امریکی عہدیدار کا کہنا ہے کہ علاقائی کشیدگی کے دوران امریکی سفارتی مشن کے مزید اہلکار ہفتے کے آخر میں عراق سے روانہ ہوئے۔
فرانسیسی خبر رساں ایجنسی اے ایف پی کے مطابق اتوار کو ایران کی جوہری تنصیبات پر حملے کے بعد امریکی اہلکار نے بتایا کہ سفارت خانے کے عملے کو کم کرنے کی جاری کوششوں کے حصّے کے طور پر’مزید اہلکار 21 اور 22 جون کو عراق سے روانہ ہوئے۔‘
مزید پڑھیں
انہوں نے مزید کہا کہ یہ روانگی اس عمل کا تسلسل ہے جو گزشتہ ہفتے ’بہت زیادہ احتیاط اور بڑھتی ہوئی علاقائی کشیدگی کی وجہ سے ‘شروع ہوا تھا۔ سفارت خانہ اور قونصل خانہ بدستور کام کر رہے ہیں۔
اس سے قبل اتوار کو صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے اسرائیل کی جنگ میں شمولیت اختیار کرتے ہوئے ایران کی اہم جوہری تنصیبات پر امریکی حملوں کا اعلان کیا۔
ایران نے دھمکی دی تھی کہ اگر تنازع ہوا تو وہ خطے میں امریکی فوجی اڈّوں کو نشانہ بنائے گا۔
ایران کے حمایت یافتہ مسلح دھڑوں کی ممکنہ مداخلت پر عراق میں خدشات بڑھ رہے ہیں۔
ان دھڑوں نے دھمکی دی ہے کہ اگر امریکہ ایران کے خلاف جنگ میں اسرائیل کا ساتھ دیتا ہے تو وہ خطے میں واشنگٹن کے مفادات کو نقصان پہنچائیں گے۔
عراق طویل عرصے سے پراکسی لڑائیوں کے لیے ایک زرخیز میدان رہا ہے۔
ایئر لائنز کا مشرق وسطیٰ کی فضائی حدود سے گریز
ایئر ٹریفک کا ڈیٹا فراہم کرنے والی ویب سائٹ فلائٹ ریڈار24 کے مطابق ایران کی جوہری تنصیبات پر امریکی حملے کے بعد ایئر لائنز کا مشرق وسطیٰ کے بڑے حصّوں کی فضائی حدود سے گریز برقرار ہے۔
فلائٹ ریڈار 24 نے سوشل میڈیا پلیٹ فارم ایکس پر کہا کہ ’ایرانی جوہری تنصیبات پر امریکی حملوں کے بعد، خطے میں کمرشل ٹریفک اسی طرح کام کر رہی ہے جیسے کہ گذشتہ ہفتے فضائی حدود کی نئی پابندیاں لگانے کے بعد سے کام کر رہی ہے۔‘
فلائٹ ریڈار 24 کی ویب سائٹ پر دیکھا جا سکتا ہے کہ ایئر لائنز ایران، عراق، شام اور اسرائیل کی فضائی حدود میں پرواز نہیں کر رہیں۔ انہوں نے دیگر راستوں کا انتخاب کیا ہے جیسے کہ بحیرہ کیسپین کے راستے شمال یا مصر اور سعودی عرب کے راستے جنوب، چاہے اس کے نتیجے میں ایندھن اور عملے کے اخراجات زیادہ ہوں اور پرواز کا وقت طویل ہو۔