Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

’درد ناک ماحول میں نفرت انگیزوں کی انسانیت پر شک‘

انڈیا ٹو ڈے کے صحافی راہل کنول نے مدرسہ ہاٹ سپاٹ کے نام سے مسلمانوں کے خلاف ایک شو کیا تھا (فوٹو:سوشل میڈیا)
انڈیا میں جہاں ایک طرف کورونا وائرس سے نمٹنے کے لیے ٹھوس اقدامات کرتے ہوئے عوام سے متحد ہو کر اس وبا سے لڑنے کی اپیل کی جارہی ہے وہیں انڈین میڈیا کے کچھ چینلز ایسے مشکل وقت میں بھی مذہبی منافرت پھیلانے کا کوئی موقع جانے نہیں دے رہے۔
اسی صورتحال کے پیش نظر انڈیا میں مسلمانوں کی سرکردہ تنظیم جمیعت علمائے ہند نے انڈیا کی سپریم کورٹ میں ایک درخواست جمع کرائی ہے جس کی پیر کے روز ویڈیو کانفرنسنگ کے ذریعے سماعت ہوئی۔
عدالت عظمی نے اپنے ریمارکس میں کہا کہ وہ پریس کی آزادی صلب کرنے کے حق میں نہیں،اس معاملے میں پریس کونسل آف انڈیا کو فریق بنایا جائے۔
اس سے قبل سنیچر کوانڈیا ٹو ڈے کے صحافی راہل کنول نے مدرسہ ہاٹ سپاٹ کے نام سے ایک شو کیا تھا جس میں انہوں نے ایک انویسٹی گیٹو رپورٹ پیش کی تھی جس میں کہا گیا تھا کہ کورونا وائرس کے پیش نظر سماجی دوری کی خلاف ورزی کرتے ہوئے مدرسوں میں بچوں کو چھپایا جارہا ہے۔ 
ان کی اس رپورٹ کو سوشل میڈیا پر شدید تنقید کا نشانہ بھی بنایا جارہا ہے۔

دی پرنٹ کی ہندی ویب سائٹ نے لکھا: 'انڈین میڈیا ان دنوں خواہ جو بھی کر رہا ہو لیکن صحافت نہیں کر رہا ہے۔ زی نیوز سے لے کر نیٹ ورک 18 تک ہر ٹی وی چینل ہر چیز کو جہاد سے جوڑنے لگا ہے۔ کورونا جہاد، زمین جہاد، معاشی جہاد، وغیرہ وغیرہ۔ لیکن اگر آج کوئی جہاد یا مذہی جنگ پر اترا ہوا ہے تو وہ انڈین میڈیا ہے جو انڈیا کے مسلمانوں اور اسلام کے پیچھے پڑا نظر آ رہا ہے۔‘
انڈیا میں کمیونسٹ پارٹی سی پی آی ایم ایل کی رہنما کویتا کرشنن نے انڈیا ٹوڈے اور ان کے صحافی راہل کنول کے نام ایک ویڈیو پیغام جاری کیا جس میں انہوں نے کہا کہ یہ جرنلزم نہیں بلکہ جینوسائڈ یعنی نسل کشی ہے۔
کویتا کرشنن کی اس ویڈیو پر سوشل میڈیا صارفین نے انڈین میڈیا میں جاری مسلم مخالف رپورٹس پر سوال اٹھایا ہے۔

صحافی عارفہ خانم نے اس حوالے سے ایک مضمون لکھا ہے جسے انہوں نے اپنے ٹوئٹر اکاونٹ پر پوسٹ کرتے ہوئے لکھا کہ 'انڈین میڈیا کے گدھ جو اسلام کے خلاف منافرت کا پروپگینڈا کررہے ہیں یہ  نہ صرف مسلم برادری پر کلنک لگاتا ہے بلکہ مودی حکومت اور مسلمانوں کے درمیان اعتماد کی کمی کو بھی بڑھاتا ہے۔ ایسے میں کورونا کے خلاف حکومت کی لڑائی مزید مشکل ہوتی جا رہی ہے۔'

انڈیا کے معروف سابق سٹوڈنٹ لیڈر کنہیا کمار نے ٹویٹ میں لکھا کہ 'اگر اتنے دردناک ماحول میں بھی آپ کسی سے نفرت کر پا رہے ہیں تو یقینا آپ کے انسان ہونے پر شک ہے۔'

سوشل میڈیا پر جہاں کچھ صارفین انڈین میڈیا پر تنقید کررہے ہیں وہیں کچھ ایسے بھی ہیں جو حمایت میں بولتے نظر آئے.
دوسری جانب انڈیا کے شہر حیدرآباد میں معروف لا یونیورسٹی کے وائس چانسلر فیضان مصطفی نے اپنے یوٹیوب چينل پر جہاں وہ مختلف قانونی موضوعات پر لوگوں کی رہنمائی کرتے ہیں کہا کہ انڈیا میں ایک خطرناک ٹرینڈ جاری ہے.
انھوں نے 'میسور سٹار' نامی ایک ایوننگ پیپر کے اداریہ پر بات کی جو کہ 'بیڈ ایپل ان دی باسکٹ' یعنی ٹوکری میں خراب سیب کے عنوان سے شائع ہوا جس میں کہا گیا کہ انڈیا میں دو طرح کے لوگ ہیں اور 18 فیصد آبادی خراب سیب ہے جسے ختم کر دینا چاہیے۔ ان کا واضح اشارہ مسلمانوں کی جانب ہے۔
فیضان مصطفی کا کہنا ہے کہ اگرچہ اس اخبار نے وہ ادارتی مضمون ہٹا لیا ہے اور اس کی اشاعت پر معافی مانگ لی ہے لیکن اس سے جو نقصان ہونا تھا ہو گیا۔ بین الاقوامی قانون کے تحت محض معافی مانگ لینا کافی نہیں ہے۔
ماہرین کے مطابق عدالت عظمی کے اس فیصلے کے بعد اب  انڈین میڈیا پرقدغن لگانا اور مشکل ہو جائے گا۔ 
دریں اثنا انڈیا میں لاکڈاؤن میں مزید 18 دنوں کا اضافہ کر دیا گیا ہے جبکہ متاثر افراد کی تعداد دس ہزار سے تجاوز کر چکی ہے اور مرنے والوں کی تعداد تقریبا 350 ہو گئی ہے

شیئر: