Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

’مشتبہ مریض کہہ رہے ہیں کہ باہر مر جائیں، پاکستان نہ آئیں‘

چیف جسٹس نے کہا کہ ہماری معیشت صومالیہ، یمن اور افغانستان جیسی ہے (فوٹو: اے ایف پی)
پاکستان کے چیف جسٹس نے ملک میں قرنطینہ سینٹرز کی صورت حال پر تشویش کا اظہار کرتے ہوئے کہا ہے کہ ایک بندہ قرنطینہ سینٹر پہنچ گیا تو وہ پیسے دیے بغیر وہاں سے نکل نہیں سکتا۔
جسٹس سردار طارق نے ریمارکس دیے کہ 'شاپنگ مالز کھولنے کا الزام عدالت پر نہ لگائیں، چیف جسٹس نے کہا کہ ہفتہ اور اتوار کو شاپنگ مالز کھولنے کا حکم صرف عید تک کے لیے دیا۔'
منگل کو سپریم کورٹ میں کورونا وائرس ازخود نوٹس کی سماعت چیف جسٹس گلزار احمد کی سربراہی میں پانچ رکنی بینچ نے کی۔
سماعت کے آغاز پر اٹارنی جنرل خالد جاوید نے کہا کہ کورونا سے متعلق اخراجات پر وضاحت کے لیے چیئرمین این ڈی ایم اے عدالت میں موجود ہیں۔ چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ 'ہم نے اخراجات کا نہیں پوچھنا، ہماری تشویش عوام کو دی جانے والی سروسز کے معیار پر ہے۔'
چیف جسٹس نے کہا کہ کورونا کے مشتبہ مریض کا سرکاری لیب سے ٹیسٹ مثبت اور پرائیویٹ سے منفی آتا ہے۔ 'سپریم کورٹ لاہور رجسٹری ملازمین کے ساتھ بھی ایسا ہی ہوا۔ کورونا کے مریض کو دنیا جہاں کی ادویات لگا دی جاتی ہیں۔ لاہور میں ایک شخص رو رہا تھا کہ اس کی بیوی کو کورونا نہیں لیکن ڈاکٹرز چھوڑ نہیں رہے تھے۔'
چیف جسٹس نے کہا کہ 'قرنطینہ سینٹرز کے مشتبہ مریض ویڈیوز میں تارکین وطن کو کہہ رہے ہیں کہ باہر مر جائیں مگر پاکستان نہ آئیں۔ این ڈی ایم اے سارا سامان چین سے منگوا رہا ہے۔'

چیف جسٹس نے کہا کہ کورونا کا سارا سامان چین سے منگوایا جا رہا ہے (فوٹو: چینی سفارتخانہ)

انہوں نے کہا کہ 'ہماری معیشت کا شمار صومالیہ، یمن اور افغانستان کے ساتھ ہوتا ہے۔ پاکستان کو ہر چیز میں خودمختار ہونا ہوگا، سٹیل مل چل پڑے تو جہاز اور ٹینک بھی یہاں بن سکتے ہیں۔ سٹیل ملز کو سیاسی وجوہات کی بنا پر چلنے نہیں دیا جاتا۔'
اٹارنی جنرل نے کہا کہ عدالتی ریمارکس کے بعد عوام کورونا کو سنجیدہ نہیں لے رہے۔ سپریم کورٹ نے کہا کہ عدالت اس بات سے آگاہ ہے کہ کورونا ملک میں موجود ہے۔ لوگ اس سے بڑی تعداد میں متاثر ہو رہے ہیں۔ شاپنگ سینٹر ہفتہ اور اتوار کو کھولنے کا حکم عید کے تناظر میں تھا۔ عید کے بعد صورت حال کا جائزہ لیں گے۔

سپریم کورٹ نے کہا کہ عید کے بعد مالز کے معاملے کا جائزہ لیں گے (فوٹو: اے ایف پی)

اٹارنی جنرل نے موجودہ حالات بتاتے ہوئے کورونا وائرس کے حوالے سے جون کے مہینے کو انتہائی خطرناک قرار دیا۔ چیف جسٹس نے کہا کہ 'ملک میں کمپنیاں اور ادارے بند ہو رہے ہیں ہم صومالیہ کی طرف جا رہے ہیں، لیکن بادشاہوں کی طرح رہ رہے ہیں۔'
ایڈووکیٹ جنرل سندھ نے لاک ڈاؤن کے مؤثر ہونے سے متعلق بتایا تو چیف جسٹس نے سرزنش کرتے ہوئے ریمارکس دیے کہ 'عدالت نے سندھ حکومت کو کچھ نہیں کہا، انسپکٹر پیسے لے کر کاروبار کھولنے کی اجازت دے رہے ہیں۔'
'سندھ حکومت نے سب رجسٹرار آفس کھول دیے، کرپشن میٹنگز سب رجسٹرار آفس میں ہوتی ہیں۔ سندھ حکومت کے فیصلوں میں بڑا تضاد ہے۔'

چیف جسٹس کے مطابق سرکاری لیب سے ٹیسٹ مثبت اور نجی سے منفی آتا ہے (فوٹو: روئٹرز)

جسٹس سردار طارق نے کہا کہ پنجاب اور اسلام آباد میں مالز حکومتیں کھول رہی تھیں، عدالت کا حکم صرف سندھ کی حد تک تھا، مالز کھولنے کا الزام عدالت پر نہ لگائیں۔
سپریم کورٹ نے وفاق اور صوبائی حکومتوں کی ماہرین کی ٹیم بنانے کی استدعا مسترد کرتے ہوئے دونوں سے پیش رفت رپورٹس طلب کر لیں، عدالت نے سینٹری ورکرز کو حفاظتی سامان اور تنخواہیں فراہم کرنے کا حکم دیتے ہوئے سماعت 8 جون تک ملتوی کر دی۔

شیئر: