Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

سعودی خاتون انجینئر صنعتی شعبے میں صلاحیتیں آزما رہی ہیں

میرے والد انڈسٹریل انجینیئر تھے ان کے نقش قدم پر چلنا چاہتی ہوں۔(فوٹو عرب نیوز)
23 سالہ سعودی خاتون روان ابو خالد انجینئرنگ کے شعبے میں اپنی صلاحیتیں منوا رہی ہیں۔
عرب نیوز کے مطابق وہ ایک مینوفیکچرنگ پلانٹ پر ڈیجیٹل ٹرانسفارمیشن کنسلٹنٹ کی حیثیت سے کام کرنے والی واحد خاتون ہیں۔
 سعودی خاتون انجینئر کا کہنا ہے کہ متعدد مرد انجینئرز کے ساتھ کام کرتے ہوئے کسی بھی مشکل کا سامنا نہیں کرنا پڑتا۔

دفتر میں کام کرنے کے بجائے میدان کا چیلنج قبول کرتی ہوں۔(فوٹو لنکڈ ان)

روان نے  بتایا کہ وہ سعودی عرب کے صنعتی شعبے میں شامل ہونے والی پہلی خاتون انجینئر ہیں۔
’اس شعبے میں خواتین سعودی انجینئرز کی نمائندگی کرنا چاہتی ہوں تاکہ میرے ساتھ کام کرنے والے دوسرے لوگ یہ ضرور کہیں کہ ہمیں اس شعبے میں مزید خواتین انجینئرز کی خدمات کی ضرورت ہے۔‘
وہ یہ بات بخوبی جانتی ہیں کہ صنعت کے شعبے میں نہ صرف سعودی عرب بلکہ پوری دنیا میں مرد انجینئر کی اکثریت ہے۔

مرد انجینیئرز کے ساتھ کام کرتے ہوئے کسی مشکل کا سامنا نہیں کرنا پڑتا۔(فوٹو سوشل میڈیا)

انہوں نے بتایا کہ جب شروع میں انہیں امریکہ میں سافٹ ویئر ڈویلپر کی حیثیت سے پہلی ملازمت ملی تو وہ اس پوزیشن پر کام کرنے والی اکیلی خاتون تھیں۔
روان چاہتی ہیں کہ صنعت کے شعبے سے متعلق کمپنیوں میں ڈیجیٹل تبدیلیاں لے کر آئیں تا کہ کم لاگت سے پیداواری صلاحیتوں میں اضافہ کیا جا سکے۔
انہوں نے کہا کہ ’میں دفتر میں بیٹھ کر کام کرنے کے بجائے اپنی مہارت اور دماغی صلاحیتوں سے اس میدان میں آگے بڑھنے کا چیلنج قبول کرتی ہوں۔‘

ابتدائی تعلیم میں ہی فزکس اور ریاضی کو زیادہ پسند کرتی تھی(فوٹو عرب نیوز)

’اس شعبے سے متعلق لوگوں سے بات کرنا اور سیکھنا میرے لیے اہم ہے۔ اس سے میری تکنیکی اور  ذہنی صلاحیتوں کو مزید تقویت ملتی ہے۔‘
روان کا کہنا تھا کہ امریکی یونیورسٹی ورجینیا ٹیک میں انڈسٹریل سسٹم انجینئرنگ میں گریجوایشن کے دوران یہ سیکھ لیا تھا کہ اس شعبے میں خواتین کا آنا کتنا ضروری ہے اور وہ کیا کچھ کرنے کی صلاحیت رکھتی ہیں۔
انہوں نے دوران تعلیم سعودی سٹوڈنٹ کلب کی نائب صدر بننے کی مہم میں بھی حصہ لیا اور 80 سال میں اس عہدے کے لیے منتخب ہونے والی پہلی خاتون کا اعزاز حاصل کیا تھا۔

دوران تعلیم سعودی سٹوڈنٹ کلب کی نائب صدر بننے کی مہم میں حصہ لیا(فوٹو سوشل میڈیا)

روان نے مزید بتایا کہ ابتدائی تعلیم میں ہی وہ بیالوجی اور کیمسٹری سے زیادہ فزکس اور ریاضی کو پسند کرتی تھیں، یہی وجہ ہے کہ انہوں نے میڈیکل کے بجائے انجینئرنگ کا شعبہ اپنے لیے منتخب کیا۔
انہوں نے بتایا کہ ’میری موجودہ  ذمہ داریوں میں دو طرح کے کام ہیں ' ٹیکنالوجی اور لوگ' میں  ڈیجیٹل انجینئر میں مسئلے حل کرنے کے ساتھ ساتھ سوشل نیٹ ورک میں لوگوں سے رابطے رکھنا اور بات چیت کرنا پسند کرتی ہوں۔‘

میڈیکل کی بجائے انجینیئرنگ کا شعبہ اپنے لیےخود منتخب کیا۔ (فوٹو ٹوئٹر)

روان ابو خالد نے بتایا کہ’ بچپن سے ہی میرے والد نے ہر راستے میں میری پوری حمایت اور رہنمائی کی۔ میرے والد بھی انڈسٹریل انجینئر تھے۔ وہ ایک کثیرالقومی ادارے سے منسلک رہے۔ میں بھی ان کے نقش قدم پر چلنا چاہتی ہوں۔‘
 
 

شیئر: