Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

قربانی کے جانور میں کون سی خصوصیات ہونی چاہییں؟

عیدالاضحیٰ کے موقع پر بیشتر مسلمان سنت ابراہیمی کی ادائیگی کے لیے جانوروں کی قربانی کرتے ہیں۔
عید سے چند دن پہلے جانورخریدنا، اس کو کچھ دن ساتھ رکھنا اور پھر عید پر اس کو ذبح کر کے قربان کرنا، اس کا گوشت بانٹنا اور اس سے خود مزے مزے کے کھانے بنا کر کھانا، عید الاضحٰی کا ایک ایسا جزو ہے جس میں چھوٹے اور بڑے بہت شوق سے شریک ہوتے ہیں۔
قربانی کا جانور خریدنے کے لیے ہر کسی کی پسند بھی الگ الگ ہوتی ہے، کسی کو کالا بکرا پسند ہوتا ہے تو کسی کو سفید، کوئی بڑا بیل پسند کرتا ہے اور کوئی اونٹ۔ یہی وجہ ہے کہ جانور کی خریداری کے وقت اہل خانہ میں اس کی خصوصیات کے متعلق بہت بحث ہوتی ہے۔
ایسے میں جانور خریدنے کے لیے ایک تو اس کی شرعی خصوصیات مدنظر رکھنا پڑتی ہیں یعنی کہ اس میں کسی قسم کا کھوٹ نہ ہو، اس کی عمر پوری ہو، لنگڑا یا اس کا کوئی عضو کٹا ہوا نہ ہو اور صحت مند ہو۔ اور دوسرا تمام گھر والوں کی پسند کا خیال رکھنا پڑتا ہے کہ اس میں تمام ایسی خصوصیات موجود ہوں جن پر گھر کا ہر فرد متفق ہو جائے۔
شرعی خصوصیات تو تقریباً ہر جانور میں موجود ہوتی ہیں لیکن تمام اہل خانہ کو پسند آ جانے والا جانور ڈھونڈنا خاصا مشکل کام ہے۔
اردو نیوز نے مختلف شعبہ حیات کے لوگوں سے قربانی کے جانور میں ان کی پسندیدہ خصوصیات کے حوالے سے گفتگو کی تو معلوم ہوا کہ بچے کسی بھی طور قربانی کے جانور میں اپنی پسندیدہ خصوصیات پر سمجھوتہ نہیں کرتے۔
 زیادہ تر بچے سفید یا کالے بکروں کی قربانی کرنا چاہتے ہیں جو قد کاٹھ میں اونچے اور اچھے خاصے صحت مند ہوں، لیکن مارنے والے بالکل نہ ہوں بلکہ اتنے معصوم ہوں کہ ان کے ساتھ کھیلا بھی جا سکے۔
تاجر عارف حسین نے ’اردو نیوز‘ کو بتایا کہ وہ ایک ایسے بیل کی تلاش میں ہیں جو انتہائی شریف ہو اور رنگ کا کالا ہو۔ 
' بچوں کی فرمائش ہے کہ اگر بیل ہی لانا ہے تو اس کا رنگ سیاہ ہو اور وہ مارتا بالکل نہ ہو۔'

 زیادہ تر بچے سفید یا کالے بکروں کی قربانی کرنا چاہتے ہیں جو قد کاٹھ میں اونچے اور صحت مند ہوں۔ (فوٹو: اے ایف پی)

سرکاری ملازم محمد عامر قربانی کے لیے ایسا بکرا ڈھونڈ رہے ہیں جو صحت مند ہونے کے ساتھ ساتھ ہر پہلو سے خوبصورت بھی ہو۔
بڑے تو جانور لیتے وقت اس کی خصوصیات کے ساتھ قیمت بھی دیکھتے ہیں اور کم سے کم نرخ ادا کرنا چاہتے ہیں لیکن بچے کسی بھی صورت اپنی پسند قربان کرنے پر تیار نہیں ہیں۔
لاہور سے تعلق رکھنے والے ریان شاہد اور منہا شاہد نے گزشتہ سال اپنے بابا سے ضد کرکے بھیڑ لی تھی لیکن اس بھیڑ نے ریان شاہد کو ٹکر مار دی تھی جس کا دکھ انھیں اب بھی ہے۔
اردو نیوز سے گفتگو میں ریان نے کہا کہ ’میں نے تو اس کو لاڈ پیار سے بلایا تھا لیکن اس نے مجھے زور سے مارا اس لیے اب کی بار بابا سے فرمائش کی ہے کہ سفید رنگ کا بکرا لینا ہے جس میں بھورے رنگ کے دھبے ہوں۔‘
'بابا کہتے ہیں کورونا ہے تو اس بار بیل میں حصہ ڈال لیتے ہیں لیکن میں نے ان کے آگے ہاتھ جوڑ دیے کہ نہیں بابا بکرا ہی لے کر آنا ہے۔‘
منہا شاہد بھی اپنے بھائی کی ہمنوا ہیں۔ کہتی ہیں کہ ’میں نے ایک دن خواب میں دیکھا تھا کہ ایک سفید رنگ کا بکرا میرے پیچھے پیچھے آ رہا تھا اسی دن بابا سے کہا تھا کہ اس دفعہ قربانی پر سفید بکرا ہی لینا ہے۔ ماما کہتی ہیں عید سے ایک ہفتہ قبل بکرا لائیں گے۔ میں نے ان سے کہا ہے کہ میں احتیاط کے ساتھ اس کا پورا خیال رکھوں گی اور اسے کھانا بھی کھلاؤں گی۔‘

محمد عامر قربانی کے لیے ایسا بکرا ڈھونڈ رہے ہیں جو ہر پہلو سے خوبصورت ہو۔ (فوٹو: اے ایف پی)

راولپنڈی کی رہائشی آمنہ یوسف کا کہنا ہے کہ ’مجھے بکرے پسند ہیں، میرے بکرے کا قد اونچا لمبا ہونا چاہیے۔ وہ صحت مند نظر آئے اور اس کا رنگ کالا یا پھر سفید ہو۔‘
عبداللہ کہتے ہیں کہ ’میں بھی عید پر بکرے کی قربانی کرنا چاہتا ہوں لیکن وہ سفید رنگ کا 'کیوٹ بکرا' ہونا چاہیے جس سے میں کھیل سکوں۔‘
ایک نجی ادارے کے ملازم معراج دین کے مطابق اگر بچوں کے پسندیدہ جانور کی قیمت ادا نہ کر سکیں تو وہ یہ کمی خریدے گئے جانور کی سجاوٹ اور اس کو آرائشی چیزیں پہنا کر پوری کرتے ہیں۔
’بچوں کی پسند کے سامنے ہتھیار ڈالنے پڑتے ہیں لیکن اس وقت حالات اور اپنی جیب کو دیکھ کر ہی فیصلہ کریں گے البتہ بچوں کے ساتھ مل کر جانور کو سجانا لازمی ہے۔‘

شیئر: