Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

بس اتنا ہی کافی ہے

انڈیا میں شہریت قانون کے خلاف مظاہروں کے دوران فرقہ وارانہ فسادات شروع ہو گئے تھے۔ (فوٹو: اے ایف پی)
دو مہینے کے لاک ڈاؤن کے بعد دفاتر کھلے تو صبح تیار ہوتے وقت شوہر نے بیوی سے پوچھا: بہت دنوں بعد دفتر جا رہا ہوں، تمہارے لیے کیا لاؤں؟
بیوی: کچھ نہیں، تم جا رہے ہو بس اتنا ہی کافی ہے۔ 
تو جناب لاک ڈاؤن پرسپیکٹو کی بات ہے۔ 
ہم جیسوں کے لیے لاک ڈاؤن زیادہ بری خبر نہیں تھی، ہم تو دو مہینے مسلسل پکنک پر رہے۔ سکون سے اپنی بالکونی میں بیٹھ کر اخبار پڑھے اور وہ چرند و پرند دیکھے جو ایک عرصے سے شہروں میں نظر آنا بند ہو گئے تھے.
 زوم پر پرانے رشتے تازہ کیے، کبھی آفس کی کالز میں شریک ہوئے اور کبھی ماسک لگا کر خاموشی سے ٹہلنے نکل گئے۔ جو باقی وقت بچا اس میں نیٹ فلکس کے ساتھ انصاف کیا لیکن جہاں تک ممکن ہوا نیوز چینلز سے بچتے رہے۔
لیکن ہم جیسوں کی تعداد کتنی ہے۔
بہت سے لوگوں نے یہ وقت اس فکر میں گزارا کہ نوکری بچے گی یا نہیں اور باقی نےاس الجھن میں کہ کام دھندا کبھی دوبارہ شروع ہوگا بھی کہ نہیں۔
بس ایک دلی پولیس تھی کہ مکمل یکسوئی کے ساتھ اپنے کام پر لگی رہی۔ آپ سوچیں گے کہ لاک ڈاؤن کے دوران جرائم کی تعداد تو کافی کم ہوگئی ہوگی، مجرم بھی تو کورونا وائرس کے خوف سے گھر ہی بیٹھے ہوں گے، تو کیا یہ اچھا موقع نہیں تھا کہ پولیس بھی تھوڑا ریلیکس کر لیتی، لیکن جنہیں کام کرنے کی عادت ہو وہ کہاں ہاتھ پر ہاتھ دھر کر بیٹھ پاتے ہیں؟ 
اس لیے پولیس دلی کے فسادات سے متعلق کیسز کو ان کے انجام تک پہنچانے میں لگی رہی۔

کون سے فسادات؟

آپ بھول رہے ہیں لیکن کورونا سے پہلے زندگی معمول کے مطابق چل رہی تھی۔ فروری میں دلی کے کچھ اضلاع کئی روز تک مذہبی فسادات کی آگ میں جلتے رہے، ان میں 50 سے زیادہ لوگ ہلاک ہوئے اور ہزاروں کے گھر اور کاروبار تباہ۔

 فرقہ واریت پھیلانے پر وفاقی وزیر امت شاہ کے خلاف مظاہرے ہوئے۔ (فوٹو: اے ایف پی)

لیکن پھر کوروناوائرس کا ذکر شروع ہوگیا اور ہم سمجھے کہ جیسے ہم زندگی بچانے میں لگ گئے ویسے ہی پولیس بھی دوسرے کاموں میں مصروف ہوگئی ہوگی۔ 
لیکن حالات کتنے بھی مشکل ہوں، پولیس کبھی کچھ نہیں بھولتی اور ایسا کون ہے جو پولیس کی نگاہ سے بچ جائے۔ قانون کے ہاتھ بہت لمبے ہوتے ہیں یہ بات پولیس ہر روز ثابت کرتی ہے۔ کبھی کبھی تو ہاتھوں کی ضرورت بھی نہیں پڑتی، گھٹنوں سے ہی کام چل جاتا ہے۔
اگر آپ ان لوگوں میں سے نہیں ہیں جو نیوز چینلز سے بچتے ہیں تو آپنے جارج فلوئیڈ کا نام ضرور سنا ہوگا، وہی جن کی ہلاکت کی وجہ سے امریکہ میں آج کل ہنگامہ چل رہا ہے۔
جارج فلوئیڈ کی موت کیسے ہوئی؟ ایک پولیس والے نے ان کی گردن پر اپنا گھٹنا رکھا، اتنی دیر تک کہ ان کا دم گھٹ گیا۔ اس کے بعد سے امریکہ میں سیاہ فام لوگوں کے ساتھ برتے جانے والے امتیاز کے خلاف کچھ اس پیمانے پر مظاہرے ہو رہے ہیں کہ ان کا موازنہ مارٹن لوتھر کنگ کے سول رائٹس موومنٹ سے کیا جارہا ہے۔
انڈیا میں بھی دسمبر سے مساوی حقوق کے لیے مظاہرے چل رہے تھے۔ کچھ پرتشدد لیکن زیادہ تر پر امن جن میں عورتیں بڑھ چڑھ کر حصہ لے رہی تھیں۔
تنازع شہریت کے ایک قانون پر ہے جس کے تحت مسلمانوں کو لگتا ہے کہ انہیں انڈین شہریت سے محروم کرنے کی سازش رچی جارہی ہے۔

امریکہ میں جارج فلائیڈ کی ہلاکت پر ملک بھر میں مظاہرے ہوئے۔ فوٹو اے ایف پی

حکومت چاہتی ہے کہ انڈیا میں رہنے والا ہر شخص اپنی شہریت ثابت کرے، مسلمان اور ان کے مؤقف سے ہمدردی رکھنے والے کہتے ہیں کہ جو غیر مسلم اپنی شہریت ثابت نہیں کر پائیں گے انہیں نئے قانون کے تحت شہریت دیدی جائے گی، لیکن جن مسلمانوں کے پاس پورے کاغذات نہیں ہوں گے وہ کہیں کے نہیں رہیں گے۔
بس اتنی سی بات پر ہنگامہ چل رہا تھا۔ حکمراں بی جے پی مظاہرین کو غدار بتا رہی تھی اور اس کے ایک سینئر وزیر ’دیش کے غداروں کو، گولی مارو۔۔۔‘ کے نعرے لگا رہے تھے۔
اب دیش کے غداروں کو گولی مارنے (یا گولی مارنے کا آئیڈیا اگر انسانی حقوق کے تقاضوں پر پورا نہ اترتا ہو تو کچھ اور سزا دینے) پر کسے اعتراض ہو سکتا ہے؟ لیکن یہ فیصلہ تو ہو جانے دیجیے کہ غدار کون ہے؟ اور گولی کون مارے گا۔ 
لوگ ملک بھر میں چھوٹے بڑے مظاہرے کرکےدستور ہند کی دہائی دے رہے تھے۔ اس دوران انڈیا میں جتنا آئین کا ذکر ہوا لوگ مذاق میں کہتے تھے کہ اتنا تو مسلمان قرآن کا بھی نہیں کرتے۔
بہرحال، فروری میں جب امریکہ کے صدر ڈونلڈ ٹرمپ دلی آئے ہوئے تھے تو دلی میں خونریزی جاری تھی۔ ان کیسز میں پولیس گرفتاریاں کرکے لوگوں کو جیل بھیج رہی ہے۔ کسی پر تشدد میں ملوث ہونے کا الزام ہےاور کسی پر مظاہروں کے لیے لوگوں کو اکسانے کا۔
جیسا اکثر ہوتا ہے لوگ پولیس کی نیک نیتی پر شک کر رہے ہیں۔ ان کا الزام ہے کہ یک طرفہ گرفتاریاں کی جا رہی ہیں اور آئین ہاتھ میں لیکر مظاہرے کرنے والوں کو انسداد دہشتگردی کے قوانین کے تحت جیل بھیجا جا رہا ہے۔ ظاہر ہے کہ ان میں عورتیں بھی شامل ہیں اور ان میں سے ایک حاملہ ہے۔

دہلی فصادات میں کئی لوگ ہلاک اور املاک کو شدید نقصان پہنچا۔ (فوٹو: اے ایف پی)

لیکن ہمیشہ کی طرح پولیس کا دامن بے داغ ہے۔ یا کم سے کم اسے ایسا ہی لگتا ہے۔ پولیس پر فسادات کے دوران بھی یہ الزامات لگے تھے کہ اس نے کہیں حملہ آوروں کی مدد کی تو کہیں خاموش تماشائی بنی رہی۔
پولیس نے ان الزامات کو یکسر مسترد کیا تھا اور جب قانون کے رکھوالے کچھ کہیں تو اصولاً ان کی بات مان لینی چاہیے، نہ بھی مانیں تو نتیجہ کچھ نکلتا نہیں ہے۔ وہ دونوں میں سے کسی بھی فریق کی مدد کرتے تو دوسرا ناراض ہوتا، اس لیے یہ حکمت عملی بھی بری نہیں ہے کہ لوگ آپس میں ہی مسئلے کو نپٹا لیں۔ انصاف کے تقاضے بعد میں پورے کر دیے جائیں گے۔
لیکن اس مرتبہ مقدمات کی نوعیت کچھ ایسی ہے کہ تنقید ختم نہیں ہو رہی۔ ایک مقدمے کی سماعت کے دوران جج دھرمیندر رانا نے کہا کہ تفتیش یک طرفہ معلوم ہوتی ہے، پولیس نے ابھی تک یہ نہیں بتایا کہ دوسرے فریق کے رول کےبارے میں کیا تفتیش کی گئی ہے۔۔۔ اور یہ کہ پولیس کو غیر جانبداری سے تفتیش کرنی چاہیے۔
دیگر کیسز میں بھی عدالتیں پولیس کی تفتیش کو ’سطحی‘ بتا چکی ہیں۔ مائی لارڈ، سینکڑوں کی تعداد میں مقدمات قائم کیے گئے ہیں سب کی گہرائی میں جانے لگے تو صدیاں گزر جائیں گی اور تاخیر سے انصاف ملا تو کیا ملا۔
لیکن پولیس کو اپنی ریپوٹیشن کی بھی فکر ہے، کس عزت دار انسان کو نہیں ہوتی؟ تنقید کے جواب میں اس نے ایک غیر معمولی بیان میں کہا کہ فسادات کے سلسلے میں 750 مقدمات قائم کیے گئے ہیں جن میں 620 ہندوؤں اور 683 مسلمانوں کو گرفتار کیا گیا ہے۔ 
تقریبا پانچ سو لوگوں کے خلاف چارج شیٹ داخل کر دی گئی ہے جن میں ہندوؤں اور مسلمانوں کی تعداد تقریباً برابر ہے۔
مجھے یاد نہیں ہےکہ اس سے پہلے پولیس نے مذہب کی بنیاد پر کب گرفتارشدگان کی تعداد بتائی تھی لیکن ان کی معصومیت کو سلام۔

انڈیا میں شہریت قانون کے خلاف کئی دن تک مظاہرے جاری رہے۔ (فوٹو: اے ایف پی)

بھائی مانا کہ مسلمان بات بات پر برابری کا مطالبہ کرتے ہیں لیکن انصاف کا تقاضہ یہ نہیں ہے کہ سب کو برابر برابر پکڑ لیا جائے۔
اگر آپ جلدی سے کیسز نمٹانا چاہتے ہیں تو یہ اچھی ترکیب ہے، دو فریق تھے دونوں کے برابر برابر لوگ پکڑ لیتے ہیں۔ لیکن اگر آپ ہر کیس کی الگ الگ تفتیش کریں گے تو شاید آپ خود حیرت زدہ رہ جائیں کہ یہ نمبر کس طرح بدلتے ہیں۔
اور جب دوبارہ تفتیش کریں تو یہ بھی دیکھیے گا کہ گرفتارشدگان کے خلاف جو دفعات استعمال کی جارہی ہیں ان سے تو امتیاز نہیں جھلک رہا؟
اسی امتیاز کی وجہ سے امریکہ میں بہت عرصے کے بعد ایسا لگ رہا ہے کہ پولیس فورس میں اصلاحات کو اب ٹالا نہیں جاسکے گا اور انسان کی جلد کا رنگ کالا ہو یا سفید، پولیس نسل دیکھ کر لوگوں کی گردن پر گھٹنا نہیں رکھ سکےگی۔
لیکن اگر واقعی یہ اصلاحات عمل میں آجاتے ہیں تو یہ کارنامہ صرف سیاہ فام امریکیوں کی وجہ سے نہیں ہوگا۔ امریکہ کے ہر چھوٹے بڑے شہر میں بڑی تعداد میں سفید فام امریکی بھی بڑھ چڑھ کر مظاہروں میں حصہ لے رہے ہیں۔
جب قومیں جاگتی ہیں تو تبدیلی آتی ہے۔ انڈیا میں شہریت کے نئے قانون کے خلاف مسلمانوں کے ساتھ بہت سے ہندو بھی شامل تھے۔ لیکن اتنی بڑی تعداد میں نہیں کہ حکومت کو فکر ہوتی یا کوئی پیغام جاتا۔
مسئلہ پولیس کا نہیں ہے۔ نہ انڈیا میں اور نہ امریکہ میں۔ بات انصاف کی ہے۔ اگر آپکو لگے کہ کہیں نا انصافی ہو رہی ہے تو مذہب رنگ اور نسل مت دیکھیے، ساتھ آکر کھڑے ہوجائیے۔ بس اتنا ہی کافی ہے۔

شیئر: