اسرائیل کے ساتھ 12 روزہ جنگ کے بعد ایران کے سپریم لیڈر آیت علی خامنہ ای پہلی بار عوامی سطح پر منظرعام آئے ہیں اور انہوں نے عاشورہ کے موقع پر ایک تقریب میں شرکت کی۔
امریکی خبر رساں ادارے اے پی کے مطابق ملکی معاملات پر حتمی رائے رکھنے والے لیڈر کے جنگ کے دوران سامنے نہ آنے سے یہ نتیجہ اخذ کیا گیا تھا کہ وہ کسی بنکر میں ہیں، تاہم ریاستی میڈیا نے ان دعووں کو تسلیم نہیں کیا تھا۔
ریاستی ٹی وی پر چلنے والی فوٹیج میں خامنہ ای کو تہران میں ان کی رہائش گاہ کے قریب مسجد میں آتے ہوئے دکھایا جس پر لوگوں نے کھڑے ہو کر نعرے لگائے اور انہوں نے ہاتھ ہلا کر ان کا جواب دیا۔
مزید پڑھیں
اس اجتماع میں پارلیمنٹ کے سپیکر اور دوسرے حکام بھی موجود تھے، اگرچہ ایسی تقریبات ہمیشہ سخت سکیورٹی میں منعقد ہوتی ہیں۔
خیال رہے کہ اسرائیل ایران لڑائی کے دوران امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے سوشل میڈیا پوسٹ میں 86 سالہ رہنما کو خبردار کرتے ہوئے کہا تھا ’امریکہ کو معلوم ہے کہ وہ کہاں ہیں تاہم ان کو فی الوقت قتل کرنے کا کوئی منصوبہ نہیں ہے۔‘
26 جون کو جنگ بندی کے تھوڑی دیر ایرانی لیڈر نے اپنا پہلا ریکارڈڈ بیان جاری کیا تھا جس میں کہا گیا تھا کہ ’قطر میں امریکہ کے بیس پر حملہ کر کے اس کے منہ پر طمانچہ مارا گیا ہے۔‘
بیان میں اسرائیل اور امریکہ کو ایران پر مزید حملوں کے حوالے سے خبردار بھی کیا گیا تھا۔
اس کے جواب میں صدر ٹرمپ نے کہا تھا کہ ’دیکھیں، آپ بڑے ایمان والے آدمی ہیں اور آپ کی اپنے ملک میں بہت عزت ہے۔ آپ سچ بولیں، آپ کو بہت سخت مار پڑی ہے۔‘

حملوں کے بعد ایران نے تسلیم کیا کہ ان کے 900 شہری ہلاک اور ہزاروں زخمی ہوئے جبکہ یہ اعتراف بھی کیا کہ اس کی جوہری تنصیبات کو سخت نقصان پہنچا ہے۔
تاہم ایران نے جوہری مواد پر نظر رکھنے والے اقوام متحدہ کے نگران ادارے (آئی اے ای اے) کے انسپکٹرز کو ان تنصیبات تک رسائی دینے سے انکار کیا تھا۔
ایرانی صدر نے بدھ کو نگران ادارے کے ساتھ تعاون معطل کرنے کا حکم دیا تھا جس سے انٹرنیشنل اٹامک انرجی ایجنسی کی پروگرام کو ٹریک کرنے کی صلاحیت مزید کم ہو گئی ہے۔
اسرائیل کی جانب سے جنگ اس خوف کی وجہ سے شروع کی گئی تھی کہ ایران جوہری ہتھیار تیار کرنے کی کوشش کر رہا ہے۔
ابھی تک یہ واضح نہیں ہے کہ حملوں سے جوہری تنصیبات کو کس قدر نقصان پہنچا ہے اور یہ کہ آیا انہیں حملوں سے قبل کہیں اور منتقل کیا گیا تھا جبکہ یہ بھی واضح نہیں ہو سکا ہے کہ کیا ایران جوہری معاملات پر امریکہ کے ساتھ باری جاری رکھے گا۔
لڑائی کے دوران اسرائیل نے ایران کی اہم فوجی شخصیات اور سائنسدانوں کے علاوہ اس کے دفاعی نظام کو بھی نشانہ بنایا تھا جس کے جواب میں ایران نے 550 بیلسٹک میزائل اسرائیل پر داغے تھے جن میں سے زیادہ تر کو راستے میں ناکارہ بنا دیا گیا تھا۔
تاہم اس کے نتیجے میں 28 افراد ہلاک ہوئے اور چند علاقوں میں عمارتوں کو نقصان پہنچا تھا۔