Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

’مسز فائز عیسیٰ! آپ مجھ سے بھی اچھی وکیل ہیں‘

عدالت نے جسٹس فائز عیسی کی اہلیہ سے کہا آپ کے شوہر کی شہرت سب کو معلوم ہے (فوٹو: اے ایف پی)
پاکستان میں آج کی سب سے بڑی خبر صدارتی ریفرنس کا سامنا کرنے والے سپریم کورٹ کے جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کی اہلیہ کا ویڈیو لنک کے ذریعے عدالت عظمیٰ کے دس رکنی بینچ کے سامنے پیش ہونا تھا۔
جمعرات کی صبح جب عدالت نے ان کو ویڈیو لنک کے ذریعے بیان دینے کی اجازت دی تو ہر نگاہ سپریم کورٹ کی جانب اٹھ گئی۔ ایسے میں وائرس سے بچاؤ کی حفاظتی تدابیر اختیار کرتے ہوئے ہمارے قدم بھی ملک کی سب سے بڑی عدالت کی جانب اٹھے۔
ساڑھے تین بجے کا وقت مقرر تھا اور پہنچنے میں پانچ منٹ کی تاخیر ہوئی تو پریشانی ہوئی مگر جب پہنچے تو ابھی حکومتی وکیل فروغ نسیم کے دلائل ہی جاری تھی۔ کمرہ عدالت میں اچھی خاصی تعداد میں وکلا، صحافی اور دیگر لوگ موجود تھے۔
چار بجنے میں بیس منٹ باقی تھے جب دس رکنی بینچ کے سربراہ جسٹس عمر عطا بندیال نے کہا کہ اب ’مسز قاضی فائز عیسیٰ کو ویڈیو لنک پر لیا جائے۔‘
عدالت میں لگی ہوئی ساٹھ انچ کی تین سکرینز آن ہوئیں اور ان پر آف وائٹ قمیض، سفید دوپٹے اور گرے بالوں والی خاتون نمودار ہوئیں جنہوں نے نظر کی عینک بھی لگائی ہوئی تھی۔ ان کے پیچھے سرخ اینٹوں کی دیوار تھی جس میں شیشوں والی کھڑکی اور دروازہ بھی نمایاں تھا۔ دیوار پر گول فریم لگا ہوا تھا جو آدھا نظر آ رہا تھا۔
مسز فائز عیسیٰ نے کہا ’السلام علیکم، میرے شوہر مجھے کافی عرصے سے روک رہے تھے۔ میں بہت نروس ہوں۔ مجھے موقع دینے کا بہت شکریہ۔ کوشش ہوگی کی آپ کی ہدایات کے مطابق بات کروں، مگر میں بہت نروس ہوں۔‘
انہوں نے کہا کہ جج کی بیوی بننے سے قبل بھی ایک شہری تھی جس کی ذاتی زندگی ہوتی ہے۔ ’شوہر نے کہا کہ ریفرنس سے تمہارا کوئی لینا دینا نہیں اس لیے تمہیں ضروت نہیں ہے۔ مگر میرے والد بستر مرگ پر ہیں اور انہوں نے مجھے کہا کہ اپنا نام کلیئر کراؤ۔‘
یہ بات کہتے ہوئے مسز فائز عیسیٰ کی ہچکی بندھ گئی۔ کچھ دیر خاموش رہیں اور پھر بولیں کہ ’میری شادی 22 دسمبر 1982 کو ہوئی تھی۔‘
اس کے بعد انہوں نے اپنے نام کی وضاحت کی۔ اس کے ہجے بتائے کہ سپینش میں کیسے لکھتے ہیں اور انگریزی میں مختلف کیوں ہے۔ انہوں نے کہا کہ ’ان لوگوں نے میرے نام کا مذاق اڑایا۔‘ (دے میڈ فن آف مائی نیم)۔

قاضی فائز عیسیٰ کی اہلیہ نے بیان ویڈیو لنک کے ذریعے دیا (فوٹو: روئٹرز)

مسز قاضی فائز عیسیٰ نے اپنا نام، شناختی کارڈ، سپینش پاسپورٹ دکھانے اور ان پر لکھی تاریخیں بتانے میں دس منٹ لیے۔
ان کا کہنا تھا کہ ’والدہ سپینش تھیں اس لیے پاسپورٹ وہاں کا ہے، سپین میں پاسپورٹ پر والد اور والدہ دونوں کا نام لکھتے ہیں۔‘
مسز فائز عیسیٰ نے کہا کہ جب ان کے شوہر وکیل تھے تو ان کو پانچ سال کا ملٹی پل ویزہ ملتا رہا مگر رواں سال حکومت پاکستان نے ان کو صرف ایک سال کا ویزہ آٹھ جنوری 2020 کو جاری کیا ہے۔ ’مجھے ہراساں کیا گیا۔ کراچی میں اپنا گھر ہے، وہاں پلی بڑھی۔ اب کیوں ایک سال کا ویزہ دیا گیا۔‘؟
ان کا کہنا تھا کہ ’ان لوگوں نے مجھے ماسٹر مائنڈ کریمنل بنا دیا ہے۔ سنہ 2004 میں لندن میں پہلی جائیداد خریدی۔ وہاں غیرملکی پاسپورٹ پر خریداری کر سکتے ہیں اور جائیداد میں سپینش پاسپورٹ والا نام لکھا گیا۔‘
مسز فائز عیسیٰ نے بتایا کہ انہوں نے دہائیوں تک کراچی کے امریکن سکول میں پڑھایا۔ اس کے ساتھ ہی انہوں نے دستاویزات کا ایک پلندہ اٹھا کر سکرین کے سامنے کیا اور اس پر لکھی تاریخیں پڑھ کر بتائیں۔
’صرف تنخواہ نہیں ملتی تھی جیسا کہ ان لوگوں نے کہا۔ مجھے ہاؤس رینٹ اور دیگر مراعات بھی ملتی تھیں۔ یہ اس کے ثبوت ہیں۔‘
انہوں نے بتایا کہ تنخواہ بڑھتی بھی رہی۔ حکومت نے ٹیکس ریٹرن کا سرٹیفیکیٹ بھی دیا۔ اس کے ساتھ انہوں نے سامنے پڑی فائل اٹھا کر دکھائی۔
مسز فائز عیسیٰ نے کہا کہ انہوں نے کراچی میں ایک خاتون پارٹنر کے ساتھ لیا ہوا دفتر بیچا، کلفٹن میں دوسری پراپرٹی اسی خاتون کے ساتھ شراکت پر خریدی۔ ’یہ سب ٹیکس ریٹرن میں دکھایا۔ ایف بی آر نے کوئی سوال نہ کیا۔‘
انہوں نے بتایا کہ کراچی میں ایک اور پراپرٹی شاہ لطیف ٹاؤن میں بھی ہے مگر اس کا ٹیکس نہیں دیتیں کیونکہ اس پر کسی نے قبضہ کیا ہوا ہے۔

جسٹس فائز عیسی نے بدھ کو کہا تھا کہ ان کی اہلیہ عدالت کو اپنا بیان دینا چاہتی ہیں (فوٹو: سوشل میڈیا)

مسز فائز عیسیٰ نے کہا کہ جتنی رقم کی لندن جائیداد ہے اتنے میں تو کراچی اسلام آباد کے پوش علاقے میں ایک کنال کا پلاٹ ملتا ہے۔ ’ایک پراپرٹی بیٹی کے ساتھ مشترکہ اور دوسرے بیٹے کے ساتھ ہے جس میں وہ رہتا ہے۔ دو جائیداد لندن میں کرائے پر دی ہوئی ہیں۔ اس کا ٹیکس باقاعدگی سے دیا جاتا ہے۔‘
ان کا کہنا تھا کہ ان تمام جائیدادوں کو شوہر سے کوئی لینا دینا نہیں۔ ’27 جنوری کو ایف بی آر گئی تو پہلے کئی گھنٹے انتظار کرایا گیا۔ پھر ایک سے دوسرے افسر کے پاس بھیجا جاتا رہا۔ میں نے پوچھا کہ میرا ریجنل ٹیکس دفتر کراچی سے یہاں کیوں منتقل کیا گیا جبکہ میرامستقل پتہ کراچی کا ہے تو کسی نے کوئی جواب نہ دیا۔‘
اس دوران چار بج کر 26 منٹ ہوئے تو جسٹس مقبول باقر نے اپنی نشست سے جھک کر ’سماجی فاصلے‘ پر موجود بینچ کے سربراہ جسٹس عمر عطا بندیال سے سرگوشی کی۔
پینتالیس منٹ تک خاموشی سے مسز فائز عیسیٰ کو سننے والے بینچ کے سربراہ کی آواز بلند ہوئی ’مسز فائز عیسیٰ، سوری ٹو انٹرپٹ یو۔ مسئلہ یہ ہے کہ ہم یہاں اس کیس کے میرٹس کو نہیں دیکھ رہے۔ یہ تمام دستاویزات متعلقہ اتھارٹی کو دکھائی جا سکتی ہیں۔ آپ کو یقین دلاتے ہیں کہ وہاں آپ کو سنا جائے گا۔‘
مسز فائز عیسیٰ نے کہا کہ ’کیا میں ایک سوال پوچھ سکتی ہوں؟ اجازت ملی تو انہوں نے پوچھا کہ ’ایف بی آر نے یہ سب ابتدا میں کیوں نہ پوچھا؟ 13 ماہ انتظار کیوں کیا؟ ’میرے بیٹے کو لندن میں ہراساں کیا گیا۔ اس کی تصاویر بنائی گئیں۔ میں بہت اپ سیٹ ہوں۔ میری فیملی بھی۔‘
’چاہتی ہوں کہ عام لوگوں کی طرح قانون کے مطابق سلوک کیا جائے جب پانچ سال بعد قانون کے مطابق پرانے ٹیکس ریٹرن کا نہیں پوچھا جا سکتا۔‘

فروغ نسیم اس مقدمے کے عدالتی وکیل ہیں (فوٹو: اے پی پی)

جسٹس عمر عطا بندیال نے کہا کہ ’یہ اس ملک کی روایت ہے کہ اگر آپ کو ٹیکس والے نہیں پوچھتے تو خود ان کے پاس جایا جائے۔ پولیس کے پاس بھی خود ہی جایا جاتا ہے۔ یہی اس ملک میں ہوتا ہے۔‘
جسٹس عمر عطا نے کہا کہ ’آپ جج کی پارٹنر اور بہادر دوست ہیں اور مجھے یہ بات بھی معلوم ہے۔ آپ کے شوہر کی شہرت سب کو معلوم ہے۔ ہمیں ان پر یقین اور اعتماد ہے۔ یہ ہمارے ادارے کا ٹرائل ہے، آپ کا یا آپ کے شوہر کا نہیں۔‘
مسز فائز عیسیٰ نے انگریزی میں کہا کہ ’پرسیکیوشن از آ ٹرریبل تھنگ‘۔
اس کے ساتھ ہی بینچ کے سربراہ نے جسٹس قاضی فائز کے وکیل منیر اے ملک سے کہا کہ وہ روسٹرم پر آ جائیں۔
منیر اے ملک ایڈووکیٹ نے مائیک درست کرتے ہوئے کہا کہ ’مسز فائز عیسیٰ‘ آپ مجھ سے بھی اچھی وکیل ہیں۔ اب آپ سائن آف ہو جائیں۔‘
جسٹس عمر عطا بندیال نے مسز عیسیٰ سے کہا کہ ’یہ آپ کے لیے موجود وکلا میں سے بہترین وکیل کا کمپلیمنٹ ہے۔‘
اس کے ساتھ ہی مسز قاضی فائز عیسیٰ کا تقریبا ایک گھنٹہ طویل ویڈیو لنک بیان اختتام پذیر ہوا۔

شیئر: