Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

’حج قسمت میں نہ تھا، کیوں نہ ضرورت مندوں کے کام آئیں‘

ہر سال بیس لاکھ سے زیادہ افراد حج ادا کرتے ہیں (فوٹو: اے ایف پی)
کورونا وائرس کی عالمی وبا کے بعد دنیا بھر میں تقریبات اور سرگرمیوں کا منسوخ ہونا لوگوں کے لیے مایوسی کا باعث بنا رہا۔ ان میں وہ لاکھوں مسلمان بھی شامل ہیں جو عرصے سے حج پر جانے کا ارادہ کر رہے تھے اور اس سال انہیں اپنی یہ خواہش پوری ہوتی دکھائی دے رہی تھی۔ 
کورونا کے پھیلاؤ پر قابو پانے کے لیے سعودی وزارت برائے حج و عمرہ نے جون میں ہی اعلان کر دیا تھا کہ اس سال عازمین حج کی تعداد محدود رکھی جائے گی۔ سعودی حکومت کے اس فیصلے کے باعث تمام مسلمان ممالک کو حج کے لیے کیے گئے اقدامات منسوخ کرنا پڑے۔ 
حالیہ اعداد و شمار کے مطابق دنیا بھر سے بیس لاکھ سے زیادہ افراد فریضہ حج ادا کرتے ہیں، تاہم رواں سال صرف چند ہزار افراد ہی حج ادا کر سکیں گے، وہ بھی جو سعودی عرب میں رہائش پذیر ہیں۔ ان میں 70 فیصد غیر ملکی جبکہ 30 فیصد سعودی شہری شامل ہوں گے۔
متعدد سعودی شہری جن کو اکثر اسلام کا یہ فرض ادا کرنے کا موقع مل جاتا تھا وہ اس سال حج سے محروم رہ جائیں گے۔
سعودی مصنف وفا شاہین نے عرب نیوز سے بات کرتے ہوئے بتایا کہ وہ انتہائی شکر گزار ہیں کہ انہیں 22 مرتبہ حج ادا کرنے کا موقع ملا ہے۔
انہوں نے کہا کہ وہ سعودی حکومت کے حج کے اس فیصلے سے قطعاً ناراض نہیں ہیں کیونکہ عبادت اور اچھے اعمال کبھی بھی اور کہیں بھی کیے جا سکتے ہیں۔
وفا شاہین کا کہنا تھا کہ لوگوں کی صحت کو مدنظر رکھتے ہوئے سعودی حکومت نے سمجھدارانہ فیصلہ کیا ہے کہ اس سال محدود لوگوں کو حج ادا کرنے کی اجازت دی ہے۔

رواں برس صرف سعودی عرب کے رہائشی ہی حج ادا کر سکیں گے (فوٹو: اے ایف پی)

انجینئرنگ کے شعبے سے منسلک سعودی شہری عبدالرحمان عبدالخالق پچھلے دس برسوں سے حاجیوں کی خدمت کے لیے رضا کار کے طور پر فرائض انجام دے رہے ہیں۔ انہوں نے عرب نیوز سے اپنے خیالات کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ وہ سوچ بھی نہیں سکتے کہ اس سال وہ حج کے موقع پر مسجدالحرام میں موجود نہیں ہوں گے۔
’اس سال حج کا انعقاد ایک چیلنج ہے، آئندہ برسوں میں ہم اس تجربے سے بہیت کچھ سیکھیں گے۔‘ 
اس سال پاکستان سے ایک لاکھ 79 ہزار 210 عازمین حج نے سعودی عرب جانا تھا۔
52 سالہ ثنااللہ خان کا شمار بھی ان بیشتر پاکستانیوں میں سے ہے جو حج کا فریضہ ادا کرنے سے محروم رہ گئے ہیں۔
’جس دن مجھے بینک سے فون آیا کہ حج کے لیے جمع کروائی گئی رقم واپس لے لیں، مجھے لگا جیسے آسمان گر گیا ہو۔‘
وزیرستان کے رہائشی ثنا اللہ خان نے حج کی غرض سے 4 لاکھ 63 ہزار روپے جمع کروائے تھے۔

 حج کی ادائیگی سے پہلے خود کو قرنطینہ کرنا لازمی ہے (فوٹو: اے ایف پی)

ثنااللہ خان کے ساتھ پیش آنے والے واقعے کی خبر جلد ہی ان کے محلے اور رشتہ داروں میں پھیل گئی جس کے بعد ان کے گھر پر لوگوں کا تانتا بندھ گیا۔ جو بھی ان سے ملتا وہ افسوس کرنے کے ساتھ ان کی خواہش پوری ہونے کی دعا بھی دے کر جاتا۔
گذشتہ سال بھی ثنا اللہ خان حج پر جانے کے لیے تیار تھے لیکن آخری وقت پر انہوں نے اپنی درخواست واپس لے لی تاکہ ان کے بیمار بھائی یہ فرض ادا کر سکیں۔
ایسے بھی لوگ ہیں جو حج کے لیے جمع کی گئی رقم کو فلاحی کاموں کے لیے استعمال کر رہے ہیں۔ افغانستان کے صوبہ لوگر کے رہائشی تاج الدین نے عرب نیوز کو بتایا کہ شاید حج ادا کرنا ان کی قسمت میں ہی نہیں تھا تو انہوں نے سوچا کیوں نہ اس جمع کی ہوئی رقم سے ضرورت مندوں کی مدد کی جائے، اس کا اجر بھی تو حج ادا کرنے کے برابر ہی ہے۔
سعودی محکمہ شماریات کے مطابق گزشتہ سال سعودی عرب نے 24 لاکھ 89 ہزار 406 عازمین حج کی میزبانی کی تھی۔ ان میں سے 18 لاکھ 55 ہزار 27 افراد کا تعلق دیگر ممالک سے تھا جبکہ 6 لاکھ 34 ہزار 379 سعودی عرب کے شہری تھے۔

شیئر: