Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

غلافِ کعبہ کی تاریخ کیا ہے؟

 نو ذو الحجہ کو غلاف کعبہ بعد نماز فجر تبدیل کیا جاتا ہے (فوٹو ایس پی اے)
گورنر مکہ شہزادہ خالد الفیصل نے شاہ سلمان بن عبدالعزیز کی نیابت کرتے ہوئے غلاف کعبہ (کسوہ) کو کعبے کے کلید بردار کے حوالے کیا ہے۔
یاد رہے کہ نو ذو الحجہ کو غلاف کعبہ بعد از نماز فجر تبدیل کیا جاتا ہے جب عازمین حج میدان عرفات میں ہوتے ہیں۔
 اس سے پہلے حرمین شریفین کی جنرل پریذیڈنسی کی طرف سےغلاف کعبہ کو تین میٹر اوپر اٹھایا گیا اور اٹھائے جانے والے حصے پر سفید کپڑا چڑھایا گیا (جو چاروں طرف سے تقریباً دو میٹر چوڑا ہے)۔

غلاف کعبہ کو تین میٹر اوپر اٹھایا اور سفید کپڑا چڑھایا جاتا ہے (فوٹو ایس پی اے)

یہ اقدام حج کے موقع پرغلاف کعبہ کو صاف رکھنے، اس کی حفاظت اور کسی بھی قسم کے نقصان سے بچانے کے لیے کیا جاتا ہے۔
غلاف کعبہ کا رنگ مختلف ادوار میں تبدیل کیا جاتا رہا ہے۔
پیغمبر اسلام نے غلاف کعبہ کے لیے سفید اور سرخ دھاریوں کا یمنی کپڑا استعمال کیا تھا۔
عباسی دور میں غلاف کعبہ کے لیے ایک بار سرخ اور ایک بار سفید کپڑے کا استعمال کیا گیا، تاہم سلجوقی سلطان نے غلاف کعبہ زرد رنگ کے کمخواب سے بنوایا۔

غلاف کعبہ  کا رنگ مختلف ادوار میں تبدیل کیا جاتا رہا ہے ( فوٹو ایس پی اے)

عباسی خلیفہ الناصر نے پہلے سبز اور پھر سیاہ کمخواب کے ساتھ غلاف کعبہ تبدیل کیا اور یہی سیاہ رنگ آج تک چلا آ رہا ہے۔
 سینٹر آف مکہ ہسٹری کے ڈائریکٹر ڈاکٹر فواز الدہاس نے عرب نیوز کو بتایا کہ ’غلاف کعبہ کے لیے ایک بار سفید، ایک بار سرخ اور ایک مرتبہ سیاہ رنگ استعمال کیا گیا۔ رنگوں کا انتخاب ہر دور کے مالی وسائل کے لحاظ سے رہا ہے۔‘
’ قبطی کپڑا مصر سے لایا گیا جو غلاف کعبہ کے لیے استعمال کیے جانے والے کپڑوں میں سے سب سے اچھی قسم کا تھا۔ اسی طرح یمنی غلاف کعبہ بھی اعلیٰ قسم کا کپڑا تھا جو اپنے دور میں بہت مشہور تھا‘۔

عباسی دورمیں غلاف کعبہ کے لیے سیاہ  رنگ کو حتمی طور پرمنتخب کیا گیا (فوٹو ایس پی اے)

مختلف ادوار میں غلاف کعبہ کے رنگ تبدیل کیے جانے کے حوالے سے فواز الدہاس نے بتایا کہ ’سفید ایک اجلا رنگ ہے، لیکن یہ دیرپا نہیں ہے۔ حاجیوں کے چھونے کی وجہ سے یہ اکثر میلا،  گندا اور پھٹنے لگتا تھا۔ یہ زیادہ دیر تک نہیں چل سکتا تھا۔ اس لیے اسے سیاہ اور سفید کمخواب اور شملہ کے ساتھ تبدیل کیا گیا جو عرب خیموں کے لیے استعمال کیا جاتا تھا۔‘
الدہاس نے مزید بتایا کہ ’مالی وسائل کی مناسبت سےغلاف کعبہ کا کپڑا تبدیل ہوتا رہا ہے۔‘
انہوں نے کہا کہ انسانوں کی سمجھ کے مطابق غلاف کعبہ کا ارتقا ہوتا رہا اور اسے سرخ کمخواب اور مصری کپڑے کے ساتھ تبدیل کیا گیا۔ اسی طرح ایک خاص قسم کا چمڑا اور کچھ سخت قسم کے کپڑے بھی اس مقصد کے لیے استعمال ہوئے۔
’خلافت راشدہ، اموی اور عباسی ادوار میں جب بھی کپڑا دستیاب ہوتا غلاف کعبہ وقتا فوقتا تبدیل ہوتا رہا‘۔

یمن کے بادشاہ تبع الحمیری نے پہلی مرتبہ خانہ کعبہ پر غلاف چڑھایا (فوٹو عرب نیوز)

عباسی دور کے آخر میں غلاف کعبہ کے لیے سیاہ رنگ کو حتمی طور پرمنتخب کیا گیا جو دیرپا تھا اور مختلف ثقافتوں سے تعلق رکھنے والے حاجیوں، زائرین اور لوگوں کی طرف سے چھوئے جانے کو برداشت کر سکتا تھا۔
 الدہاس نے بتایا کہ  غلاف کو خانہ کعبہ کے وسط تک اوپر اٹھایا جاتا ہے تاکہ اسے محفوظ اور لوگوں کو چھونے سے روکا جا سکے۔
تاریخی کتب میں دستیاب معلومات کے مطابق یمن کے بادشاہ تبع الحمیری وہ پہلی شخصیت تھے جنہوں نے خانہ کعبہ پر غلاف چڑھایا۔ انہوں یہ کام اسلام کے دور سے قبل کیا بعدازاں وہ  مکہ آئے اوراطاعت کے ساتھ داخل ہوئے۔
بعض تاریخ دانوں نے یہ تذکرہ بھی کیا ہے کہ الحمیری نے کعبہ کو پہلے موٹے کپڑے سے، جس کو الخصف کہا جاتا تھا، اور بعد ازاں ’معافر‘ سے ڈھانپا۔ معافر یمن کے ایک پرانے شہر کا نام تھا جہاں یہ کپڑا تیار ہوا تھا۔

بعد ازاں غلاف کعبہ کے لیے الوصائل نامی سرخ دھاری دار یمنی کپڑے کا استعما ل کیا گیا.

اس کے بعد انہوں نے الملا استعمال کیا جو ایک نرم اور باریک کپڑا تھا اس کو ربطہ کے نام سے بھی جانا جاتا تھا۔
اسی طرح بعد ازاں غلاف کعبہ کے لیے الوصائل نامی سرخ دھاری دار یمنی کپڑے کا استعما ل کیا گیا۔
الحمیری کے جانشینوں نے بھی اس عمل کو اپنا مذہبی فرض اور عزت جانا اور قبل از اسلام دور میں غلاف کعبہ کے لیے چمڑے اور قبطی کپڑے کو استعمال کیا۔
 کچھ تاریخ دانوں نے اس امر کی نشاندہی بھی کی ہے کہ خلاف کعبہ تہہ دار تھا جسے ضرورت کے مطابق ہٹایا، سمیٹا اور پھیلایا جا سکتا تھا۔
تاریخ دان اس امر کی تصدیق کرتے ہیں کہ اسلام کی آمد کے بعد خانہ کعبہ پر قطبی کپڑے سے بنا ہوا غلاف چڑھایا گیا جو مصر میں تیار ہونے والا ایک باریک سفید کپڑا تھا۔

اسلام کی آمد کے بعد خانہ کعبہ پر قطبی کپڑے سے بنا ہوا غلاف چڑھایا گیا (فوٹو عرب نیوز)

ایسے حوالے بھی ہیں کہ فتح مکہ کے بعد پیغمبر اسلام  نے مشرکین کے دور میں استعمال ہونے والے غلاف کعبہ کو اس وقت تک نہیں ہٹایا جب تک ایک عورت، جو غلاف کعبہ کو معطر کرنے کے لیے دھونی دے رہی تھی، جس سے کپڑے میں آگ لگ گئی۔ اس واقعے کے بعد خانہ کعبہ پر یمنی کپڑے کا غلاف چڑھایا گیا۔
اس کے بعد مسلم بادشاہوں نے خانہ کعبہ کا خیال رکھنے اورغلاف کعبہ کی ذمہ داری سنبھال لی۔
سعودی دور میں غلاف کعبہ پر بھرپور توجہ دی گئی۔ مصر میں قائم اسلامی ریاست نے صدیوں تک غلاف کعبہ بھجوایا۔
سعودی عرب کے بانی شاہ عبدالعزیز نے غلاف کعبہ کی تیاری کے لیے مسجد الحرام کے قریب واقع اجیاد میں خصوصی فیکڑی قائم کرنے کی ہدایات جاری کیں۔
یہ پہلی فیکڑی تھی جسے حجاز میں غلاف کعبہ  تیار کرنے کی ذمہ داری سونپی گئی۔

شاہ عبدالعزیز نے غلاف کعبہ کی تیاری کے لیے خصوصی فیکڑی قائم کی ( فوٹو سوشل میڈیا)

یہ پہلی فیکٹری تھی جہاں مکہ میں پہلا غلاف کعبہ تیار کیا گیا بعدازاں اس فیکڑی کو نئے مقام ام الجود منتقل کیا گیا۔ یہ فیکڑی جدید آلات سے لیس تھی۔
شاہ سلمان نےغلاف کعبہ  فیکٹری کے نام کی تبدیلی کے حوالے سے شاہی فرمان جاری کیا اور اس کا نام کنگ عبدالعزیز کمپلیکس برائے کسوہ (غلاف کعبہ ) رکھا گیا۔
کنگ عبدالعزیز کمپلیکس برائے کسوہ  میں ڈی سیلینیشن کا ایک اہم شعبہ ہے جو پانی کی صفائی کا ذمہ دار ہے جو ریشم کی ساخت اور معیار میں بھی نظر آتا ہے۔ ریشم کو دھونے اور رنگنے کے کام میں استعمال ہونے والے پانی کی صفائی بھی یہی شعبہ کرتا ہے۔
رنگنے کا کام ریشم کے دھاگوں پر لگی مومی تہہ کو ہٹانے کے بعد شروع ہوتا ہے۔ اس کے بعد ریشم کو سیاہ اور سبز رنگوں میں رنگا جاتا ہے جس کے لیے بڑے بڑے ٹب اور دوسری مشینری استعمال ہوتی ہے جن میں بڑی احتیاط سے ناپ تول کر کیمیکلز ڈالے جاتے ہیں تاکہ رنگ کو مطلوبہ استحکام مل سکے۔

غلاف کے لیے670  کلو گرام خالص ریشم کی ضرورت ہوتی ہے۔ (فوٹو عرب نیوز)

غلاف کعبہ کا اندرونی کپڑا بھی دھویا جاتا ہے اور پھر ریشم کے بیرونی حصے کو سیاہ اور اندرونی کو سبز رنگ دیا جاتا ہے۔ ہر غلاف کے لیے 670  کلو گرام خالص ریشم کی ضرورت ہوتی ہے۔
ریشم اور سوتی دھاگوں کا معیار برقرار رکھنے اور موسمی اثرات کا مقابلہ کرنے کے لیے ان کے متعدد ٹیسٹ کیے جاتے ہیں۔
چاندی میں لپٹے دھاگوں کو جانچنے کے لیے بھی مختلف ٹیسٹوں سے گزارا جاتا ہے تاکہ ان کے معیار اور استحکام کو یقینی بنایا جا سکے۔
کپڑے کی تیاری کے حوالے سے کمپلیکس میں جدید جیکوارڈ مشینیں موجود ہیں۔
یہ مشینیں قرآنی آیات کی کڑھائی، آیات اور دعاؤں کے لیے کالا ریشم تیار کرتی ہیں جبکہ سادہ ریشم بھی بناتی ہیں جن پر آیات پرنٹ کی جاتی ہیں اسی طرح چاندی اور سونے کے دھاگوں سے کشیدہ کاری بھی کی جاتی ہے۔


ریشم اور سوتی دھاگوں کا معیار برقرار رکھنے کے لیے متعدد ٹیسٹ کیے جاتے ہیں۔ (فوٹو ایس پی اے)

یہ مشینیں غلاف کعبہ کی ریکارڈ وقت میں تیاری کے لیے فی میٹر نو ہزار 986 دھاگے استعمال کرتی ہیں۔
پرنٹنگ کے شعبے میں کام غلاف کعبہ کی پٹی پر آیات کی پرنٹنگ سے شروع ہوتا ہے۔ 
سادہ ریشم کو سب سے اوپر لگایا جاتا ہے۔ کارکن قرآنی آیات کی پرنٹنگ کے لیے سلک سکرین، سفید اور زرد روشنائی استعال کرتے ہیں۔
کمپلکس کا بیلٹ ڈیپارٹمنٹ سونے اور چاندی سے ہونے والی کشیدہ کاری کے معاملات دیکھتا ہے۔
اس عمل میں سوتی اور دوسرے دھاگوں کو استعمال کر کے کپڑے پر پرنٹنگ کی جاتی ہے۔ اس دوران کارکن مسلسل متحرک رہتے ہیں اور ضروری ٹانکے لگاتے ہیں۔
 غلاف کعبہ کی پٹی، جس پر قرآنی آیات لکھی ہوتی ہیں، کے لیے 16 ٹکڑے تیار کیے جاتے ہیں جبکہ مختلف سائز کے چھ ٹکڑے پٹی کے نیچے اور چار مضبوط ٹکڑے کعبہ کے چاروں کونوں کے لیے بنتے ہیں۔ اسی طرح دیگر حصوں میں 12 مشعلیں پٹی کے نیچے، پانچ ٹکڑے حجر اسود کے اوپر اور کعبہ کے دروازے کا پردہ بھی شامل ہے۔

شیئر: