Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

ہندی چینی بائے بائے

چین کے ساتھ حالیہ جھڑپ میں انڈیا کے 20 فوجی ہلاک ہوگئے تھے (فوٹو: اے ایف پی)
انڈیا اور چین کے تعلقات آج جس نہج پر ہیں وہاں ایک بار پہلے بھی تھے۔ وزیر اعظم نریندر مودی کی ہی طرح انڈیا کے پہلے وزیراعظم جواہر لعل نہرو نے بھی چین کی طرف دوستی کا ہاتھ بڑھایا تھا۔
یہ ہندی چینی بھائی بھائی کا زمانہ تھا، لیکن پھر1962 میں دونوں ملکوں کے درمیان جنگ ہوئی، انڈیا کی فوج اس جنگ کے لیے تیار نہیں تھی اور پھر وہی ہوا جو ایسے حالات میں ہوتا ہے۔
جنگ میں شکست اب تک نہرو کی لیگیسی یا سیاسی ورثہ پر وہ داغ ہے جو ان کی باقی کامیابیوں کو پھیکا کر دیتا ہے۔ وہ کبھی اس صدمے سے ابھر نہیں پائے اور اس کے بعد دو سال سے بھی کم عرصہ زندہ رہے۔

 

نہرو کے لیے شاید سبق یہ تھا کہ بین الاقوامی رشتوں میں نعروں اور ’پرسنل کرسما‘ یا پر کشش شخصیت کی اہمیت تو ہوتی ہے لیکن اتنی نہیں کہ ملک اپنے نیشنل انٹریسٹ کے ساتھ کوئی سمجھوتہ کریں۔ صحیح ہو یا غلط حکومتیں وہی کرتی ہیں جو انہیں خود اپنے اور اپنے ملک کے مفاد میں نظر آتا ہے۔ وہ اس لیے کہ حکومت کرنے کے لیے حکومت میں رہنا ضروری ہے۔ جمہوری نظام حکومت ہو یا چین جیسا سسٹم، داخلی سیاست کے تقاضے انہیں ایسا کرنے پر مجبور کرتے ہیں۔اس لیے چیئرمین ماؤ نے کبھی یہ نہیں سوچا ہوگا کہ نہرو اچھے انسان ہیں، واقعی چین سے دوستی چاہتے ہیں، چلو سرحد اسی حساب سے طے کر لیتےہیں جیسے وہ چاہتے ہیں۔

اب نریندر مودی بھی یہ سبق سیکھ رہے ہیں۔

اگر یہ تقاضے نہ ہوتے، اور قومی مفاد کے ساتھ سمجھوتہ کرنےکے الزام کا خوف نہ ہوتا تو شاید نہرو نے 1960میں چین کے ساتھ سرحدی تنازعے پر سمجھوتہ کر لیا ہوتا۔ اس وقت چین بظاہر اکسئی چن اور اروناچل پردیش کو(جسے چین تبت کا حصہ مانتا ہے) ’بارٹر‘ بناکر سرحدی تنازع ختم کرنے کے لیے تیار تھا، پیکج ڈیل بنیادی طور یہ بتائی جاتی ہے کہ انڈیا اکسئی چن پر چین کا دعوی تسلیم کر لیتا اور چین اروناچل پردیش پر انڈیا کا دعوی۔
ساٹھ سال بعد دونوں ملک پھر اسی مشکل موڑ پر کھڑے ہیں۔ مسٹر مودی نے اپنے دور اقتدار کے پہلے چھ برسوں میں چین سے اپنے روابط پر خاص توجہ دی ہے۔

مودی نے اپنے دور اقتدار کے پہلے چھ برسوں میں چین سے اپنے روابط پر خاص توجہ دی ہے (فوٹو: ٹوئٹر)

چین کے صدر سے ان کے ون ٹو ون خصوصی اجلاسوں کی تصاویر سوشل میڈیا پر ان پیغامات کے ساتھ گردش کر رہی ہیں کہ ذاتی کیمسٹری اور ”پرسنل اکوئیشن” اپنی جگہ ہے لیکن اگر صرف پرسنل کیمسٹری سے بین الاقوامی تنازعات حل ہوا کرتے تو کشمیر کا مسئلہ بھی اسی دن حل ہوگیا ہوتا جب مسٹر مودی بغیر کسی اعلان نوازشریف کے ہاں شادی میں شرکت کرنے لاہور پہنچ گئے تھے۔
تواب آگے کیا ہوگا؟
انڈیا کے بیس فوجی ہلاک ہو چکے ہیں۔ اس لیے مسٹر مودی کےسامنے راستے محدود ہیں۔ اس وقت سمجھوتہ کرتے ہیں تو چین کے سامنے گھٹنے ٹیکنے کے الزام کا سامنا ہوگا، نہیں کرتے تو بات بگڑ بھی سکتی ہے۔
لداخ میں دونوں ملک بڑے پیمانے پر فوج تعینات کر رہے ہیں۔ زیادہ تر فوجی اور سفارتی مبصرین مانتے ہیں کہ چین اب آسانی سے پیچھے نہیں ہٹے گا، اور یہ تنازع لمبا کھنچے گا۔ بہت سے لوگ جنگ کی وکالت کر رہے ہیں، انہیں لگتا ہے کہ چین کو سبق سکھانے کا وقت آگیا ہے۔
یہ سچ ہے کہ اب دونوں ملکوں کی افواج میں اتنا فرق نہیں ہے جتنا انیس سو باسٹھ کی جنگ کے دوران تھا لیکن جیسا کانگریس کے ایک سابق وزیر داخلہ پی چدمبرم نے اپنے کالم میں لکھا ہے کہ حکمت عملی طے کرنے سے پہلے حالات کی نزاکت، اپنی طاقت، دشمن کی طاقت اور اپنے اتحادیوں کی طاقت کا اچھی طرح جائزہ لے لینا چاہیے۔ زیادہ تر سابق فوجی باور کرا رہے ہیں کہ یہ جذبات میں بہنے کا وقت نہیں ہے۔
تو جنگ ظاہر ہے کہ آپشن نہیں ہے، کیوں نہیں یہ سمجھنے کےلیے نہ فوجی ماہر ہونے کی ضرورت ہے اور نہ دونوں فوجوں کی قوت کا موازنہ کرنے کی۔ اگر یہ آپشن کام کرتا تو چین اور پاکستان دونوں کے ساتھ سرحدی تنازعات طے ہوئے 50 برس گزر چکے ہوتے۔

انڈیا کے زیادہ تر سابق فوجی باور کرا رہے ہیں کہ یہ جذبات میں بہنے کا وقت نہیں ہے۔ (فوٹو: ٹوئٹر)

اس لیے جنگ اور چین کو سبق سکھانے کی وکالت کرنے والوں کو تھوڑی تاریخ بھی یاد رکھنی چاہیے اور تھوڑا معیشت کی حالت کو بھی مد نظر رکھنا چاہیے۔ جنگ میں نقصان صرف دشمن کا نہیں ہوتا۔
تو دوسرا راستہ ہے کہ چین کو مالی نقصان پہنچایا جائے۔ یہ مطالبہ بھی آجکل بہت مقبول ہو رہا ہے کہ انڈیا چین سے درآمدات روک دے۔ چین سے درآمدات روک دی جائیں گی تو اس کا دماغ ٹھکانے آئے گا۔ لیکن کوئی بھی سمجھدار تجزیہ نگار آپ کو بتائے گا کہ انڈیا میں الیکٹرانکس سے لے کر آٹو اور فارما انڈسٹری تک، مینیوفیکچرنگ میں چین کی سپلائی چینز کتنا کلیدی کردار ادا کرتی ہیں۔ وہاں سے صرف تیار شدہ سامان ہی نہیں آتا، انڈیا میں بننے والے سامان میں بھی چین سے امپورٹ کیے جانےکل پرزے اور خام مواد اتنی بڑی تعداد میں استعمال ہوتے ہیں کہ ان سپلائی چینز کا متبادل تلاش کرنا آسان نہیں ہے۔
تو مختصراً بس یہ سمجھ لیجیے کہ چینی سامان کا بائیکاٹ کرنے سے انڈیا کو ہی زیادہ نقصان ہوگا اور ہاں سرحد کا تنازع ویسے کا ویسا ہی باقی رہے گا یا چین کے موقف میں اور زیادہ سختی پیدا ہو جائے گی۔ تو پھر بائیکاٹ کا فائدہ کیا ہے؟
اس لیے بہتر یہ ہوگا کہ چین پر آہستہ آہستہ انحصار کم کیا جائے، چین میں تیار کردہ سامان سستا بھی ہوتا ہے اور معیاری بھی اس کا متبادل ملک میں تیار کرنا ہو یا دوسرے ممالک سے سپلائی چینز قائم کرنی ہوں، یہ ایک لانگ ٹرم پراجیکٹ ہے، یہ ایک دو برس میں ہونے والا کام نہیں ہے۔

ماہرین کے مطابق چینی سامان کا بائیکاٹ کرنے سے انڈیا کو ہی زیادہ نقصان ہوگا( فوٹو: اے ایف پی)

اس لیے نریندر مودی کے سامنے اپنے دور اقتدار کا سب سے مشکل چیلنج ہے۔ ظاہر ہےکہ وہ نہیں چاہیں گے کہ جنگ ہو، اور یہ بھی نہیں کہ لوگ انہیں ایک کمزور رہنما کے طور پر یاد رکھیں۔ ان کی پوری امیج ”مسکیولر نیشنلزم” پر ہی ٹکی ہوئی ہے یا یہ کہ قومی مفاد کا سوال ہو تو ہم جھکنے اور رکنے والے نہیں ہیں، اس لیے اگر دباؤ میں آکر انہوں نے چین سے سمجھوتہ کر لیا تو ان کی امیج کو اتنا ہی نقصان ہوگا جتنا جنگ ہارنے پر ہوتا۔
حل کا راستہ صرف بات چیت کی میز سے ہوکر گزرتا ہے۔ چاہے بین الاقوامی ثالثی سے یا پھر آپسی بات چیت سے پہلے چین کو مائل کیا جائے کہ وہ اپنی فوج کو ان علاقوں سے ہٹا لے جن پر انڈیا بھی دعوی کرتا ہے، اور پھر سرحد کے تعین کا ایک منصوبہ پیش کیا جائے جس کا بنیادی فارمولہ وہی ہوگا جو انیس سو ساٹھ میں تھا۔
کچھ لو اور کچھ دو۔ اور بات کو ختم کرو۔

شیئر: