Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

نیٹ فرہاد کو شیریں سے ملا دیتا ہے

عشق گوگل پہ بٹھاتا تو نیٹ فرہاد و شیریں کو ملاتا ہے (فوٹو سوشل میڈیا)
مغربی تہذیب پر تنقید اکبرالٰہ آبادی کی شاعری کا جوہر ہے۔ اسے آپ درج ذیل مشہورشعر میں دیکھ سکتے ہیں:
سدھاریں شیخ کعبہ کو ہم انگلستان دیکھیں گے 
وہ دیکھیں گھر خدا کا ہم خدا کی شان دیکھیں گے
انگلستان میں خدا کی شان دیکھنے کے لیے ویزہ چاہیے ہے، جو ہمارے پاس نہیں ہے، سو ایسے میں لفظ ’انگلستان‘ کا ذکر کر لیتے ہیں کہ گڑ نہ سہی گڑ سی بات ہی سہی۔
’انگلستان‘ لفظ England کا خوبصورت لفظی و بامحاورہ ترجمہ ہے، جو فارسی کے علاوہ اردو اورہندی میں بھی رائج ہے۔ انگلینڈ کے باشندوں اورزبان دونوں کو ’انگلش‘ کہتے ہیں۔
یہاں ایک سوال کیا جاسکتا ہے کہ جب ’انگلینڈ‘ کا باشندہ ’انگلش‘ ہے تو یہ ’انگریز‘ کہاں سے آ گیا؟
عرض ہے کہ پرتگیزی زبان میں انگلینڈ کے باشندے کو Engles (انگلس) کہتے ہیں۔ برصغیر میں یہ لفظ پرتگیزیوں کے زیراثر متعارف ہوا اورحرف ’لام‘ و’سین‘ کے بالترتیب ’رے‘  و ’زے‘ سے بدلنے پر’انگلس‘ سے ’انگریز‘ ہوگیا۔ 
’انگلستان‘ کے ذکر سے ہمیں وہاں جا بسنے والے شاعر مظفر احمد مظفر یاد آ گئے ہیں جن کا ایک خوبصورت شعر ہے:
اس نے احباب سے پوچھا ہے مرے گھر کا پتہ
یاد آیا اسے پیمانِ وفا میرے بعد
شاعر کے گھرکا پتا کس نے پوچھا؟ ہمیں نہیں پتا، البتہ ہم سے ایک دوست نے پوچھا ہے کہ درست لفظ ’گھمبیر‘ ہے یا ’گمبھیر‘؟ 
سچی بات تو یہ ہے کہ سوال نے ہمیں بھی ’گمبھیرتا‘ میں مبتلا کر دیا ہے۔ وہ یوں کہ ایک لغت ایک لفظ بتا کر خاموش ہو گئی، تو دوسری لغت نے دونوں لفظ (گمبھیر اورگھمبیر) درج کر کے معاملے کو الجھا دیا۔ یعنی وضاحت نہیں کی کہ درست لفظ کون سا ہے۔
خیر تلاش بسیار کے بعد عقدہ کُھلا کہ درست لفظ ’گمبھیر‘ ہے۔ اردو کی ایک معتبر لغت نے ’گمبھیر‘ کے ایک سے زیادہ معنی لکھے ہیں،جس میں بھاری، بوجھل، عمیق، گہرا، باوقار، پُراثر، تشویش ناک، اُلجھا ہوا، نازک، بُردبار اور سنجیدہ وغیرہ شامل ہیں۔ اس ’گمبھیر‘کو ’تلہ گنگ‘ کے نوخیز شاعر ’ذیشان ساجد‘ نے خوبصورتی سے برتا ہے:
زندگی فلم نہیں جس کا ہو انجام حسیں
صورت حال یہ’گمبھیر‘ بھی ہو سکتی ہے
ویسے ’گَمبِھیر‘ پیٹھ یا گردن پرنکلنے والے پُھوڑے کو بھی کہتے ہیں۔ اس ’پھوڑے‘ سے ہمیں وہ ’پُھوَڑ‘ یاد آ گئے جو کسی ملامت کو خاطر میں لائے بغیر ’نیل ومرام اور ’قوس و قزح‘ جیسی ترکیبیں وضع کرتے ہیں۔
آپ پوچھ سکتے ہیں کہ ان الفاظ میں کیا مسئلہ ہے؟ عرض ہے کہ یہ اور ان جیسی کتنی ہی ترکیبیں ’واؤ‘ کے بغیر ہیں، یوں درست لفظ ’نَیلِ مَرام‘ اور’قَوسِ قُزَح‘ ہے۔ 
لفظ ’نَیل‘ اور’مَرام‘ عربی الفاظ ہیں۔ نَیل کے معنی میں’ مقصد پانا، دست رس اور رسائی جب کہ ’مَرام‘ کے معنی میں ’مراد، مطلب، مقصد اور خواہش شامل ہیں۔ یوں ’نَیلِ مَرام‘ کا مطلب ہوا ’کامیابی یا حصول مقصد‘۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ اردو میں ’نَیل مرام‘ کی بہ نسبت اس کی ضد ’بے نَیلِ مَرام‘ زیادہ مستعمل ہے۔ فیض احمد فیض کہہ گئے ہیں:
یوں بہار آئی ہے اس بار کہ جیسے قاصد
کوچۂ یار سے ’بے نیلِ مرام‘ آتا ہے
اب کچھ ذکر ’قَوسِ قُزَح‘ کا ہو جائے۔ درست لفظ ’قَوسِ قُزَح‘ ہے نہ کہ ’قوس و قزاح‘۔
’قَوسِ قُزَح‘ کمان جیسی ست رنگی پٹّی ہوتی ہے جو آسمان پر عموماً بارش کے بعد نظر آتی ہے۔ ’قَوسِ قُزَح‘ کی رعایت سے’اقبال کیفی‘ کا ایک اچھا شعر ملاحظہ کریں کہ اس کے بعد بات آگے بڑھاتے ہیں: 
جسے نسبت رہی ’قوسِ قزح‘ سے
ہواؤں کی طرح بے رنگ نکلا

’قوس قزح‘ ان ترکیبوں میں سے ہے جن کے دو لفظ ملانے کے لیے ’واؤ‘ استعمال نہیں ہوتا (فوٹو سوشل میڈیا)

یہ عربی ترکیب ’قَوسُ قُزَح‘ ہے جو فارسی کے زیر اثراضافت (زیر) کے ساتھ ’قوسِ قُزح‘ ہو گئی ہے۔ عام طور پر یہ برسات کے بعد دکھائی دیتی ہے،اس لیے عربی میں اسے قوس المطر (بارش کی کمان) اور’قوس سحاب‘ (بادلوں کی کمان) بھی کہتے ہیں۔ چونکہ یہ رنگ برنگ ہوتی ہے اس لیے فارسی میں اسے’رنگین کمان‘ بھی کہا جاتا ہے۔ جب کہ قدیم فارسی روایت کے زیر اثر اسے ’کمانِ رستم‘ بھی کہتے ہیں۔
ہندوعلمِ اصنام میں برسات کے دیوتا کا نام ’اندرا‘ ہے، اس نسبت سے سنسکرت میں ’قوسِ قزح‘ کو ’اندرادھنو‘ یعنی ’اندر کی کمان‘ کہتے ہیں۔ یہ لفظ ہندی میں’اندرا دھنش‘ہوا پھر’دھنش‘ سمٹ کر’دھنک‘ بنا اور اردو میں رائج ہوگیا۔ بقول جوش: ’کل کی برسی ہوئی بدلی کی دھنک آج بھی ہے‘۔
اب انگریزی لفظ  Rainbow پرغور کریں، یہ rain (بارش) اورbow (کمان) سے مل کر بنا ہے، یوں یہ لفظ عربی کے ’قوس المطر‘ کا ہم معنی ہو گیا ہے۔
اب کچھ بات ’قُزَح‘ پر ہوجائے۔ ’فرہنگ فارسی معین‘ کے مطابق ’قُزح‘ کا مطلب ’رنگا رنگ‘ ہے۔ لہٰذا اس نسبت سے اسے’رنگین کمان‘ کہتے ہیں۔ 

انٹرنیٹ دنیائے معلومات کی وہ چابی ہے جہاں صحیح ڈھونڈنا نہیں بلکہ غلط سے بچنا اصل مسئلہ ہے (فوٹو سوشل میڈیا)

بعض اہل لغت کے مطابق ’قُزح‘ ابر کے موکل کا نام ہے۔ فارسی کی اہم لغت ’برہان قاطع‘ کے مطابق ’قُزح‘ شیطان کا نام ہے۔ یوں ’قوسِ قزح‘ کو ’قوسِ شیطان‘ یعنی ’شیطان کی کمان‘ بھی کہتے ہیں۔ چونکہ ’قُزح‘ شیطان کا نام ہے اس لیے کہا جاتا ہے کہ اسے ’قوسِ قزح‘ کے بجائے ’قوس اللہ‘ یعنی ’اللہ کی کمان‘ کہنا چاہیے۔
اب ایک دلچسپ بات ملاحظہ کریں اوروہ یہ کہ عیسائی ملک مالٹا (Malta) کی مالٹیز (maltese) زبان میں ’قوسِ قُزح‘ کو Qawsalla (قوس اللہ) کہتے ہیں۔ اگرکسی کو یقین نہ آئے تو ابھی’Qawsalla‘ لکھ کر گوگل پر سرچ کر لے کہ بقول خالد عرفان:
نیٹ فرہاد کو شیریں سے ملا دیتا ہے
عشق انسان کو’گوگل‘ پہ بٹھا دیتا ہے
  • اردو نیوز میں شائع ہونے والے کالم اور بلاگز واٹس ایپ پر حاصل کرنے کے لیے ’’اردو نیوز بلاگز‘‘ گروپ جوائن کریں

شیئر: