Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

’رنگ گورا نہ ہونے کی وجہ سے رشتہ نہ ہوا‘

جانسن اینڈ جانسن نے رنگ گورا کرنے والی کریموں کی فروخت بند کرنے کا اعلان کیا ہے۔ (فوٹو: شٹر سٹاک)
پریدھی کو پہلی مرتبہ اس وقت اپنی رنگت کے حوالے سے احساس ہوا جب سکول میں ان کے دوست انہیں طنز کا نشانہ بنانے لگے۔
کالج میں ان کی رنگت پر طنز اور مذاق مزید بڑھ گیا۔ ’جب میں 18 سال کی ہو گئی تو جلد کے رنگ کی وجہ سے خوف اتنا بڑھ گیا تھا کہ میں ہر مہینے ایک ہزار روپے رنگ گورا کرنے والی کریموں پر خرچ کرنے لگی۔ لیکن یہ 12 سال پہلے کی بات ہے۔'
انڈیا کی ماہر تعلیم پریدھی نے عرب نیوز کو بتایا کہ ‘مجھے رنگ گورا کرنے والی کریموں کا استعمال ترک کرنے اور اپنی عزت نفس بحال کرنے میں بڑا وقت لگا۔'
پریدھی کا کہنا تھا کہ ’رنگ گورا کرنے والی کریموں کا استعمال ترک کرنے کے لیے بہت زیادہ اعتماد چاہیے ہوتا ہے کئی افراد کے پاس یہ خود اعتمادی نہیں ہوتی کہ وہ ان کریموں کا استعمال ترک کریں۔ حالانکہ ان کی معاشرے میں ایک حیثیت ہوتی ہے۔‘
انڈیا میں کروڑوں خواتین رنگ گورا کرنے والی مہم ’وائٹ از رائٹ‘ کا شکار ہو چکی ہیں۔
’ریسرچ اینڈ مارکیٹ‘ نامی کنزیومر گروپ کی ایک رپورٹ ’انڈیا فیئرنس اینڈ بلیچ مارکیٹ اوورویو 2018-23‘ کے مطابق انڈیا میں خواتین کا رنگ گورا کرنے والی کریموں کا ریونیو 2023 تک 65 کروڑ 70 لاکھ ڈالر تک پہنچنے کا امکان ہے۔
رپورٹ کے مطابق ’بڑھتی ہوئی شرح خواندگی، سنگل ورکنگ وومن کی جانب سے طلب میں اضافہ، مقامی اور بین الاقوامی سطح پر ہونے والے حسن کے مقابلے، معاشرے کا دباؤ، شادی کے ایشوز اور خوبصورت دکھنے کی خواہش ان اہم عوامل میں سے ہیں جن کی وجہ سے انڈیا میں جلد گورا کرنے والی کریموں کی مارکیٹ بڑھ رہی ہے۔‘
تاہم طلب میں اضافے کے باوجود ملٹی نیشنل کمپنی جانسن اینڈ جانسن نے گذشتہ جمعے کو اعلان کیا کہ کمپنی ایشیا اور مشرق وسطیٰ میں رنگ گورا کرنے والی مصنوعات کی فروخت روک دے گی۔ جانسن اینڈ جانسن کا اعلان اس وقت سامنے آیا ہے جب عالمی سطح پر نسلی عدم مساوات پر مباحثہ جاری ہے۔

جانسن اینڈ جانسن نے کلین اینڈ کلیئر فیرنس اور دوسری کریموں کی فروخت بند کرنے کا اعلان کیا ہے۔ (فوٹو: ٹوئٹر)

جانسن اینڈ جانسن کا ایک بیان میں کہنا تھا کہ ’گذشتہ کچھ ہفتوں کے دوران ہونے والی گفتگو سے یہ بات سامنے آئی ہے کہ کمپنی کی کچھ مصنوعات یا سیاہ دھبے کم کرنے والی مصنوعات کے حوالے سے دعوؤں میں فیئرنیس یا گوری رنگت کو اپنی اصل رنگت سے بہتر دکھایا گیا ہے۔‘
کمپنی نے کہا ہے کہ ’ہمارا یہ مقصد کبھی نہیں تھا۔ صحت مند جلد ہی خوبصورت جلد ہے۔‘
جانسن اینڈ جانسن گذشتہ 70 سالوں سے انڈیا میں کاروبار کر رہی ہے اور 2018 میں کمپنی کا ریونیو 876 ملین ڈالر تھا۔
بیان میں کمپنی کا کہنا تھا کہ ’ہم اب سے نیوٹروجینا فائن فیئرنس اور کلین اینڈ کلیئر فیئرنس لائن کی مصنوعات کو فروخت نہیں کریں گے۔‘
دوسری طرف ان مصنوعات کی طلب کے باوجود سماجی تنظیموں، مشہور شخصیات اور سلیبریٹیز کی جانب سے ان کے استعمال کے خلاف تسلسل کے ساتھ مہم جاری ہے۔
رواں سال فروری میں انڈین حکومت نے جلد گورا کرنے والی اور چہرہ خوبصورت کرنے والی دوسری مصنوعات کی ٹی وی اور عوامی جگہوں پر تشہیر کرنے کے حوالے سے سخت قانون تجویز کیا تھا۔
اس حوالے سے مہم چلانے والے کارکنان کا کہنا ہے کہ جانسن اینڈ جانسن کی جانب سے اعلان نسل پرستی اور رنگ پر مبنی امتیاز کے خلاف کام کرنے والوں کی فتح ہے۔
’یونائیٹ اگینسٹ پیڑریارکی‘ مہم سے وابستہ پونم کوشک کا کہنا ہے ’ملٹی نیشنل کمپنیاں خوبصورتی کی تعریف اپنے کاروباری مفادات کے تحت کرتی ہیں اور رنگ کے نام پر امتیاز کا سبب بنتی ہیں۔‘

جانسن اینڈ جانسن کے اعلان کو رنگ کی بنیاد پر امتیاز کے خلاف کام کرنے والے اپنی فتح قرار دے رہے ہیں۔ (فوٹو: ٹوئٹر)

ان کے مطابق ’انڈیا میں خواتین کو روز بروز احساس ہو رہا ہے کہ ملٹی نیشنل کمپنیاں مقابلہ حسن اور دوسرے پروگراموں کے ذریعے خوبصورتی کے پیرامیٹرز متعین کرتی ہیں۔ جانسن اینڈ جانسن کی جانب سے مصنوعات کی فروخت بند کرنے کا اعلان نسل اور رنگ کی بنیاد پر امتیاز کے خلاف کام کرنے والوں کی فتح ہے۔‘
پون بسنال26  سال کے نوجوان ہیں جو کہ اترپردیشن کے شہر علی گڑھ میں گروسری کی دکان چلاتے ہیں۔ ان کو خوف ہے کہ کہیں ان کی سیاہ رنگت ان کی شادی کے راستے میں رکاوٹ نہ بن جائے۔
انہوں نے عرب نیوز کو بتایا ’میں گذشتہ پانچ سال سے جلد گورا کرنے کی ہر قسم کی کریمیں استعمال کرتا ہوں۔ چھوٹے شہروں میں لوگ گورے رنگت کے اور خوبصورت دکھنے والے نوجوانوں سے اپنی بیٹیوں کی شادی کو ترجیح دیتے ہیں۔‘
اس خدشے کا اظہار دہلی میں ایک ملٹی نیشنل آئی ٹی کمپنی میں کام کرنے والے مونیکا ورما نے بھی کیا۔ ’میرا رشتہ اس لیے طے نہیں ہو سکا کیونکہ میری رنگت گوری نہیں ہے۔‘
پریدھی کے خیال میں مسئلہ جلد گورا کرنے والی  مصنوعات کا نہیں بلکہ ذہنیت کا ہے۔ ’انڈیا میں چاہے آپ کتنا ہی کوالیفائیڈ کیوں نہ ہوں، اگر آپ کی رنگت صاف نہیں تو آپ اچھے نہیں۔‘

شیئر: