اگرچہ دنیا قدیم ہندوستان کی جسمانی اور روحانی مشق ’یوگا‘ سے ایک زمانے سے بخوبی واقف تھی لیکن پھر عالمی ادارے اقوام متحدہ نے سنہ 2014 میں جب اس قدیم ہندوستانی روایت کی گرانقدر خدمات کا اعتراف کیا تو 21 جون کو یوگا کے عالمی دن کے طور پر منایا جانے لگا اور پہلی بار 2015 میں نیویارک سے لے کر سیول، کوالالمپور اور نئی دہلی میں ’یوگا ڈے‘ منایا گیا۔
اس پہلے جشن کے دس سال بعد ہم یہ جائزہ لے رہے ہیں کہ آیا ’یوگ‘ یا ’یوگا‘ کیا ہے اور یہ دنیا بھر میں کس طرح متعارف ہوا۔
اگرچہ یوگا کی تاریخ واضح نہیں لیکن یہ کہا جا سکتا ہے کہ ہندوستان میں بدھ مذہب کے بانی مہاتما بدھ کے زمانے سے پہلے سے اس کے نشانات واضح طور پر ملتے ہیں۔ چنانچہ بدھ مت میں بھی جسم اور ذہن کو کنٹرول کرنے کے لیے اس کے کچھ آسنوں کا استعمال کیا گیا اور اس پر زور بھی دیا جاتا ہے۔
مزید پڑھیں
اس کی اگر سادہ سی تعریف کی جائے تو یہ کہا جا سکتا ہے کہ یوگا ایک دماغی اور جسمانی مشق ہے یعنی یوگا ایک طرح سے جسمانی اور ذہنی صحت کو فروغ دینے کا عمل ہے جس میں جسمانی ہیئت یا پوسچر، سانس لینے کی تکنیک اور مراقبہ شامل ہے۔
لفظ ’یوگا‘ سنسکرت کے لفظ ’یوج‘ سے ماخوذ ہے جس کا مطلب ’متحد ہونا‘، ’یکجا ہونا‘ یا ’شامل ہونا‘ ہے۔ اس کا مقصد جسم، دماغ اور روح کو ہم آہنگ کرنا ہے۔
عام طور پر یہ جسم اور روح کی ایک ورزش ہے جس میں جسم کو مختلف ہیئت یا پوسچر میں موڑا اور رکھا جاتا ہے اور اس میں سانس لینے اور سانس چھوڑنے پر کنٹرول کرنا بھی شامل ہے۔
چنانچہ ہم اسے جسمانی اور روحانی نظم و ضبط کا عمل کہہ سکتے ہیں۔
اس میں جسم کو لچیلا بنانے، اس میں قوت پیدا کرنے اور توازن قائم کرنے کی مشق کی جاتی ہے اور اس کے لیے جسم کو مختلف ہیئت یا پوسچرز میں رکھا جاتا ہے۔
اس کے تین بڑے حصے ہیں: ایک جسمانی ہیئت یا پوسچر ہے جسے ’آسن‘ کہتے ہیں، دوسری سانس لینے کی تکنیک ہے جسے ’پرانایم‘ کہتے ہیں اور تیسرا مراقبہ ہے جسے ’دھیان‘ کہتے ہیں۔
اس کے ذریعے انسان اپنی ذہنی اور جسمانی صحت کو بہتر کر سکتا ہے لیکن اس میں ڈسپلن کی اشد ضرورت بتائی جاتی ہے۔
انڈیا کی وزرات خارجہ کی ویب سائٹ پر ڈاکٹر ایشور وی بساورڈی نے اس کی تعریف کرتے ہوئے لکھا ہے کہ ’یوگا بنیادی طور پر ایک انتہائی لطیف سائنس پر مبنی ایک روحانی نظم و ضبط کا عمل ہے، جو دماغ اور جسم کے درمیان ہم آہنگی لانے پر مرکوز ہے۔ یہ صحت مند زندگی گزارنے کا ایک فن اور سائنس ہے۔‘
رچرڈ کنگ نے 1999 میں اس کی تعریف کرتے ہوئے کہا کہ ’یوگا روایتی معنوں میں پورے جنوبی ایشیا میں اور اس کے آگے نظر آتا ہے جس میں بہت سی تکنیک شامل ہیں جو روحانی اور اخلاقی تزکیہ نفس کی طرف لے جاتی ہیں۔ ہندو اور بدھ روایات یکساں طور پر یوگا کی مشق پر بہت زیادہ زور دیتی ہیں۔‘
ہندو عقیدے کے مطابق ان کے بھگوان شیو یا شیوا پہلے يوگی یعنی يوگا کے گرو ہیں لیکن اس ہندوستانی روایت کو دنیا میں متعارف کرانے کا سہرا 19 ویں صدی کے ہندو فلسفی سوامی ویویکانند کو دیا جاتا ہے جنہوں نے پہلی بار 11 ستمبر 1893 کو شکاگو میں منعقدہ ورلڈ ریلیجن کانفرنس میں اپنے خطاب کے دوران اس کا ذکر کیا تھا اور پھر 1896 میں ’راج یوگا‘ کے عنوان سے ایک کتاب تحریر کی جس میں انہوں نے دھیان کے ذریعے روح کو جسم سے آزاد کرنے کا وسیلہ قرار دیا۔

ان کا یہ فلسفہ مغربی ممالک میں بہت مقبول ہوا لیکن اسے مغرب میں مقبول بنانے کا سہرا تین یوگیوں یعنی یوگا گرو کے سر جاتا ہے۔
ان میں سے ایک روس میں پیدا ہونے والی اندرا دیوی ہیں۔ ان کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ انہوں نے ہی یوگا کو امریکہ میں متعارف کرایا اور اسے وہاں قدم جمانے کا موقع فراہم کیا۔
ان کا بچپن کا نام یوجینی پیٹرسن تھا۔ ان کی والدہ روسی اور والد سویڈن سے تعلق رکھتے تھے۔ کہا جاتا ہے کہ یوجینی کی ہندوستان میں دلچسپی 15 سال کی عمر میں رابندر ناتھ ٹیگور کی ایک کتاب پڑھنے کے بعد شروع ہوئی۔
انہوں نے سنہ 1927 میں ہندوستان کا سفر کیا اور ایک ایسے وقت میں یوگا میں دلچسپی لینی شروع کی جب یوگا پر مردوں کا غلبہ تھا۔ وہ ان پہلی خواتین میں سے ایک تھیں جنہیں سری تروملائی کرشنماچاریہ نے میسور کے راجہ اور رانی کے کہنے پر یوگا سکھایا تھا۔
اپنے شوہر کی موت کے بعد وہ امریکہ چلی گئیں جہاں انہوں نے یوگا سکھانے کا کام شروع کیا۔ ان کے شاگردوں میں ہالی وڈ کے فنکاروں میں گریٹا گاربو اور جنیفر جونز وغیرہ شامل تھیں۔
انہوں نے 2002 میں اپنی موت سے قبل شنگھائی میں بھی یوگا کی کلاسز لی تھیں جو کہ نئے چین میں ایسی پہلی کوشش تھی۔
یوگا کو مغرب میں مقبول بنانے والوں میں بی کے ایس اینگر کا نام بھی سرفہرست رکھا جاتا ہے۔ اینگر نے بھی کرشنماچاریہ سے یوگا کی تعلیم حاصل کی تھی اور پھر ان کے طالب علموں نے یوگا کو دنیا بھر میں پھیلایا۔
