Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

’جسٹس فائز کیس میں آرڈر کا کیا مطلب؟‘

سپریم کورٹ نے جسٹس قاضی فائز عیسٰی کے خلاف صدارتی ریفرنس کالعدم قرار دیا (فوٹو: اے ایف پی)
سپریم کورٹ کے دس رکنی بینچ نے جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کی صدارتی ریفرنس کے خلاف درخواست پر فیصلے کا وقت تو چار بجے کا بتایا تھا مگرنمازِ جمعہ کے بعد ہی وکلا، صحافیوں اور کیس میں دلچسپی رکھنے والے افراد کے قدم عدالت کی جانب اٹھ گئے۔
سوا تین بجے بلیو ایریا کے اختتام اور پریڈ ایونیو کے آغاز پر اسلام آباد پولیس کے اہلکار کہیں بھی نظر نہ آنے والے مظاہرین سے نمٹنے کے لیے صف بندی کرتے دکھائی دیے۔ یہ ایک عمومی پولیس آرڈر ہوتا ہے جو دیکھنے میں آتا ہے۔
آگے بڑھ کر شاہراہ دستور پر پہنچنے سے قبل پولیس چیک پوسٹ ہے۔ عام طور پر گرمی میں اہلکار بے زار کھڑے دکھائی دیتے ہیں یا سستاتے ہیں مگر آج ہاتھ آگے کر کے گاڑی رکوائی اور پوچھا، ‘جی بھائی جان۔‘ بتایا کہ سپریم کورٹ جانا ہے۔
عدالت عظمیٰ کے سامنے اور پارکنگ کی طرف جانے والے راستے پر بھی پولیس اہلکار اپنے ڈنڈے اور شیلڈز سنبھالے کھڑے نظر آئے۔
پارکنگ کے ساتھ وکلا اور صحافیوں کے لیے مخصوص ’چھوٹے گیٹ‘ سے داخلے کی کوشش میں ایک وکیل کو اہلکاروں نے روکا ہوا تھا۔ وہ کہہ رہے تھے کہ وکیل ہوں۔ اور پولیس والے پوچھ رہے تھے کہ ’کسی بھی بار ایسوسی ایشن کا کارڈ دکھا دیں۔
عدالت کی راہداریوں میں ہر طرف وکلا، صحافی یا پھر پولیس کی سپیشل برانچ کے اہلکار سادہ کپڑوں میں ٹہل رہے تھے۔
ایک رپورٹر نے دوسرے سے پوچھا ’آج بھی جمعہ ہے، کس پر بھاری گزرے گا؟ دوسرے نے ہنس کر جواب دیا، ‘آدھا گھنٹہ ہی تو رہ گیا ہے، دیکھ لیں گے۔‘
کمرہ عدالت نمبر ایک میں داخلے سے قبل موبائل فون پولیس اہلکاروں کو جمع کرانے لگا تو ایسٹ ریکوری یونٹ کے سرکاری وکیل خالد رانجھا ہاتھوں پر سینیٹائزر ملتے نظر آئے۔ ایڈووکیٹ فروغ نسیم اور دیگر ان سے آگے بڑھ  گئے۔

اثاثہ جات ریکوری یونٹ نے جسٹس قاضی فائز عیسٰی کے خاندان کے بارے میں مالی معاملات اکھٹا کیے (فوٹو: اے ایف پی)

رش کی وجہ سے ’سماجی فاصلے‘ کے اصول نظرانداز کرنا وکیلوں، صحافیوں اور سکیورٹی والوں، سب کی مجبوری تھی۔
چار بچ کر دس منٹ پر ججز کے لیے دروازہ کھلا مگر ان کا سٹاف آٰیا اور سب کی کرسیوں کی کالے گاؤن اٹھا کر چلا گیا۔ اس کا مطلب ہوتا ہے کہ ججز دروازے کے پیچھے ہال میں آ چکے ہیں۔
دو منٹ بعد ’کورٹ آ گیا‘ کی آواز گونجتی ہے اور جسٹس یحییٰ آفریدی سب سے پہلے داخل ہوتے ہیں کیونکہ انہوں نے بائیں طرف سب سے آخری کرسی پر بیٹھنا ہوتا ہے۔
سارے ججز کرسیوں پر تشریف رکھتے ہیں تو عدالت میں کھڑے حاضرین بھی اپنی کرسیوں کی پر بیٹھ جاتے ہیں۔
بینچ کے سربراہ جسٹس عمر عطا بندیال اپنے چہرے سے ماسک ہٹاتے ہیں اور ان کی آواز گونجتی ہے ۔۔ بسم اللہ ۔۔۔
اس کے بعد وہ قرآن کی دو آیات تلاوت کرتے ہیں اور ان کا ترجمہ انگریزی میں پڑھتے ہیں۔
جسٹس عمر عطا بندیال اس کے بعد فیصلے کا اعلان کرتے ہیں اور جب ابتدا میں ’کواش‘ یا خارج کا لفظ استعمال کرتے ہیں تو کئی ٹی وی رپورٹرز کمرہ عدالت سے باہر کی جانب لپکتے ہیں۔
اس کے بعد بارہ منٹ تک آرڈر پڑھا جاتا ہے اور عدالت میں کئی ‘نووارد رپورٹرز‘ اور وکلا کو سمجھ نہیں آتی کہ دراصل حکمنامہ کیا ہے۔ وہ ایک دوسرے سے سرگوشیوں میں پوچھنا شروع کرتے ہیں۔

صدر کی جانب سے یہ ریفرنس سپریم جوڈیشل کونسل کو بھیجا گیا تھا (فوٹو: اے ایف پی)

انگریزی میں خارج‘ کا لفظ سننے پر سپریم کورٹ بار ایسوسی کے کوئٹہ سے تعلق رکھنے والے سابق صدر امان اللہ کنرانی اپنی نشست سے اٹھ کر عدالتی بینچ کی جانب جھک کر کورنش بجا لاتے ہیں۔
ان کے ساتھ والی نشستوں پر منیر اے ملک، حامد خان اور وکیل افتخار گیلانی ان کی جانب دیکھنے کے بجائے غور سے بینچ کے سربراہ کو آرڈر سناتے ہوئے دیکھتے رہتے ہیں۔
کمرہ عدالت میں دس رکنی بینچ کے سامنے بائیں جانب حکومتی ٹیم کے وکیل فروغ نسیم ماسک لگائے آرڈر سن رہے ہیں مگر کورونا سے حفاظتی تدابیر نے ان کے چہرے کے تاثرات کو چھپا رکھا ہے۔ ان کے ساتھ دائیں جانب اٹارنی جنرل اور بائیں جانب وکیل خالد رانجھا بیٹھے ہوئے ہیں۔
فروغ نسیم ایڈووکیٹ سے پچھلی نشست پر تحریک انصاف کی پارلیمانی سیکریٹری برائے قانون ملیکہ بخاری عدالتی آرڈر کے نوٹس لے رہی تھیں۔ صحافیوں کے علاوہ وہ شاید واحد شخصیت تھیں جو کاغذ قلم سنبھالے ہوئے تھیں۔
چار بج کر 24 منٹ پر عدالتی حکم نامہ مکمل ہو جاتا ہے تو بینچ کے سربراہ جسٹس عمر عطا بندیال دونوں اطراف کے وکلا کو صبر و تحمل سے سننے اور کیس میں معاونت پر شکریہ ادا کرتے ہیں اور کہتے ہیں کہ آپ کا تعاون خوش آئند رہا۔
کمرہ عدالت سے نکلتے ہوئے ایک سینیئر صحافی سے جونیئر رپورٹر پوچھتا ہے سر، آرڈر کا کیا مطلب ہے؟
جواب ملتا ہے کہ ’ریفرنس تو فارغ ہو گیا مگر لگتا ہے کہ ایک اور جے آئی ٹی بنا دی ہے۔‘


وکلا جسٹس صدارتی ریفرنس کے خلاف احتجاج کیا تھا (فائل فوٹو: اے ایف پی)

عدالت عظمی کی عمارت سے باہر مگر احاطے کے اندر ہی درجنوں کیمروں کے لینز فیصلہ سن کر آںے والے وکیلوں پر فوکس ہیں۔ کیمروں کے مائیک جس ڈائس پر پڑے ہیں اس کے سامنے ہجوم بڑھتا جا رہا ہے، کورونا میں احتیاط اور سماجی فاصلے کے اصول بھلائے جا چکے ہیں۔
ایک طرف سے ہو کر نکلنے کے لپکا تو ایک محترم خاتون صحافی گلاب جامن اٹھائے آ گئیں، لو بھئی، یہ کھاؤ۔
پوچھا کہ ’میڈم یہ کس کی طرف سے ہے؟‘ بولیں، میٹھا ہے اور مفت کا ہے، کھائیں چھوڑیں جس کا بھی ہے۔‘
اپنے چہرے پر ماسک کی جانب اشارہ کیا اور سامنے دیکھا تو کیمروں کے مائیک والے ڈائس پر سپریم کورٹ بار ایسوسی کے نمائندے وکلا مٹھائی کے دو ڈبے رکھے ہر ایک کو کھلانے پر مصر تھے۔
پارکنگ سے نکل کر شاہراہ کی دستور کی جانب گاڑی موڑی تو آگے پولیس کا ٹرک کھڑا تھا۔ اسلام آباد پولیس کے جوان اپنے ڈنڈے اور شیلڈز تھامے ایک ایک کر کے سوار ہو رہے تھے۔ ایک نے دوسرے سے کہا ’جلدی کرو، شکر نہیں کرتے، مغرب سے پہلے جان چھوٹی۔‘

شیئر: