے سے ان کا انٹرویو کیا۔
ابھی تک قطر میں کورونا وائرس کی وجہ سے 12 اموات ہوئی ہیں لیکن اس کی 28 لاکھ کی آبادی میں اٹھارہ ہزار سے زائد کورونا کے کیسز موجود ہیں جو دنیا کے بلند ترین اعداد و شمار کی شرح میں شامل ہیں۔ ان کورونا کیسز میں بڑی تعداد غیرملکی مزدوروں کی ہے۔
انسانی حقوق کے لیے کام کرنے والے ادارے مزدور کیمپس میں بیماری کے پھیلاؤ پر کئی مرتبہ تشویش کا اظہار کر چکے ہیں، جن میں دوحہ کے نواح میں واقع انڈسٹریل ایریا خصوصی طور پر شامل ہے۔

مزدوروں کا کہنا ہے کہ ان کے پاس اشیائے خور و نوش ختم ہو چکی ہیں (فوٹو: اے ایف پی)

ہیومن رائٹس واچ، ایمنسٹی انٹرنیشنل اور متعدد دوسری این جی اوز اور ٹریڈ یونینز نے مارچ میں قطر کی حکومت کو ایک مشترکہ خط بھیجا تھا جس میں مزدوروں کو کورونا وائرس سے بچانے کے لیے انتظام کرنے کا کہا گیا تھا۔
خط میں لکھا گیا گیا تھا کہ ’قطری حکام کو دوسرے اقدامات کے ساتھ ساتھ تمام مزدوروں بشمول غیر رجسٹرڈ مزدوروں کو قرنطینہ کرنا چاہیے یا پھر انہیں ٹیسٹنگ اور دوسری مناسب طبی سہولتیں دی جائیں۔'
عرب نیوز نے گذشتہ ماہ اس انسانی المیے کے بارے میں رپورٹ شائع کی تھی جس میں بتایا گیا تھا کہ 'کورونا کی وجہ سے ہونے والی بندش کے بعد ہزاروں مزدور انڈسٹریل ایریا کے لیبر کیمپس میں رہ رہے ہیں۔'

قطر میں ایک ایک کمرے میں دس دس مزدور رہ رہے ہیں (فوٹو: اے ایف پی)

انتہائی غیرمنظم انداز میں پھیلا یہ پرہجوم علاقہ ان کم آمدنی والے مزدوروں کا گھر ہے جن کا تعلق دوسرے ممالک سے ہے۔ ایک کمرے میں دس، دس افراد رہتے ہیں اور ان کا کچن اور ٹائلٹ بھی مشترکہ ہوتا ہے۔
کورونا وائرس کے کیسز بڑھنے پر قطر نے گیارہ مارچ کو سخت لاک ڈاؤن کیا تھا۔
حالیہ دنوں میں پابندیوں میں کچھ نرمی شروع کی گئی ہے اور حکومت کی جانب سے کہا گیا ہے کہ 'ٹیسٹنگ کے عمل کو بڑھایا جائے گا۔'
مزدوروں کے لیے پچھلے ماہ صورت حال مزید خراب اس وقت ہوئی جب بند ہونے والی کمپنیوں کو اجازت دی گئی کہ 'وہ مزدوروں کو بغیر تنخواہ کے چھٹی پر بھیج سکتی ہیں یا پھر ان کے کنٹریکٹ ختم کر سکتی ہیں۔'

مزدور تنظیموں نے غیر ملکی کارکنوں کے ٹیسٹ کرانے کا مطالبہ کیا ہے (فوٹو: اے ایف پی)

دی گارڈین کی رپورٹ کے مطابق 'کمپنیوں کو ہدایت کی گئی تھی کہ مزدوروں کو رہائش اور کھانے کی فراہمی جاری رکھی جائے تاہم موجودہ صورت حال سے عیاں ہے کہ ایسا نہیں ہو رہا۔'
نیپال سے تعلق رکھنے والے گھریلو ملازمین کے ایک گروپ کا کہنا ہے کہ 'ان کو کمپنی کی جانب سے ایک کاغذ پر دستخط کرنے پر مجبور کیا گیا جس میں لکھا گیا تھا کہ وہ اب مزید ان کی تنخواہوں کے لیے ذمہ دار نہیں ہے۔'
ان مزدوروں میں سے ایک نے کہا کہ ’ہمارے پاس اب پیسے نہیں بچے ہیں، ہم نے اپنے سپروائزر سے کھانے کے لیے التجا کی جس پر آخرکار کچھ سامان دیا گیا، لیکن تب کیا ہو گا جب یہ ختم ہو جائے گا۔'

شیئر: