Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

پاکستان کرکٹ نظام میں تبدیلوں کی بازگشت

 
 ورلڈ کپ سر پر ہے، جس کیلئے تمام ٹیمیں تیاریوں میں مصروف ہیں مگرہمارا کرکٹ بورڈ چین کی بنسی بجاتے ہوئے ” سب ٹھیک ہے، کرلیں گے ، ہو جائے گا “والی حکمت عملی کار بندہے
 
سید جمیل سراج ہاشمی ۔۔ کراچی
 
پاکستان کا کرکٹ نظام اور ٹیم اس وقت نازک دور سے گزر رہی ہے، ورلڈ کپ دو سال کے فاصلے پر ہے، جس کیلئے لگ بھگ تمام ٹیمیں عمدگی سے تیاریوں میں مصروف ہیں، لیکن ہمارا کرکٹ بورڈ بے فکری کی بانسری بجا رہا ہے، اور” سب ٹھیک ہے، کرلیں گے ، ہو جائے گا “والی حکمت عملی پر عمل پیرا ہے، ٹیم کی تشکیل تو کجاکپتان کی تقرری کے مسائل ہی میں الجھا ہوا ہے ، ٹیم کی قیادت کی گتھی نہ جانے کب سلجھے گی ؟ سلجھے گی بھی یا نہیں؟۔ اس صورتحال پر ناقدین کا کہنا ہے کہ یہ ایسا مسئلہ ہے جو سلجھنے کی بجائے الجھتا رہے گا، ان کے خیال میں پی سی بی حکام کے پاس اس قسم کے معاملات کے حل کرنے کیلئے وقت ہے نہ ہی کوئی دلچسپی۔ جس ٹیم کی کارکردگی میں عدم تسلسل کی وجہ سے اس کی رینکنگ تنزلی کا شکار ہو اورجس کے نتیجے میں اسے ورلڈ کپ میں شرکت کے لالے پڑے ہوں ،وہاں کے کرکٹ کے کرتا دھرتاوں کو ایسی حرکتیں زیب نہیں دیتیں۔
ناقدین نے قومی ٹیم اور پی سی بی کے دیگر بگڑے معاملات کو پس پشت ڈالتے ہوئے پاکستان کرکٹ نظام میں انقلابی تبدیلیوں اور دو سینئر کرکٹرز یونس خان و ٹیسٹ کپتان مصباح الحق کی ریٹائرمنٹ اور کپتان کی تقرری جیسے مسائل پر سیر حاصل گفتگو میں کہا کہ دنیا میں ایسا کہیں نہیں ہوتا،جیسے پاکستان کرکٹ بورڈ میں معاملات چلائے جا رہے ہیں، چیف سلیکٹر سابق ماسٹر بیٹسمین انضمام الحق جو گزشتہ سیریز میں قومی ٹیم کی بدترین کارکردگی پر سب کی طرح بے حد شرمندہ و برہم تھے اب وہ بھی ٹیم میں اہم تبدیلیوں کے مسئلے کو غیر اہم کہتے سنے جا رہے ہیں، ایک پریس بریفنگ میں موصوف یہ عندیہ دے گئے کہ ”جب تک سینیئر کرکٹرز کے متبادل سامنے نہیں آتے اس وقت تک ہمیں تجربہ کار کھلاڑیوں پر ہی انحصار کرنا ہوگا کیونکہ اس کے بغیر ہمارے پاس کوئی آپشن نہیں ہے“ان کے اس جملے میں ناقدین اور سمجھنے والوں کیلئے بہت کچھ ہے۔
سابق کرکٹرز کا کہنا تھا پی سی بی کے معاملات آج سے نہیں گزشتہ دو سے تین عشروں سے دگرگوں چلے آرہے ہیں، ٹیم کی کارکردگی پر کسی نے توجہ نہیں دی، کھلاڑیوں کے مالی امور کا مسئلہ ہو یا ان کے لئے مراعات کاتعین ، ہر مرحلے پر ان اہم امور کی آڑ میں بورڈ کو مالی خسارہ اٹھانا پڑا، جبکہ اس سے وابسطہ افراد یا اہلکاروں کو ذاتی مفادات کے علاوہ دیگر مسائل کی پرواتھی نہ فکر جس کے نتیجے میں اور وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ پی سی بی کے اندرونی حالات بد سے بدتر ہوتے رہے ،یہی وجہ تھی کہ ٹیم کی کامیابیوں پر سب واہ واہ کہتے، کرکٹرز کو کاندھوں پر اٹھایا جاتا، اور پر جوش شائقین بھنگڑے ڈالتے لیکن جب ٹیم ہارتی یعنی کھلاڑیوں کی خراب فارم اور مشکل دوروں میں شکست کے تسلسل پر یہی ٹیم اور اس کے کپتانوں کو چاروں طرف سے تنقید کا نشانہ بنایا جانے لگتا ہے
کپتان سمیت ہر سینیئر اور جونیئر کھلاڑی کے بارے میں منفی بیانات سامنے آنے شروع ہوئے، کسی نے کہا ٹیم میں یکجا ہونے کی صلاحیت نہیں رہی، کسی نے رائے دی کپتان بدل دو،کوئی بولاکچھ بھی کرلو یہ نہیں سدھریں گے، یہ باز نہیں آنے والے وغیرہ وغیرہ۔
ناقدین نے بھی اپنے ہیروز کو کھری کھری سنائیں، ان میں سے اکثریت کا یہی کہنا تھا ناقص کارکردگی پر ایک دو کھلاڑی نہیں پورا کرکٹ سسٹم کو بدلنا ہوگا، جب تک نظام کی اوورہالنگ نہیں ہوتی ہم تنزلی کی جانب ہی جائیں گے، اس لئے وقت آگیا ہے کہ ہم پاکستان کرکٹ کی مکمل بہتری کیلئے محض چند چہرے تبدیل نہ کریں بلکہ اس کے پورے سسٹم کو مربوط نظام کے تحت تغیر کے عمل سے گزاریں تب جا کر ہمیں ستر، اسی یا کسی حد تک نوے کی دہائی والی قومی ٹیم جیسی کارکردگی ملنا ممکن ہوسکے گی، بصورت دیگر ہم کارکردگی میں تسلسل پیدا کرسکیں گے نہ ہی اپنی رینکنگ بہتر کر سکیں گے۔اب سوال یہ ہے کہ یہ سب کئے جانے کے بعد کیا اس بات کی کوئی ضمانت دے سکتا ہے کہ ہم اپنی کارکردگی میں بہتری لے آئیں گے۔کپتان کی تبدیلی سے مثبت نتائج بھی آنا شروع ہوںگے،ایسی باتیں کرنے کے ہم عادی ہیں، اس لئے ان تمام امور کی انجام دہی کے بعد بھی یہ ضمانت نہیں دی جاسکتی ہے کہ سب ٹھیک ہوجائے گا۔
٭٭٭٭٭٭

شیئر: