Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

’خدارا یہ بتا دیں بیٹا کہاں دفن ہے‘

پی آئی اے طیارہ حادثے کو 16 دن گزرنے کے باوجود کراچی کے رہائشی مجتبیٰ خان کی نعش کی شناخت نہیں ہوسکی۔ ڈی این اے ٹیسٹنگ کے ذریعے ان کے لواحقین کو جس میت کا نمبر دیا گیا وہ پہلے ہی کسی اور کے حوالے کی جا چکی تھی جس کی تدفین لاہور میں ہو چکی تھی۔
مجتبیٰ کے لواحقین کا کہنا ہے کہ وہ قبر کشائی نہیں چاہتے بس انہیں بتا دیا جائے نعش کو کہاں دفن کیا گیا ہے۔
کراچی کے علاقے گلشنِ اقبال کے رہائشی مجتبیٰ خان پیشے کے اعتبار سے مکینکل انجینئیر تھے، ساتھ ہی وہ اداکاری کا شوق بھی رکھتے تھے۔
وہ لاہور کی ایک نجی فرم کے لیے کام کرتے تھے جس نے لاک ڈاؤن میں پروازیں کھلتے ہی ان کو رٹرن ٹکٹ دیا تھا۔ وہ عید منانے واپس کراچی آ رہے تھے جب طیارے کو یہ حادثہ پیش آیا۔ مجتبیٰ کے پسماندگان میں بیوہ، آٹھ اور دس سالہ بیٹے، تین سالہ بیٹی، اور 80 سالہ والد شامل ہیں جو دل کے عارضے میں مبتلا ہیں۔
مجتبیٰ کے والد عبدالموسط خان کا حکومت اور اربابِ اختیار سے ایک مطالبہ ہے کہ انہیں ان کے بیٹے کی میت دی جائے تاکہ وہ اس کی نمازِ جنازہ پڑھ سکیں، اس کی آخری رسومات ادا کر سکیں، اسے دفنا سکیں، گھر والوں کے ساتھ بیٹھ کر اس کا سوئم اور چالیسواں کر سکیں۔
 گھر والوں کا کہنا ہے کہ ’جس دن حادثہ ہوا اسی دن بہت سے لواحقین میتیں لے گئے تھے اور اس سلسلے میں کسی قسم کی باضابطہ شناخت کا عمل نہیں کیا گیا، جن کو لگا کہ یہ میت ان کی ہی ہے، وہ زور زبردستی کر کے لے گئے۔‘
عبدالموسط نے حادثے کے اگلے دن ہی اپنا ڈی این اے سیمپل جمع کروا دیا تھا اور نہ صرف جامعہ کراچی بلکہ اپنی مدد آپ کے تحت پنجاب فرانزک لیبارٹری میں بھی سیمپل بھجوایا تھا۔
 جامعہ کراچی کی لیبارٹری سے تو رپورٹ موصول نہ ہوئی، تاہم لاہور کی لیبارٹری کے مطابق مجتبیٰ کی میت چھیپا سرد خانے کے 121 نمبر بیگ میں ہے۔ یہ رپورٹ لے کر جب عبدالموسط چھیپا سرد خانے گئے تو معلوم ہوا کہ اس نمبر کی میت تو مبینہ طور پر لاہور کے رہائشی پی آئی اے سٹیورڈ عبدالقیوم کے اہلِ خانہ لے جا چکے ہیں جس کی لاہور میں تدفین بھی ہو چکی۔

فیصل ایدھی نے پہلے ہی اس بات کی پیش گوئی کردی تھی کہ نعشوں کی شناخت میں کوتاہی ہو سکتی ہے (فوٹو: اے ایف پی)

عبدالقیوم کی بیوہ فرحانہ سے اس حوالے سے رابطہ کرنے کی کوشش بھی کی گئی مگر وہ بات کرنے کی حالت میں نہیں تھیں۔ مجتبیٰ کے والد کا کہنا ہے کہ ’مجھے قبر کشائی نہیں کروانی نہ ہی کوئی اور شکوہ ہے، بس مجھے یہ بتا دیں کہ میرا بیٹا کہاں دفن ہے تا کہ میں فاتحہ پڑھ آؤں اور پوتے پوتی کو بتا سکوں کہ ان کے باپ کی قبر کہاں ہے۔‘
اردو نیوز کو حاصل اطلاعات کے مطابق حادثے کے 24 گھنٹوں کے اندر ہی 47 میتیں ان کے لواحقین لے جا چکے تھے، اور شروع میں میتوں کی حوالگی کے لیے کوئی تکنیکی ضابطہ کار نہیں اپنایا گیا۔
یہی وجہ ہے کہ ایدھی فاؤنڈیشن کے سربراہ فیصل ایدھی نے پہلے ہی اس بات کی پیش گوئی کردی تھی کہ نعشوں کی شناخت میں کوتاہی ہو سکتی ہے کیوں کہ شروع میں بیشتر میتیں بنا پوچھے دے دی گئیں۔
میتوں کی حوالگی کے حوالے سے بے ضابطگی کی ایک بڑی وجہ سول انتظامیہ کی جانب سے اقدامات کا فقدان تھا۔ کمشنر کراچی افتخار شلوانی نے حادثے کے 6 دن بعد میتوں کی حوالگی کے لیے ضابطہ کار تشکیل دیا تھا، تب تک دو تہائی میتیں ورثاء کے حوالے کی جا چکی تھی اور جو مسئلہ بننا تھا وہ بن چکا تھا۔
مجتبیٰ کی میت وہ واحد نہیں جس کی شناخت اور حوالگی کا مسئلہ ہوا ہے۔ اس سے پہلے کراچی کے رہائشی نبیل کی زوجہ اور شہروز کی بہن کی میتیوں کی شناخت کا مسئلہ پیدا ہوا تھا، کیوں کہ پنجاب فرانزک لیبارٹری اور جامعہ کراچی کی لیبارٹری کی رپورٹس میں تضاد تھا۔
وہ تو شکر ہے کہ دونوں میتوں کے لواحقین ایک ہی وقت میں سردخانے میں موجود تھے، لہٰذا دونوں نے ہی معاملے کی پیچیدگی کو تسلیم کرتے ہوئے اپنی مدد آپ کے تحت لاہور کی لیبارٹریسے دوبارہ ڈی این اے ٹیسٹنگ کروائی، جس کی رپورٹ 24 گھنٹے کے اندر آ گئی جس کی وجہ سے 88 نمبر اور 87 نمبر میتیوں کی شناخت ہو سکی۔

ہر گزرتے دن کے ساتھ عبدالموسط اپنے جوان بیٹے کی میت کے حصول کی امید بھی کھو رہے ہیں (فوٹو: اے ایف پی)

اس کے علاوہ جہاز میں سوار پولانی خاندان، جس میں زین پولانی، ان کی اہلیہ اور تین بچے ہلاک ہوئے، ان کے بیٹے ابراہیم کی نعش کی شناخت ابھی تک معمہ بنی ہوئی ہے۔ زین پولانی کے بھائی فیضان پولانی کے مطابق انہیں ابراہیم کی میت کے لیے جو نمبر ملا تھا وہ میت ایدھی سردخانے نے کسی اور کو محض اس شناختی علامت پر حوالے کر دی تھی کہ اس میت کے دانتوں میں بریسز لگے ہوئے تھے۔
ہر گزرتے دن کے ساتھ عبدالموسط اپنے جوان بیٹے کی میت کے حصول کی امید بھی کھو رہے ہیں، ان کی صحت پہلے ہی خراب رہتی تھی، اب وہ کہتے ہیں کہ اس حادثے نے انہیں تھکا دیا ہے۔ حکومتی نمائندے ان کی آخری امید تھے لیکن اب یہ امید بھی دم توڑ رہی۔
 ان کا شکوہ ہے کہ حکومت ان کے دکھ کا مداوا کرنے میں سنجیدہ نہیں۔ وہ اور کچھ نہیں بس اپنے بیٹے کی آخری رسومات اور اس کی قبر پر فاتحہ پڑھنا چاہتے ہیں۔
دوسری جانب مجتبیٰ کی بیوہ فضا کسی طرح اس کوشش میں ہیں کہ وہ پی آئی اے سٹیورڈ عبدالقیوم کی بیوہ کو اپنا دکھ سمجھا سکیں اور ان کے خاندان کا اس بات پر آمادہ کر لیں کہ وہ اپنا ڈی این اے دوبارہ کروا لے، تاکہ یہ واضح ہو جائے کہ لاہور میں جس قبر پر عبدالقیوم کے نام کا کتبہ لگا ہے وہ ان کی ہے بھی کہ نہیں۔ فضا کا کہنا ہے کہ وہ قبر کشائی نہیں چاہتیں، لیکن جب بچے بڑے ہوں تو کم از کم انہیں یہ تو بتا سکیں کہ ان کے باپ کی قبر کہاں ہے۔
یہاں یہ بات بھی قابلِ ذکر ہے کہ صوبائی حکومت نے مجتبیٰ کی میت کی شناخت میں کوتاہی کو جانچنے اور معاملے کی تحقیقات کے لیے دو رکنی تحقیقاتی کیمٹی قائم کر کے لیب انچارج ڈاکٹر قرار عباسی اور سی پی ایل سی پولیس چیف سرجن عامر حسن کو انکوائری افسر مقرر کر دیا ہے تا کہ یہ پتہ لگایا جائے کہ ڈی این اے رپورٹس اور میت تبدیل کس طرح ہوئی۔

 حادثے میں جہاز میں سوار عملے سمیت 97 افراد ہلاک ہوگئے تھے (فوٹو: اے ایف پی)

واضح رہے کہ 22 مئی کو لاہور سے کراچی آنے والی قومی ائیرلائن کی پرواز پی کے 8303 کو حادثہ پیش آیا اور وہ لینڈنگ سے کچھ لمحے قبل رن وے سے 4 کلومیٹر دور ماڈل کالونی کے گنجان آباد علاقے میں گر کر تباہ ہوگئی۔
 حادثے میں جہاز میں سوار عملے سمیت 97 افراد ہلاک ہوگئے تھے جبکہ دو مسافر معجزانہ طور پر بچ گئے۔ جن گھروں پر جہاز گرا ان میں سے ایک میں کام کرنے والی بچی نائیدہ بھی بری طرح جھلس گئی اور حادثے کے دس دن بعد ہسپتال میں انتقال کر گئی۔
محکمہ صحت سندھ کی ترجمان میران یوسف کے مطابق جمعے تک حادثے کے 97 میں سے 94 ہلاک ہونے والوں کی شناخت کر کے ان کی میتیں ورثاء کے حوالے بھی کر دی گئی تھیں۔
ایدھی فاؤنڈیشن کے مطابق ہفتہ کو ایک اور مسافر شبیر کی شناخت بھی ہوگئی جس کے بعد اس کی میت ورثاء کے حوالے کردی گئی جس کے بعد صرف دو میتیں رہ گئی ہیں جن کی شناخت ابھی تک نہیں ہوئی، جن میں سے ایک ایدھی سردخانہ میں ہے جبکہ دوسری چھیپا سرد خانہ میں ہے۔

شیئر: