Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

جسٹس فائز عیسیٰ کے اپنے مقدمے میں دلائل

فائز عیسیٰ نے کہا کہ اہلیہ ویڈیو لنک کے ذریعے موقف پیش کرنا چاہتی ہیں (فوٹو: سوشل میڈیا)
جسٹس قاضی فائز اپنے خلاف ریفرنس کی سماعت کے دوران بدھ کو خود سپریم کورٹ پہنچ گئے۔
جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے فروغ نسیم کے دلائل کے دوران عدالت سے بات کرنے کی اجازت لی تو اس پر جسٹس عمرعطا بندیال نے ان سے کہا کہ جج صاحب آپ آئے ہیں تشریف رکھیں۔
فروغ نسیم کے دلائل مکمل ہونے ک بعد عدالت نے قاضی فائز عیسیٰ کو بات کرنے کی اجازت دی۔
جسٹس فائز عیسیٰ نے کہا کہ یہ قاضی فائزعیسٰی کا مقدمہ نہیں ہم سب کا مقدمہ ہے، عدالت میں بحیثیت درخواست گزار ذاتی حیثیت میں پیش ہو رہا ہوں۔
جسٹس قاضی فائز عیسٰی نے اپنی اہلیہ کا موقف عدالت میں پیش کرنے کی پیش کش کردی۔
انہوں نے کہا کہ میرے اور میرے خاندان کے ساتھ کیا ہوا اس میں نہیں جانا چاہتا، الزام لگایا گیا ہے کہ ججز مجھے بچانا چاہتے ہیں۔
' ریفرنس سے پہلے میرے خلاف خبریں چلی، اگر کچھ غلط کہا ہے تو میرے خلاف ہتک عزت کا دعویٰ کریں۔'   
انہوں نے کہا کہ مئی کے آخر میں یہ ساری باتیں شروع ہوئیں اور مجھے ریفرنس کی کاپی بھی فراہم نہیں کی گئی۔
جسٹس قاضی فائز عیسٰی نے کہا کہ سابق اٹارنی جنرل کے مطابق ساتھی ججز نے درخواست تیار کرنے میں میری مدد کی۔ میں التجا کرتا ہوں کہ ان کے خلاف توہین عدالت کی کارروائی کی جائے۔
'میری اہلیہ ویڈیو لنک کے ذریعے عدالت میں موقف پیش کرنا چاہتی ہیں، وہ کہتی ہیں کہ وہ ایف بی آر کو کچھ نہیں بتائیں گی۔'
انہوں نے عدالت سے استدعا کی کہ ان کی اہلیہ کو ویڈیو لنک کے ذریعے موقف پیش کرنے کا موقع دیا جائے۔

عدالت نے فائز عیسیٰ سے کہا کہ وہ اہلیہ کا تحریری جواب داخل کریں (فوٹو: اے ایف پی)

عدالت نے جسٹس قاضی فائز عیسٰی کی درخواست پر مشاورت کے لیے سماعت میں 5 منٹ کا وقفہ کیا۔
وقفے کے بعد سماعت شروع ہوئی تو جسٹس عمر عطا بندیال نے کہا کہ ہم نے جج صاحب کے بیان پر غور کیا ہے۔ جج صاحب نے اہلیہ کی جانب سے بیان دیا ہے۔ ان کی اہلیہ کا بیان بڑا اہم ہوگا، تاہم ہماری ان سے درخواست ہے کہ وہ تحریری جواب داخل کر کے موقف دیں۔ تحریری جواب آنے کے بعد مقدمے کو سماعت کے لیے مقرر کیا جائے گا۔
جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے عدالت سے کہا کہ میری اہلیہ وکیل نہیں ہیں۔ ان کو کسی وکیل کی معاونت نہیں ہوگی۔ اہلیہ کہتی ہیں کہ اکاؤنٹ بتانے پر حکومت اس میں پیسہ ڈال کر نیا ریفرنس نہ بنا دے۔
'اہلیہ تحریری جواب جمع کرانے کی پوزیشن میں نہیں ہیں۔ اہلیہ کا موقف سن کر جتنے مرضی سوال کریں۔ انصاف ہوتا ہوا نظر آنا چاہیے۔' 

فروغ نسیم نے کہا کہ وزیراعظم نے بیرون ملک جائیداد کی  تردید کی ہے (فوٹو: اے ایف پی)

جسٹس قاضی فائز عیسٰی نے کہا کہ میری اہلیہ کو ریفرنس کی وجہ سے بہت کچھ جھیلنا پڑا ہے۔ ان کو عدالت کے سامنے موقف دینے کی اجازت ہونی چاہیے۔ میں اپنی اہلیہ کا وکیل بن کر نہیں بلکہ ان کا پیغام لے کر آیا ہوں۔
اس دوران جسٹس عمر عطا بندیال جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کو مخاطب کرتے ہوئے بولے کہ 'دیکھیں جج صاحب' اس پر قاضی فائز عیسیٰ نے جواب دیا کہ 'میں یہاں جج نہیں  درخواست گزار ہوں۔'
جسٹس عمر عطاء بندیال نے کہا کہ ہم آپ کی پیش کش پر مناسب حکم جاری کریں گے۔ آپ کی اہلیہ کا پیغام ہم نے سن لیا ہے۔ قاضی فائز عیسیٰ نے کہا کہ میری اہلیہ کی استدعا کو تبدیل نہ کریں، جسٹس عمر عطا بندیال نے کہا کہ 'ہم آپ کی اہلیہ کی زبانی موقف دینے کی پیش کش پر غور کریں گے۔'
اس سے قبل سماعت کے آغاز پر حکومتی وکیل فروغ نسیم نے عدالت کی جانب سے معاملہ ایف بی آر کو بھیجنے کے حوالے سے حکومتی موقف سے عدالت کو آگاہ کیا۔

فروغ نسیم نے کہا کہ فائز عیسیٰ کا معاملہ ایف بی آر کو بھیج دیا جائے (فوٹو: اے ایف پی)

انھوں نے کہا کہ عدالت معاملہ ایف بی آر کو بھیج دے، حکومت کو کوئی اعتراض نہیں۔ ایف بی آر دو ماہ میں فیصلہ کر دے۔
فروغ نسیم نے کہا کہ کل جسٹس قاضی فائز عیسٰی نے درخواست دائر کی جس میں وزیر اعظم کی مبینہ جائیدادوں کا ذکر کیا گیا۔
اس پر میں نے وزیراعظم سے بات کی تو انھوں نے کہا کہ ان میں سے اگر ایک بھی میری جائیداد ثابت ہوئی تو استعفیٰ دے دوں گا۔
 'وزیر اعظم نے کہا ہے کہ لندن میں میری ایک جائیداد بھی نکل آئے تو ضبط کر لیں اور پیسہ قومی خزانے میں جمع کرا دیں۔ شہزاد اکبر اور فردوس عاشق اعوان کی بھی بیرون ملک کوئی جائیداد نہیں۔'

فروغ نسیم کے مطابق شہزاد اکبر اور فردوس عاشق کی باہر جائیداد نہیں (فوٹو: اے پی پی)

جسٹس عمر عطا بندیال نے کہا کہ فروغ نسیم صاحب ہمارے پاس کل کوئی درخواست نہیں آئی۔ افسوس ہے دونوں فریقین عدالت کے بجائے میڈیا کو ترجیح دیتے رہے ہیں۔ ہم نے اس جواب کا جائزہ نہیں لیا۔
جسٹس مقبول باقر نے کہا کہ جج صاحب نے نہیں کہا کہ یہ جائیدادیں وزیراعظم کی ہیں۔ جواب میں ویب سائٹ کے حوالے سے بات کی گئی ہے۔
جسٹس قاضی فائز عیسٰی نے اپنی بات جاری رکھتے ہوئے کہا کہ اہلیہ کے موقف کے باوجود میں اپنی درخواست پر مقدمہ لڑوں گا۔ حکومتی وکیل نے کہا تھا کہ ایف بی آر والے جج صاحب سے ڈرتے ہیں۔
 'ایف بی آر نے فیصلہ ہمارے حق میں دیا تو پھر یہی کہا جائے گا۔ منہ بند کرتے ہوئے اس ریفرنس کو برداشت کیا۔ ہر دن اس معاملے پر ٹی وی چینلز پر بحث کی گئی۔'

فائز عیسیٰ نے کہا کہ اس معاملے پر صدر مملکت نے تین انٹریوز دیے (فوٹو: ریڈیو پاکستان)

 انہوں نے کہا کہ اس معاملے پر صدر مملکت نے ایوان صدر میں بیٹھ کر تین انٹریوز دیے۔ شہزاد اکبر، فروغ نسیم اور سابق اٹارنی جنرل نے ایک دوسرے کے خلاف پریس کانفرنس کی۔
انھوں نے کہا کہ میں منافق نہیں ہوں جو کہتا ہوں سچ کہتا ہوں۔ اس معاملے میں میری اہلیہ پر کیوں الزام لگایا گیا؟
جسٹس عمر عطا بندیال نے کہا کہ جج صاحب ہم آپ کا احترام کرتے ہیں، اب آپ تشریف رکھیں۔ حکومتی وکیل کو دلائل دینے دیں۔
جسٹس قاضی فائز عیسٰی نے کہا کہ میں یہاں جج کی حیثیت سے نہیں آیا۔ جسٹس عمر عطا بندیال نے کہا کہ 'آپ نے کورٹ کی کارروائی میں مداخلت کی ہے۔'

عدالت نے فائز عیسیٰ سے کہا کہ یہ کیس ایف بی آر کو بھیجا جا رہا ہے (فوٹو: ٹوئٹر)

'اگر آپ اپنے دلائل اپنے وکیل کے ذریعے دیتے تو بہتر ہوتا۔ عدالت آج اس معاملے پر اپنا حکم تحریر کر دے گی۔ آپ اپنی اہلیہ کا پیغام لے کر آئے ہیں۔'
جسٹس عمر عطا بندیال نے کہا کہ 'آپ کی اہلیہ کا پیغام ہمارے شیڈول کو متاثر نہیں کرے گا۔ ہم یہ کیس ایف بی آر کو بھیج رہے ہیں۔ یہ فل کورٹ کی کارروائی ہے، آپ بیٹھ جائیں۔'
جسٹس قاضی فائز عیسٰی نے کہا کہ 'میں نے حکومتی پیش کش قبول نہیں کی' اور اس کے بعد وہ کمرہ عدالت سے چلے گئے۔

شیئر: