Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

پاکستان کے ایئرپورٹس پر کورونا ٹیسٹنگ لیب: 'یہ اتنا آسان نہیں'

 یو اے ای کے مطابق یہ اقدام پاکستان سے آنے والے مسافروں کی حفاظت کے لیے ہے (فوٹو: اے ایف پی)
متحدہ عرب امارات کی جنرل سول ایوی ایشن اتھارٹی (جی سی سی اے) نے پیر 29 جون سے کووڈ 19 کے ٹیسٹ کے لیے خصوصی لیب کے قیام تک پاکستان سے پروازیں عارضی طور پر معطل کرنے کا اعلان کیا تھا جس کے بعد سے اب تک پاکستان کی جانب سے کسی اقدام کا اشارہ نہیں دیا گیا۔
اردو نیوز کے رابطہ کرنے پر سول ایوی ایشن اتھارٹی کے ایک ترجمان کا کہنا تھا کہ اس قسم کا فیصلہ نیشنل کمانڈ اینڈ آپریشن سینٹر کے فورم پر کیا جائے گا اور مزید کسی قسم کے تبصرے سے گریز کیا جبکہ وزارت صحت کے ترجمان ساجد شاہ نے کہا ہے کہ ایسا کوئی فیصلہ ان کے علم میں نہیں اور وہ معاون خصوصی برائے صحت سے مزید اطلاعات ملنے پر آگاہ کریں گے۔
یو اے ای کی سرکاری خبر رساں ایجنسی وام کے مطابق بیان میں کہا گیا تھا کہ’یہ احتیاطی اقدام پاکستان سے آنے والے مسافروں کی صحت اور حفاظت کو یقینی بنانے کے لیے ہے‘۔
یاد رہے کہ فیصلے کے باعث روزانہ کی بنیاد پر درجنوں پروازیں متاثر ہوئی ہیں اور ہزاروں مسافروں کو اپنا سفری شیڈول تبدیل کرنا پڑا ہے جبکہ متبادل سفری ذرائع دستیاب نہ ہونے سے بھی مشکلات کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے۔
 دوسری طرف پی آئی اے کے پائلٹس کے جعلی لائسنسوں کا معاملہ سامنے آنے کے بعد یورپی یونین ایئر سیفٹی ایجنسی نے پی آئی اے کے یورپی ممالک کے لیے فضائی آپریشن کے اجازت نامے کو 6 ماہ کے لیے معطل کر دیا جس کے باعث یورپ جانے کے لیے پاکستانی مسافروں کے آپشنز مزید محدود ہو گئے ہیں کیونکہ خلیجی ایئرلائنز ہی یورپ جانے والے اکثر مسافروں کی ترجیح تھیں۔
اس صورت حال میں پاکستانی مسافروں کی بیرون ملک روانگی کے لیے کورونا کی ٹیسٹنگ لیب کا قیام ناگزیر نظر آرہا ہے، تاہم  حکومت کے اداروں کی طرف سے جہاں کوئی حکمت عملی نظر نہیں آ رہی وہاں اردو نیوز سے بات کرتے ہوئے پی آئی اے کے ترجمان عبداللہ حفیظ نے بتایا کہ پی آئی اے کا منصوبہ ہے کہ ٹینڈر کر کے اپنی ٹیسٹنگ کی سہولت ایئرپورٹ پر فراہم کرے مگر اس میں ڈیڑھ دو ماہ لگ سکتے ہیں۔

یو اے ای کے فیصلے سے روزانہ کی بنیاد پر درجنوں پروازیں متاثر ہوئی ہیں (فوٹو: اے ایف پی)

ایئرپورٹ پر ٹیسٹنگ لیب بنانا کیا ممکن بھی ہے؟

 حکومت تو فی الحال ایئرپورٹ پر ٹیسٹنگ لیب بنانے کے حوالے سے گومگو کا شکار نظر آرہی ہے۔ اردو نیوز نے اس حوالے سے پاکستان کے مشہور ہسپتال چلانے والے ایک منتظم سے بات کی تو انہوں نے بتایا کہ ایسا کرنا آسان نہیں ہو گا۔
ان کا کہنا تھا کہ ایک بین الاقوامی معیار کی لیبارٹری بنانے کے کئی تقاضے ہوتے ہیں جن کو کئی دفعہ بڑے بڑے ہسپتال بھی پورا کرنے میں سالہا سال لگا دیتے ہیں اس لیے ایئرپورٹ پر دنوں یا ھفتوں میں ایسی لیبارٹری کا قیام تقریباً ناممکن ہے۔
اس حوالے سے اگر دیکھا جائے تو پاکستان میں سب سے جلد اور قابل بھروسہ پی سی آر ٹیسٹ (جس میں ناک اور منہ کے نمونے لیے جاتے ہیں)  مشہور سوئس کمپنی روش ڈائگناسٹک فراہم کرتی ہے۔

متحدہ عرب امارات کے فیصلے سے پاکستانی مسافر مشکلات کا شکار نظر آتے ہیں (فوٹو: اے ایف پی)

روش اپنی کٹس اور سروسز پاکستان کے مشہور اور بڑے نام کے ہسپتالوں جیسے شوکت خانم، شفا انٹرنیشنل اور آغا خان وغیرہ کو فراہم کرتی ہے مگر اس کے لیے 'کلاس ٹو' ٹائپ کی لیبارٹری کا ہونا ضروری ہے۔
روش اپنی سہولیات فراہم کرنے سے پہلے جائزہ لیتی ہے کہ لیبارٹری انفیکشن کنٹرول اور دیگر تقاضے کس حد تک پورا کرتی ہے۔ اس پر کروڑوں روپے کا خرچ آتا ہے۔ اس بات کے امکانات بہت کم ہیں کہ اس طرح کی کمپنی ایئرپورٹ پر راتوں رات اپنی سہولیات فراہم کرنے پر راضی ہو جائے۔
دوسری طرف دنیا بھر میں طلب کے باعث اس طرح کی لیبارٹری کے سازوسامان کی بھی قلت ہے اور فوری ڈیمانڈ پر دستیابی مشکل ہے۔اس لیے ماہرین کے مطابق ایئرپورٹ پر لیبارٹری کے ذریعے متحدہ عرب امارات جانے والے مسافروں کے مسئلے کا حل خاصا مشکل نظر آتا ہے۔

ماہرین کا کہنا ہے ایئرپورٹس پر نئی لیبارٹری کا فوری قیام بہت مشکل ہے (فوٹو: اے ایف پی)

ٹیسٹ کی رپورٹ کتنی دیر میں دستیاب ہو سکتی ہے؟

روش کمپنی کا دعویٰ ہے کہ وہ پاکستان میں سب سے کم وقت میں کورونا کے ٹیسٹ کا نتیجہ فراہم کرتی ہے جو کم سے کم بھی چار سے پانچ گھنٹے کا وقت ہے۔
دیگر لیبارٹریز 24 گھنٹے سے 72 گھنٹے تک کا وقت لیتی ہیں۔ سول ایوی ایشن کے ماہرین کے مطابق ایئرپورٹ پر اس طرح کی لیبارٹری بنانا جس کے ٹیسٹ کی رپورٹ میں کئی گھنٹے لگتے ہوں ایک قابل عمل حل نظر نہیں آتا۔
 کیا مسافر ٹیسٹ کی رپورٹ کے لیے ایئرپورٹ پر گھنٹوں اور دنوں کا انتظار کر سکتے ہیں؟ اتنی دیر تک ان مسافروں کو جن میں کئی کورونا کے مشکوک کیسز بھی ہو سکتے ہیں کہاں بٹھایا جائے گا؟ پھر ایسے مسافر کیا ٹکٹ خرید کر انتظار کریں گے یا صرف ریزرو کروا کر؟

ترجمان وزارت صحت کے مطابق لیب کا فیصلہ این سی او سی نے کرنا ہے (فوٹو: اے ایف پی)

متبادل حل کیا ہو سکتا ہے؟

ماہرین کے مطابق جس طرح متحدہ عرب امارات کی سب سے بڑی کمپنی  ایمرٹس ایئرلائن کی جانب سے پاکستان کی چغتائی لیب کے ساتھ کورونا کے ٹیسٹ کا معاہدہ کیا جا رہا ہے اسی طرح دیگر ایئرلائنوں کو بھی ایسا حل ڈھونڈنا ہوگا جس کے تحت مسافر اپنا کورونا ٹیسٹ 72 یا 96 گھنٹے قبل کروا لے اور اس کی رپورٹ دیکھ کر اسے جہاز میں سوار ہونے کی اجازت مل جائے۔
ماہرین کے مطابق حکومت کو اس سے قبل ہی بیرون ملک جانے والے ہر مسافر کے لیے یہ نظام متعارف کروا دینا چاہیے تھا تاکہ پاکستان پر اس طرح کی پابندی کی نوبت ہی نہ آتی۔

شیئر: