Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

لاک ڈاؤن: ’مانا کہ اک بزرگ ہمیں ہمسفر ملے‘

ڈاکٹر صاحب کی عمر کے لحاظ سے ہی انھیں بزرگ کہا ہوگا
وزیرِ داخلہ شاہ صاحب کا اعجاز یہ ہے کہ مشکل بات بھی بڑی  آسانی سے کہہ دیتے ہیں اور وہ بھی لگی لپٹی کے بغیر، اپنے سادہ سے لہجے میں۔ کلام میں الجھاؤ بالکل نہیں۔ بس بات کی اور ختم۔
اب دیکھیے نا ڈاکٹر ظفر مرزا کو کیا سوجھی کہ ویڈیو بیان داغ دیا کہ اگر لوگوں نے ایس او پیز کی پرواہ نہ کی تو حکومت لاک ڈاؤن پھر سے کر دے گی۔
عید کے دوسرے روز ننکانہ صاحب میں منچلے صحافیوں سے رہا نہ گیا اور پہنچ گئے وزیرِ داخلہ کے پاس۔ وہاں شاہ صاحب نے واضح کر دیا کہ لاک ڈاؤن کا خاتمہ عمران خان کی خواہش کے اتباع میں ہے۔ صحافیوں سے فرمایا ’کسی بزرگ نے کہا ہے کہ عید کے بعد پھر لاک ڈاؤن شروع ہو جائے گا۔ نہیں ایسا نہیں ہوتا۔ اسے اینالائز (تجزیہ) کیا جائے گا۔ دیکھا جائے گا کہ کتنے بندے اس وجہ سے بیمار ہوئے ہیں۔ کیا لاک ڈاؤن کرنا چاہیے یا نہیں کرنا چاہیے۔

وزیرِ داخلہ شاہ صاحب کا اعجاز یہ ہے کہ مشکل بات بھی بڑی  آسانی سے کہہ دیتے ہیں

 آئیے ہم بھی اینلائز کرتے ہیں۔
قبلہ ظفر مرزا صاحب ڈاکٹر ہیں تو طبی اشاریے ذہن میں رکھ کر ہی پھر سے لاک ڈاؤن کی دھمکی دی ہوگی۔ ظفر مرزا صاحب ڈاکٹر ہونے کے ساتھ ساتھ مشیر بھی ہیں۔ اور یہ تو ہو نہیں سکتا کہ وزیرِ اعظم جو بات نہ چاہتے ہوں مشیر صاحب وہ کہہ دیں۔ اگر ایسا کیا تو استعفیٰ تو بنتا ہے اور اگر ایسا نہیں کیا تو وزیرِ اعظم کی خواہش اور سرکاری حکمتِ عملی ہی کے تحت کہا ہوگا کہ اگر ایس او پیز کی پرواہ نہ کی گئی تو لاک ڈاؤن پھر سے نافذ العمل ہو جائے گا۔

  یہ تو ہو نہیں سکتا کہ وزیرِ اعظم جو بات نہ چاہتے ہوں مشیر صاحب وہ کہہ دیں

لیکن مشکل یہ آن پڑے گی کہ وزیرِ داخلہ نے جو ارشاد فرمایا ہے کیا وہ وزیرِ اعظم کی پالیسی کے ماتحت ہے یا اس سے روگردانی ہے۔ ظاہر ہے اگر پالیسی سے ہٹ کے کہا ہے تو استعفٰی بنتا ہے۔ اور اگر پالیسی کے مطابق ہے تو پھر ڈاکٹر ظفر مرزا کی پوزیشن نازک ہو جاتی ہے۔
ایک صورت یوں بھی مرتب ہو سکتی ہے کہ ڈاکٹر ظفر مرزا کی بات حکومتی پالیسی ہو اور اعجاز شاہ کا فرمایا ہوا پالیسی نہ ہو۔
اس الجھن کا ازالہ وزارتِ داخلہ کی ترجمان لالہ رخ واحد چیمہ نے یہ کہہ کے کر دیا ہے کہ دونوں بڑوں کی باتوں میں کوئی تضاد نہیں۔ اللہ کرے ترجمان کے تبصرے کو قبولیتِ اور اختلاف ڈھونڈنے والوں کو ہدایت نصیب ہو۔
چلیں اگر اختلاف نہیں بھی ہے تو اس کا کیا کریں جو شاہ صاحب نے مرزا صاحب کو بزرگ کہہ کے بلایا ہے۔ شاہ صاحب طنز کیوں کرنے لگے۔ لہذا ڈاکٹر صاحب کی عمر کے لحاظ سے ہی انھیں بزرگ کہا ہوگا۔
جہاں تک سوال ان کی بات ماننے کا ہے تو شاہ صاحب قبلہ سے پہلے غالب جواب دے چکے ہیں۔
لازم نہیں کہ خضر کی ہم پیروی کریں
مانا کہ اک بزرگ ہمیں ہمسفر ملے

شیئر: