Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

رسک نہیں لیا تو کچھ نہیں کیا: اداکار زاہد احمد

زاہد احمد نے کہا کہ انہیں فلم ’کیک‘ کو منع کرنے کا بہت افسوس ہے (فوٹو: انسٹاگرام زاہد احمد)
ڈرامہ سیریل ’محبت تجھے الوداع‘ کے ہیرو زاہد احمد کہتے ہیں کہ ڈرامے کا ٹیزر دیکھنے کے بعد اگر لوگ اندازہ لگا رہے ہیں کہ یہ بالی وڈ کی فلم کی کاپی ہے تو میں اس چیز کا دفاع نہیں کروں گا کیونکہ کون سا ایسا آئیڈیا ہے جو آج اوریجنل رہ گیا ہے؟
اردو نیوز کے ساتھ انٹرویو میں ان کا کہنا تھا کہ ’میں تنقید کرنے والوں کے خلاف کچھ نہیں کہوں گا کیونکہ ان کا حق ہے جو انہیں سمجھ آ رہی ہے وہ کہیں۔ یہ ڈرامہ جس فلم کی بھی نقل ہے پوائنٹ یہ ہے کہ یہ جاننے کے بعد بھی اگر کسی کو زاہد احمد ، سونیا حسین اور منشا پاشا کو دیکھنا ہے تو دیکھیں۔‘
’ویسے میں یہ پوچھنا چاہتا ہوں کہ ڈیڑھ گھنٹے کی فلم کو 30 اقساط میں کیسے اٹھایا جا سکتا ہے؟

 

یہ کہانی مختلف ہے اس میں ایونٹس بہت زیادہ ہیں دیکھنے سے ہی پتہ چلے گا کہ واقعی کہانی مختلف ہے۔
زاہد احمد نے کہا کہ کہانی میں یہ دکھایا گیا ہے کہ کیسے محبت کو پیسوں میں تولا گیا۔ انہوں نے مزید کہا کہ ڈرامہ سریل ’عشق زہے نصیب‘ میں میرا جو کردار تھا وہ رسک سے کم نہیں تھا کیونکہ کبھی کبھی رسک بیک فائر بھی کر جاتے ہیں لیکن میں نے رسک لیا کیونکہ میں سمجھتا ہوں کہ جس نے رسک نہیں لیا اس نے کچھ بھی نہیں کیا۔
ان کے مطابق اگر رسک لے کر کوئی کام کیا جائے اور وہ عوام کو پسند بھی آجائے تو اس سے اور بھی رائٹرز او ر ڈائریکٹر پرڈیوسرز کا دماغ کھلتا ہے۔ انہیں لگتا ہے کہ ہم بھی ایسا کوئی کام کریں گے تو عوام میں پذیرائی ملے گی اور ایکٹر کو بھی ہمت ملتی ہے کہ ہاں بھئی اب ہیرو پن سے باہر نکل کر آرٹسٹ بننا چاہیے۔
زاہد احمد نے کہا کہ کسی بھی الگ اور منفرد کردار کو قبول کرنا یہ کسی بھی آرٹسٹ کا انفرادی فیصلہ ہوتا ہے کسی کو کوئی بھی مجبور نہیں کر سکتا کہ فلاں کردار کرے اور فلاں نہ کرے یہ آرٹسٹ کا مکمل طور پر اپنا فیصلہ ہوتا ہے۔
اب اگر روٹین سے ہٹ کر کوئی کہانی آتی ہے جسے عوام میں پذیرائی ملتی ہے تو یہ چیز رجحان میں تبدیلی کا باعث تو بنتی ہی ہے لیکن ساتھ میں دوسروں کو ہمت دیتی ہے کہ انہیں بھی مختلف کام کرنے میں ہچکچاہٹ کا شکار نہیں ہونا چاہیے۔

زاہد احمد کے مطابق ’عشق زہے نصیب‘ کو کرنا یقینا بہت مشکل فیصلہ تھا (فوٹو: انسٹاگرام زاہد احمد)

انہوں نے کہا کہ اب ’عشق زہے نصیب‘ انڈسٹری کے لوگ جانتے ہیں کہ کیسا گیا اور کیسا نہیں گیا، اب اگر کوئی میرے پاس ڈرامہ لیکر آئے گا تو پہلے سوچے گا ضرور کہ زاہد احمد کوئی نارمل کہانی والا ڈرامہ نہیں کر ے گا۔
 ہاں کسی ڈرامے کے چار پرڈیوسر ہیں اور وہ فارمولا ڈرامہ کرنا چاہتے ہیں تو وہ ضرور کریں اور وہ کریں گے بھی لیکن ان کو زاہد احمد نہیں ملے گا۔
’کسی بھی آرٹسٹ کا ایک تاثر ہوتا ہے اب کسی آرٹسٹ کا عامر خان جیسا تاثر ہو تو اس کے بارے میں سوچا جائے گا کہ یہ ہر کردار پر حامی نہیں بھرے گا ہاں سلمان خان تین چار مل جائیں گے۔
ان کا کہنا تھا کہ ’عشق زہے نصیب‘ کو کرنا یقینا بہت مشکل فیصلہ تھا لیکن مجھے بطور آرٹسٹ آگے بھی بڑھنا تھا۔ حساس موضوع تھا لیکن جب رائٹر، ڈائریکٹر کی طرف دیکھا تو لگا کہ ہاں یہ وہ ٹیم ہے جو اتنا مشکل پراجیکٹ کر سکتی ہے تو میں نے کامیابی کا اندازہ لگاتے ہوئے ہاں کر دی نتیجہ آپ کے سامنے ہی ہے۔‘
ایک سوال کے جواب میں انہوں نے کہا کہ میں ڈرامے نہیں دیکھتا اور اس لئے تو بالکل بھی نہیں دیکھتا کہ کوئی ڈرامہ مشہور ہو رہا ہے ہاں کوئی منفرد اور الگ کہانی ہوتو ضرور دیکھتا ہوں اور دیکھ کر بہت محظوظ ہوتا ہوں۔

زاہد احمد نے کہا کہ شعبہ کوئی بھی ہو اپنی جگہ خود بنانی پڑتی ہے (فوٹو: انسٹاگرام زاہد احمد)

میں نے ’میرے پاس تم ہو‘ دیکھا تو نہیں لیکن بہت ہی اچھی بات ہے کہ ایک ڈرامے نے اتنی زیادہ شہرت پائی، کسی بھی ڈرامے کی کامیابی سے یقینا انڈسٹری کو فائدہ ہوتا ہے اور لوگوں کا رجحان بھی ڈراموں کی طرف واپس آتا ہے۔
کون سا ڈرامہ کتنا ہٹ ہے اس کا اندازہ ریٹنگ سے لگایا جاتا ہے لیکن ریٹنگ بوسٹرز تو بہت کم گھروں میں لگے ہوتے ہیں ایسے میں کیسے کہا جا سکتا ہے کہ عوام کسی بھی ڈرامے کو بہت کم یا زیادہ دیکھ رہے ہیں۔
اس سوال کے جواب میں زاہد احمد نے کہا کہ یہ بالکل درست بات ہے کہ ریٹنگ بوسٹرز بہت کم گھروں میں لگے ہوئے ہیں اس پر میں دو باتیں کہنا چاہتا ہوں کہ دو ہی باتیں ہو سکتی ہیں کہ یا توڑیٹنگ سسٹم کو نئے سرے سے دیکھا جائے یا دوسرا یہ کہ عشق زہے نصیب اور ’رانجھا رانجھا کردی‘ جیسے ہٹ ہونے والے ڈراموں سے اندازہ لگائیں کہ عوام کس قسم کی کہانیاں پسند کر رہے ہیں۔
 ’اب ہم انہی دو ڈراموں کو لے لیں تو ان کو جس طرح عوام میں پذیرائی ملی ہے اس سے اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ مردوں کے کرداروں کو بالکل بھی سائیڈ لائن نہیں کیا جا رہا۔ اب اگر عمران اشرف کے پاس کوئی کردار یا کہانی لے کر جائے گا تو وہ بھولے کے کردار کو ذہن میں رکھتے ہوئے سوچے گا ضرور کہ عمران اب کوئی معمولی کردار نہیں کرے گا۔‘
زاہد احمد نے کہا کہ باقی شعبہ کوئی بھی ہو اپنی جگہ خود بنانی پڑتی ہے۔ ایسا کردار جو کہانی کو آگے لے کر نہیں چل رہا اس کو کرنے کا کوئی فائدہ نہیں ہوتا۔ ہاں کوئی چھوٹا سا کردار جو کہانی کو آگے لے کر چلے تو میں ایسے کرداروں کو ترجیح دوں گا۔

’ صبا قمر، سونیا حسین اور یمنہ زیدی کے ساتھ کام کرکے بہت مزہ آتا ہے‘ (فوٹو: انسٹاگرام زاہد احمد)

کوئی ایسا پراجیکٹ جس کو چھوڑنے کا بہت افسوس ہو اس سوال کے جواب میں زاہد احمد نے کہا کہ فلم ’کیک‘ کو منع کرنے کا بہت زیادہ افسوس ہے۔ عدنان ملک والا کردار سب سے پہلے میرے پاس آیا تھا اس کے ڈائریکٹر سے میری بالکل جان پہچان نہیں تھی اس لیے میں نے منع کر دیا۔
یہ سوچتے ہوئے کہ پتہ نہیں کیسی فلم بنے گی لیکن جب فلم بنی لوگوں کو پسند آئی تو میں نے سوچا کہ اگر مجھے اندازہ ہوتا کہ اتنا اچھی فلم بننے والی ہے تو میں کبھی انکار نہ کرتا۔
 لہذا بعض دفعہ ایسا بھی ہوتا ہے کہ آپ فلم میکر کو نہیں جانتے اس لیے بھی انکار کر دیتے ہیں اسی انکار پر آپ کو ایک دن پچھتانا پڑتا ہے۔
 انہوں نے مزید کہا کہ میں نے اب تک جس کے ساتھ کام کیا ہے بہت مزہ آیا سب کے ساتھ کمفرٹ لیول بہت ہی اچھا ہے لیکن صبا قمر، سونیا حسین اور یمنہ زیدی کے ساتھ کام کرکے بہت مزہ آتا ہے۔

شیئر: