Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

خانہ کعبہ کے نگران، تاریخ کے آئینے میں

خانہ کعبہ کی دیکھ بھال کی ذمہ داری اور نگرانی کا اعزاز 110 افراد کو حاصل ہے (فوٹو: عرب نیوز)
بدھ کے روز 150 سے زائد تکنیکی ماہرین اور کاریگروں نے مکہ میں کعبے کے پرانے غلاف کو تبدیل کر کے نیا غلاف چڑھایا۔
عرب نیوز کے مطابق گورنر مکہ شہزادہ خالد الفیصل نے فرمانروا شاہ سلمان کی طرف سے گذشتہ ہفتے غلاف، کعبہ کے سینیئر نگران صالح بن زین العابدین الشیبی کے حوالے کیا تھا۔
اس غلاف کو شاہ عبدالعزیز کمپلیکس مکہ میں تیار کیا جاتا ہے۔ غلاف کا کپڑا ایک مخصوص قسم کے قدرتی ریشم سے تیار کیا جاتا ہے اور پھر اسے سیاہ رنگ میں رنگ دیا جاتا ہے۔
کعبے کے غلاف کی لمبائی 14 میٹر ہوتی ہے۔ اس کا اوُپری تہائی حصہ ایک پٹی کی مانند ہوتا ہے، یہ حصہ 16 مربع شکل کے ٹکڑوں پر مشتمل ہوتا ہے اور ان کے اردگرد قرآنی آیات کندہ ہوتی ہیں۔ اس پٹی کی چوڑائی 95 سینٹی میٹر اور لمبائی 47 میٹر ہوتی ہے۔
غلاف کعبہ کے چار ٹکڑے ہوتے ہیں، اور ہر ٹکڑا اس کے ایک حصے کی طرف موجود ہوتا ہے اور پانچواں حصہ اس کے دروازے کے اوپر ہوتا ہے۔
غلاف کعبہ کی تیاری کئی مراحل پر مشتمل ہوتی ہے۔
خانہ کعبہ کی دیکھ بھال کی ذمہ داری کا اعزاز حاصل کرنے والے نگرانوں یا منتظمین کی تعداد 110 ہے اور صدیوں پرانی روایت کا یہ سلسلہ نسل در نسل جاری ہے۔
کعبے کے نگران قبیلے بنی شیبہ کو 16 سو برس سے کعبہ کی کلید برداری (چابی رکھنے) کا اعزاز حاصل ہے۔
اسلام سے قبل قصی بن کلاب بن مراہ کی اولاد نے کعبہ کا انتظام سنبھالا، کعبہ کے موجودہ کلید بردار قبیلہ بنی شیبہ ان ہی کی اولاد میں سے ہے۔
پیغمبر اسلام نے فتح مکہ کے بعد کعبے کی چابی بنی شیبہ کے حوالے کی تھی۔

پیغمبر اسلام نے فتح مکہ کے بعد کعبے کی چابی بنی شیبہ کے حوالے کی تھی (فوٹو: عرب نیوز)

کعبے کا انتظام ایک تاریخی پیشہ ہے جس میں اسے کھولنا، بند کرنا، صاف کرنا اور دھونا شامل ہے اور اگر غلاف کو کوئی نقصان پہنچے تو اس کی مرمت کرانا بھی شامل ہے۔
کعبہ کو آبِ زم زم اور گلاب کے عرق سے دھویا جاتا ہے۔ اس کی چار دیواری کو خوشبودار پانی سے دھویا جاتا ہے اور پھر نماز ادا کی جاتی ہے۔
مسجد الحرام کے ایک نگران انس الشیبی نے عرب نیوز کو بتایا کہ 'ہمارے آباؤ اجداد قصی بن کلاب جو کہ پیغمبر اسلام کے بھی آباؤ اجداد میں سے تھے خانہ کعبہ کے انتظامات کے نگران تھے۔
'انہوں نے یہ ذمہ داری اپنے سب سے بڑے بیٹے عبدالدر کو سونپی اور انہوں نے یہ ذمہ داری آگے اپنے بچوں کو منتقل کر دی۔'
انہوں نے مزید بتایا کہ شروعات سے کعبہ کا انتظام ان کے قبیلے کے لیے اللہ کی عطا کردہ ایک نعمت ہے اور یہ اعزاز آخرت تک ان کے پاس رہے گا۔'

کعبے کی چابی عام چابیوں سے مختلف اور منفرد ہوتی ہے (فوٹو: عرب نیوز)

'کعبے کی چابیاں سینیئر نگران کے گھر پر سنبھال کر رکھی دی جاتی ہیں اور کعبہ کو کھولنے کے لیے ان چابیوں کو سونے اور سبز رنگ کے ریشم سے تیار کردہ ایک مخصوص بیگ میں منتقل کیا جاتا ہے۔'
الشیبی کا کہنا ہے کہ 'اس ذمہ داری کے لیے ضروری ہے کہ کعبہ کا کلید بردار (جس کے پاس کعبہ کی چابی ہوتی ہے) خاندان کا سربراہ ہو، ایماندار ہو اور اچھے اخلاق کا مالک ہو۔'
انہوں نے کہا کہ 'کعبہ کی چابی عام چابیوں سے مختلف ہوتی ہے اور اسے کعبہ کی مناسبت سے الگ اور منفرد ہونا بھی چاہیے۔'
'یہ ایک مخصوص اور انوکھے انداز میں تیار کی جاتی ہے تاکہ سوائے نگران کے کسی کو معلوم نہ ہو کہ اسے کیسے استعمال کیا جاتا ہے۔'
انہوں نے بتایا کہ 'سب سے پہلے یمن کے بادشاہ طوبیٰ نے کعبہ پر غلاف چڑھایا اور دنیا بھر سے لوگوں نے ان کی خوشنودی کے لیے ان سے ملاقات کی اور تحائف حاصل کیے۔'

کعبے کی چابیاں نگران کے گھر میں رکھی جاتی ہیں (فوٹو: اے ایف پی)

'قبیلہ قریش نے بادشاہ طوبیٰ سے کبھی ملاقات نہیں کی تھی، اور جب بادشاہ نے اس حوالے سے دریافت کیا تو انہیں کعبہ کے حوالے سے بتایا گیا، لہٰذا انہوں نے اپنی فوج کے ساتھ خفیہ طور پر مکہ کا سفر کیا اور اسے پھاڑ دیا۔'
الشیبی نے بتایا کہ 'بادشاہ کی جانب سے فوجی تیاریوں کے دوران انہیں کئی سنگین بیماریاں لاحق ہو گئیں، ان کی صحت یابی کے لیے بہت علاج معالجہ کیا گیا لیکن کوئی فائدہ نہ ہوا، بادشاہ کو بتایا گیا کہ یہ بیماریاں اللہ کی طرف سے آئی ہیں۔'
'ایک دانا شخص نے بادشاہ کو بتایا کہ ان کی خراب نیت کی وجہ سے ان کے ساتھ ایسا ہو رہا ہے اور وہ ایسا کرنے سے باز رہیں۔'
الشیبی نے بتایا کہ 'جب یمن کے بادشاہ نے اپنے منصوبے سے پیچھے ہٹنے کا فیصلہ کیا تو وہ معجزانہ طور پر بیماری سے صحت یاب ہو گئے۔'  
بادشاہ طوبیٰ نے اہلِ مکہ کے لیے بے شمار تحائف بھیجے اور وہ پہلے حکمران تھے جنہوں نے کعبہ کو مختلف رنگوں سے مزین کیا، حتیٰ کہ سعودی عرب کے بانی شاہ عبدالعزیز نے کسوہ فیکٹری قائم کی جہاں ہر سال کعبہ کے نگرانوں کو غلاف تیار کرنے کے لیے کپڑا بھیجا جاتا ہے۔

شیئر: