Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

ذکر کچھ ’جُگ جُگ جیو‘ اور ’ہرفن مولا‘ کا

 آج پہلی بار اس شعر کا مطلب سمجھ آیا تو جی خوش ہو گیا (فوٹو سوشل میڈیا)
محقق، مؤرخ، مترجم، سائنسدان، شاعرِ کثیراللسان، مقررِشعلہ بیان، بے رحم نقاد اور رحم دل انسان، یہ گُن ہیں ہمارے ’گُرو‘ کے۔ چونکہ یہ تمام مشاغل ’جُزوقتی‘ ہیں، نتیجتاً ’کُل وقت‘ کے لیے کوئی مشغلہ نہیں بچتا۔ ’jack of all trades, master of none‘ اس انگریزی محاورے کا شانِ نزول آپ ہی کی ذاتِ والا صفات ہے۔ حاسدین محاورے کا ترجمہ ’ہرفن مولا، ہرگُن ادھورا‘ کرتے ہیں، تاہم وہ اسے خاطر میں نہیں لاتے کہ:
کرو تم نہ حاسد کی باتوں پہ غور
جلے جو کوئی اس کو جلنے دو اور
 
حق تو یہ ہے کہ گُرو کا ہر گُن ایک کتاب کا موضوع ہے، مگرہماری کم علمی سدِ راہ ہے اس لیے ہم ان کے چند اوصاف ہی کی نشاندہی کر سکیں گے۔
موصوف محقق اس رعایت سے ہیں کہ تحقیق کے وقت کم سے کم دو کتابیں پیشِ نظر رکھتے ہیں۔ دو کتابیں اس لیے کہ محض ایک کتاب سے نقل کی گئی تحریر’چوری‘ کے زمرے میں آتی ہے۔ 
 
مترجم اس پائے کے ہیں کہ ’five year old boy‘ کا ترجمہ ’پانچ سالہ بوڑھا لڑکا‘ کر چکے ہیں۔ کسی نے ’بوڑھا لڑکا‘ پر توجہ دلائی تو’انگلش ٹو اردو ڈکشنری‘ سے ’old‘ کے معنی ’قدیم، پرانا اوربوڑھا‘ دکھا کر معترض کا حیرت سے کُھلا منہ بند کر دیا۔
آپ کی دلچسپیوں کے دائرے میں سائنس و فلسفہ بھی داخل ہیں۔ کہتے ہیں اگر افلاطون سائنس پر توجہ دیتا تواس کے فلسفے میں تجربیت پیدا ہو جاتی۔ آئن اسٹائن کے نظریۂ اضافت (theory of relativity) کو بھی چیلنج کرچکے ہیں۔ کہتے ہیں ’آئن سٹائن کا ’میتھ‘ اچھا تھا مگراس نے نظریۂ اضافت کو سمجھنے میں ٹھوکر کھائی ہے‘۔
شاعری کا چسکا گُھٹی میں پڑا ہے کہ آبائی مسکن دلی کے مضافات ہیں۔ اس نسبت سے ’مضافاتی‘ تخلص فرماتے ہیں۔ دبستان لکھنؤ کے حریف ہیں، مگر بخشتے دلی والوں کو بھی نہیں۔ کئی اساتذہ کے کلام میں اصلاح تجویز کر چکے ہیں۔ کہتے ہیں میرؔ و غالبؔ کا زمانہ اردو زبان و بیان کے ارتقا کا دور تھا، اس لیے ان کے ہاں تذکیر و تانیث میں ابہام پایا جاتا ہے۔
ہم نے ’تذکیر و تانیث‘ میں ’ابہام‘ کا ثبوت طلب کیا تو جھٹ بولے ’دلی والوں کے نزدیک ’دھی‘ ہوتا ہے اور اہل لکھنؤ کے درمیان ہوتی ہے‘۔
پر ’دھی‘ کو شاعری میں کس نے استعمال کیا ہے؟ ۔۔۔ ہم نے حیرت سے پوچھا۔
بولے: ’شاعری میں نہ سہی کھانے میں تو کیا ہو گا‘۔
نتیجتاً ہم اپنا سا منہ لے کر رہ گئے۔

دبستان لکھنؤ کے حریف ہیں، مگر بخشتے دلی والوں کو بھی نہیں (فوٹو سوشل میڈیا)

خیر ذکرتھا اُن کے اوصاف حمیدہ کا، موصوف بحر، ردیف اور قافیے کی پابندیوں کو خاطر میں نہیں لاتے، نتیجتاً کلام بے وزن ہی نہیں بے ربط بھی ہوتا ہے۔ گاہے مصرعوں کا توازن فونٹ سائز چھوٹا بڑا کرکے درست کر لیتے ہیں۔ ایک روز ہم نے ان کی بندشوں سے آزاد شاعری کو خلافِ اصول بتایا تو چمک اٹھے، اور جواباً استاد امام دین گجراتی کا درج ذیل شعر سنا دیا:  
لِللّٰہ خدا کے واسطے میرے لیے ان کو
شاعری کے علم و فن سے آشنا کرے کوئی
شعر سن کر ہمیں مرحوم ’عبدالرحمٰن خادؔم‘ یاد آگئے جنہوں نے استاد امام دین کے شعری مجموعے ’بانگِ دُہُل‘ کی تقریظ لکھی تو شعر مذکور کی داد ان الفاظ میں دی:
’پہلا مصرع فصاحت کا مرقع ہے۔ ’لِللّٰہ‘بھی،’خدا کے واسطے‘ بھی پھر’میرے لیے‘ بھی۔ ملاحظہ فرمائیں کہ کس قدر لجاجت ہے‘۔

جس کلام میں اعراب کی بھرمار ہو اسے عربی زبان سے متعلق قرار دیتے ہیں (فوٹو سوشل میڈیا)

’استاد امام دین گجراتی‘ کے حوالے کے بعد یہ سمجھنے میں دیر نہیں لگی کہ ان کی شاعری پر کس کا رنگ چڑھا ہے اوروہ خود شاعری پر کیوں چڑھ دوڑے ہیں۔ یوں تو وہ امام دین کو اپنا روحانی استاد بتاتے ہیں مگر استاد کا قدم پنجابی اور اردو سے آگے نہیں پڑا۔ جب کہ ہمارے ممدوح عربی و فارسی پر بھی یکساں ’عبور‘ رکھتے ہیں۔ ’عبور‘ یوں کہ شاعری کے بنیادی اصول ایک ہی جست میں ’عبور‘ کرجاتے ہیں کہ ’مرے سامنے آسماں اور بھی ہیں‘۔ 
ان کے جس کلام میں اعراب (زیر، زبر،پیش) کی بھرمار ہو اسے عربی زبان سے متعلق قرار دیتے ہیں اورجن اشعارکی ردیف ’است‘ ہے اُس کلام کو زبانِ فارسی کا ترجمان بتاتے ہیں۔
ایک روز ہم ان کے آشیانے پر حاضر ہوئے تواحباب میں گِھرے بیٹھے تھے۔ بات بے بات چہک رہے تھے۔ صاف معلوم ہورہا تھا کہ آج مزاج میں طراوت ہے۔ ہم نے سلام عرض کیا تو مسکرا کر بولے ’جُگ جُگ جیو‘۔

ہندومت کے مطابق دنیا کو آغاز سے انجام تک چار جُگوں یا زمانوں میں تقسیم کیا گیا ہے (فوٹو سوشل میڈیا)

یہ سنتے ہی احباب میں سے ایک صاحب بولے ’حضرت یہ ’جُگ جُگ‘ کیا ؟
خندہ پیشانی سے بولے: ’جہاں تک ’جُگ جُگ جیو‘ کی بات ہے تو یہ ایک دعائیہ جملہ ہے، جو درازیِ عمر کے لیے بولا جاتا ہے۔ رہی بات ’جُگ‘ کی تو اس کا تعلق ہندومت سے ہے۔
’جُگ‘ سنسکرت میں ’یُگ‘ ہے، جوحرف ’ی‘ کے ’ج‘ سے بدلنے پر ہندی میں ’جُگ‘ ہو گیا ہے۔ یہ تبدیلی ایسے  ہے جیسے ’جوگی‘ کو ’یوگی‘ اور دریائے ’جمنا‘ کو ’یمنا‘ کہتے ہیں۔ اس کے علاوہ ’ یاسمین‘ بھی ہے جو انگریزی میں ’جاسمین/jasmine‘ ہے۔’ جُگ‘ کو اردو میں ’زمانہ، دور، عہد اور قرن‘ کہہ سکتے ہیں۔   
ہندومت کے مطابق دنیا کو آغاز سے انجام تک چار جُگوں یا زمانوں میں تقسیم کیا گیا ہے۔ ان میں پہلا ’سَت جُگ‘ ہے۔ اس جُگ کی مدت سترہ لاکھ اٹھائیس ہزار(1,728,000) برس تھی۔ ہندوؤں کے مطابق یہ وہ جُگ تھا جس میں نیکی وسچائی کے سوا دوسری کوئی بات نہ تھی۔ اس لیے وہ اسے ’سنہرا دور‘ بھی کہتے ہیں۔
 
دوسرے نمبر پر’تِریتاجُگ‘ ہے اس کی کل مدت بارہ لاکھ چھیانوے ہزار(1,296,000) برس تھی۔ اس جُگ میں برائیوں کے مقابلے میں نیکیاں زیادہ تھیں اس لیے اسے ’نقرئی دور‘ کہا جاتا ہے۔
تیسرے نمبرپر’دُواپَرجُگ‘ ہے۔ جو آٹھ لاکھ چونسٹھ  ہزارچار(864,000) برس پر مشتمل بتایا جاتا ہے۔ چوتھا اورآخری ’کَلْجُگ‘ ہے۔ یہ موجودہ زمانہ ہے۔ اس کی مدت چار لاکھ بتیس ہزار(432,000)برس بتائی جاتی ہے۔ اسے پاپ (گناہوں) کا زمانہ مانا گیا ہے۔

کیا خوب سودا نقد ہے، اِس ہات دے اُس ہات لے (فوٹو سوشل میڈیا)

نظیر اکبرآبادی کی ایک مشہور نظم کا عنوان ہی ’کلجگ‘ ہے۔ جس میں ٹِیپ کا بند ہے:
کلجُگ نہیں کرجگ ہے یہ، یاں دن کو دے اور رات لے
کیا خوب سودا نقد ہے، اِس ہات دے اُس ہات لے
اب سارے جُگوں کے لاکھوں سال شمار کرو اور ’جُگ جُگ جیو‘ کے الفاظ پر غور کرو بات آسانی سے سمجھ آ جائے گی۔
موصوف کی گفتگو سُن کر کانوں میں مشہور ملی نغمہ گونجنے لگا۔
 ’جُگ جُگ جیوے میرا پیاراوطن
 لب پہ دعا ہے دل میں لگن‘
 آج پہلی بار اس شعر کا مطلب سمجھ آیا تو جی خوش ہو گیا۔  
نظیر اکبر آبادی کے شعر میں’کرجگ‘ کیا ہے؟ ۔۔۔ ایک صاحب نے پوچھا۔
بولے: ’کرجُگ‘ کا مطلب ہے ’کام کرنے کا زمانہ‘ یا ’عمل کا وقت‘۔ اس کا تعلق بیان کردہ چارجُگوں سے نہیں ہے۔

جُگ جُگ جینے یا ہزار برس جینے کا تعلق حقیقت سے نہیں محاورے سے ہے (فوٹو سوشل میڈیا)

مصاحبین میں سے ایک جو پیچھے بیٹھے انگلیوں پر کچھ شمار کر رہے تھے یک دم بولے ’جُگ جُگ جیو‘ کے مطابق چاروں جُگوں کی کل مدت تینتالیس لاکھ بیس ہزار(4320000)بنتی ہے۔ جب کہ میرزا غالب نے مغل بادشاہ کو درازیٔ عمر کی جو دعا تھی اُس کی کُل مدت پچاس کروڑ(500000000) برس بنتی ہے۔ اس حساب سے تو غالب محاورے سے بھی آگے نکل گئے ہیں۔ یقین نہ آئے تو خود دیکھ لیں کہ غالب کیا کہہ گئے ہیں:
تم سلامت رہو ہزار برس 
ہر برس کے ہوں دن پچاس ہزار 
ہمارے ممدوح مسکرا کر بولے میاں جُگ جُگ جینے یا ہزار برس جینے کا تعلق حقیقت سے نہیں محاورے سے ہے۔ مقصود صرف لمبی زندگی کی دعا ہے۔ اتنا کہہ کر انہوں نے ایک زوردار جماہی لی، پھر شاہانہ انداز میں تالی بجا کر بولے ’تخلیہ‘ ہمارے آرام کا وقت ہوا چاہتا ہے۔ یہ سننا تھا کہ احباب کے ساتھ ہم بھی اُٹھ کھڑے ہوئے۔
  • اردو نیوز میں شائع ہونے والے کالم اور بلاگز واٹس ایپ پر حاصل کرنے کے لیے ’’اردو نیوز بلاگز‘‘ گروپ جوائن کریں

شیئر: