Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

سعودی عرب سے ڈی پورٹ ہونے پر’بلیک لسٹ‘ کب تک؟

بعض اوقات دس برس کے لیے بھی بے دخل کیا جاتا ہے (فوٹو: سبق نیوز)
قارئین اردو نیوز کی جانب سے مختلف موضوعات پر سوالات ارسال کیے جا رہے ہیں۔ زیر نظر قسط میں جیل اور قیدیوں کے حوالے سے دریافت کیا گیا ہے ۔ سعودی عرب کے قانون کے مطابق کن افراد کو بلیک لسٹ کیا جاتا ہے اور کتنی مدت کے لیے مملکت میں ان کے دوبارہ آنے پر پابندی ہوتی ہے اس حوالے سے بعض لوگوں نے استفسارکیا ہے۔
محمد بلال دریافت کرتے ہیں کہ ’2018 کے آخر میں جیل کے ذریعے سعودی عرب سے ڈی پورٹ ہوا ، اب دوبارہ سعودی عرب جانا چاہتا ہوں، واپسی کا طریقہ کیا ہے، کیا جانا ممکن ہے یا نہیں؟

اقامہ قوانین کے تحت ڈی پورٹ ہونے پر3 برس کے لیے بے دخلی ہوتی ہے (فوٹو: سبق نیوز)

جواب: سعودی عرب میں اقامہ قوانین واضح ہیں۔ اس بارے میں متعدد باراردو نیوز میں تفصیلی مضامین شائع کیے جا چکے ہیں تاہم جہاں تک آپ کے سوال کا تعلق ہے تو بات واضح نہیں ہے کیونکہ آپ نے ذکر کیا ہے کہ جیل کے ذریعے ڈی پورٹ کیے گئے ہیں اس سے یہ سمجھ آرہا ہے کہ آپ غیر قانونی طور پر مقیم تھے۔
یہاں بے دخلی کے قانون کی تھوڑی وضاحت کی ضرورت ہے کیونکہ اقامہ قوانین کے تحت جو افراد گرفتار ہوتے ہیں اور ان سے کوئی دوسرا جرم سرزد نہیں ہوا ہوتا تو ان کے لیے بلیک لسٹ کی مدت 3 برس ہے۔ مذکورہ مدت گزرنے کے بعد دوبارہ واپس آیا جا سکتا ہے تاہم یہ سزا مختلف بھی ہوسکتی ہے کیونکہ خلاف  ورزی کی نوعیت پر مبنی ہے اور تحقیقاتی افسر کی جانب سے سزا کے حوالے سے کیا نوٹ لکھا گیا ہے۔
اگر آپ کو صرف اقامہ قوانین کی خلاف ورزی پر سزا کے طور پر ڈی پورٹ کیا گیا ہے تو مندرجہ بالا مدت کے بعد واپس آیا جا سکتا ہے تاہم اگر معاملہ مختلف ہو اور کسی نوعیت کی خلاف ورزی بھی ریکارڈ کی گئی ہو اس صورت میں تحقیقاتی آفسر کی سفارش پر آپ پر جرمانہ اور بلیک لسٹ کی مدت کا بھی تعین کیا جاتا ہے۔ یہ اس کی رپورٹ پر منحصر ہوگا جس کے بارے میں آپ کو ڈی پورٹ کرتے وقت بتایا گیا ہوگا کہ اتنی مدت تک آپ کسی ویزے پر مملکت نہیں آسکتے۔
 سعودی عرب میں قانون کے مطابق ایسے افراد جو کسی جرم میں ملوث ہوتے ہیں ان کی سزا عدالت سے جاری ہوتی جس میں قید اور جرمانہ بھی ہوتا ہے تو وہ افراد اپنی سزا پوری کرنے کے بعد ہی ڈی پورٹ ہوتے ہیں۔ اس بارے میں بھی انہیں ڈی پورٹ کرتے وقت اس امر سے مطلع کیا جاتا ہے۔
قانون محنت اور اقامہ قوانین کی خلاف ورزی درج ہونے کی صورت میں مقررہ سزا مختلف ہوتی ہے جو تحقیقاتی افسر کی صوابدید پر منحصر ہے کہ کیس کس نوعیت کا درج کیا گیا اور خلاف ورزی کس نوعیت کی تھی۔
بعض حالات میں 5 سے دس برس کے لیے بھی بلیک لسٹ کیا جاتا ہے۔ اس مدت کے دوران سزا یافتہ شخص کسی بھی ویزے پر دوبارہ مملکت نہیں آسکتا۔ اگر ایسے افراد کسی طرح دوبارہ مملکت آنے کی کوشش کرتے ہیں تو انہیں ایئرپورٹ سے ہی دوبارہ ڈی پورٹ کردیا جاتا ہے۔

جرم کی نوعیت کے مطابق بلیک لسٹ کی مدت متعین کی جاتی ہے (فوٹو: ٹوئٹر) 

عبدالاحد کا سوال ہے کہ میں کسی اور شخص کی کفالت میں مملکت آیا تھا، ویزہ لیتے وقت ایجنٹ نے یہی کہا تھا کہ ’آزاد ویزہ‘ ہو گا جہاں مرضی آئے کام کرنا مگر یہاں آکر حقیقت معلوم ہوئی، روزی کمانے کے لیے ایک دکان پر ملازمت ملی کام چل رہا تھا کہ اچانک ایک دن چیکنگ میں آگیا اور ترحیل ’ڈی پورٹیشن سینٹر ‘ بھیج دیا گیا، وہاں فنگر پرنٹ کرنے کے بعد مجھے ڈی پورٹ کردیا گیا، مجھے واپس آئے ہوئے 5 برس ہو چکے ہیں، کیا کورونا کے حالات درست ہونے کے بعد دوبارہ آسکتا ہوں؟
جواب: موجودہ صورت حال میں جب تک کورونا وائرس کی وبا برقرار ہے یہ نہیں کہا جا سکتا کہ بیرون ملک سے کب تک پروازیں بحال ہوں گی ۔ تاہم جہاں تک آپ کے سوال کا تعلق ہے تو اس سے یہ ظاہر ہوتا ہے کہ آپ کو اقامہ قوانین کی خلاف ورزی پر ہی ڈی پورٹ کیا گیا ہے جس کی سزا 3 برس ہوتی ہے۔ آپ کو گئے ہوئے 5 برس ہو چکے، جوں ہی حالات بہتر ہوں دوبارہ آسکتے ہیں۔

شیئر: