Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

آرمی چیف کا دورہ اور پاک سعودی تعلقات

سعودی عرب، پاکستان کا ایک بڑا حامی تصور کیا جاتا ہے (فوٹو اے ایف پی)
پاکستانی فوج کے سربراہ جنرل قمر جاوید باجوہ رواں ہفتے کے اختتام پر  سعودی عرب جا  رہے ہیں۔ آئی ایس پی آر کے مطابق جنرل قمر جاوید باجوہ 16 اگست کو سعودی عرب میں ہوں گے اور وہاں اعلٰی حکام سے  ملاقاتیں کریں گے۔
اس دورے کے حوالے سے بات کرتے ہوئے ڈی جی آئی ایس پی آر میجرجنرل بابر افتخار نے کہا ہے کہ پاکستان اور سعودی تعلقات بہترین اور بہترین رہیں گے۔
پاکستان اور سعودی عرب کے تعلقات کا جائزہ لیا جائے تو یہ بات سامنے آتی ہے کہ سعودی عرب اور پاکستان کے مابین مضبوط برادرانہ تعلقات ہیں جو دونوں برادر ممالک کے عوام کو متحد کرتے ہیں، اور دونوں ممالک کی قیادتوں کے درمیان ایک پختہ مفاہمت اور مشترکہ مفاد کے امور کے لیے باہمی حمایت موجود ہے۔

 

 سعودی عرب، پاکستان کا ایک بڑا حامی تصور کیا جاتا ہے جس نے پاکستان کومختلف تاریخی مراحل میں بہت ساری معاشی اور ترقیاتی مدد فراہم کی ہے۔
 موجودہ وزیر اعظم عمران خان کے اقتدار میں آنے کے بعد جب پاکستان کا مالی خسارہ جی ڈی پی کے ساڑھے چھ فیصد تک پہنچا تو سعودی عرب نے پاکستان کو چھ ارب ڈالر کی امداد کا اعلان کیا۔
اس کے علاہ مملکت نے فروری 2019 میں سعودی ولی عہد کے دورہ اسلام آباد کے موقع پر اعلان کیا کہ سعودی عرب پاکستان میں مختلف شعبوں میں 20 بلین ڈالر کی سرمایہ کاری کرے گا۔
کشمیر کے حوالے سے سعودی حمایت
پچھلے دو سالوں میں کشمیر کے معاملے پر بھی سعودی عرب نے پاکستان کے اصولی موقف کی حمایت کی ہے۔ جب گذشتہ سال فروری میں ہندوستان اور پاکستان کے مابین کشیدگی بڑھی اورتو خادم حرمین شریفین شاہ سلمان بن عبد العزیز آل سعود نے اپنے وزیر خارجہ شہزادہ فیصل بن فرحان کو پاکستان کی حمایت اور اظہار یکجہتی کے لیے اسلام آباد روانہ کیا۔
چار مارچ 2019 کو اس وقت کے پاکستانی وزیراطلاعات فواد چوہدری نے اعلا ن کیا کہ سعودی عرب نے پاکستان اور بھارت کے مابین فوجی کشیدگی کم کرنے میں اہم کردار ادا کیا ہے۔ اپنے نے ٹیلیویژن بیانات میں انہوں نے کہا کہ سعودی عرب نے دیگر ممالک، جیسا کہ متحدہ عرب امارات اور امریکہ کو متحرک کیا کہ بھارت کو پاکستان کے ساتھ تناؤ بڑھانے سے روکنے میں اپنا کردار ادا کریں۔

سعودی ولی عہد شہزادہ محمد بن سلمان کو پاکستانی وزیر اعظم عمران خان کا فون آیا (فوٹو اے ایف پی)

اسی طرح پانچ  اگست 2019 کو جب انڈین حکومت نے کشمیر کی آئینی خود مختاری کے خاتمے کا اعلان کیا، تو سعودی ولی عہد شہزادہ محمد بن سلمان کو پاکستانی وزیر اعظم عمران خان کا فون آیا، سرکاری سعودی پریس ایجنسی کے مطابق، اس رابطے میں خطے میں ہونے والی پیشرفت، اور کوششوں پر تبادلہ خیال کیا گیا، اور عمران خان نے خطے میں کشمیر کی تازہ ترین صورتحال کے بارے میں بتایا۔
 اگست 2019 میں سعودی وزارت خارجہ نے جموں و کشمیر کے لیے خود مختاری کی ضمانت دینے والے آئین کے آرٹیکل 370 کو منسوخ کرنے کے ہندوستان کے فیصلے پر تبصرہ کیا اور خطے کی صورتحال میں ہونے والی پیشرفت کے بارے میں اپنی تشویش کا اظہار کیا اور خطے کے باشندوں کے مفادات کو مدنظر رکھنے پر زور دیا۔
گزشتہ سال ستمبر میں نئی دہلی اور اسلام آباد کے مابین تناؤ کی ایک نئی لہر کے بعد، سعودی عرب کے وزیر مملکت برائے امور خارجہ، عادل الجبیر، اور متحدہ عرب امارات کے وزیر خارجہ، ہندوستان اور پاکستان کے مابین تنازعہ پر قابو پانے کے لیے اسلام آباد گئے تھے، اور ایک روزہ دورے کے دوران دونوں وزرا نے پاکستانی وزیر اعظم عمران خان اور وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی اور پاک فوج کے کمانڈر جنرل قمر جاوید باجوہ، اور دیگر پاکستانی عہدیداران سے ملاقات کی۔
اس سے قبل شاہ محمود قریشی نے ٹوئٹر پر اپنے آفیشل اکاؤنٹ پر ٹویٹ کیا تھا کہ الجبیر اور عبداللہ بن زاید اسلام آباد پہنچ رہے ہیں تاکہ کشمیر کی خطرناک صورتحال پر تبادلہ خیال کیا جاسکے۔
پاکستانی وزارت عظمی نے ایک بیان میں کہا کہ دونوں وزرا نے ملاقات کے دوران پاکستان کے ساتھ سٹریٹجک تعلقات کی اہمیت پر زور دیا اور یہ کہ ان کا یہ دورہ دونوں ممالک کی قیادتوں کی رہنمائی میں ہوا، اور دونوں وزرا نے خطے میں امن و استحکام کو فروغ دینے اور برقرار رکھنے میں پاکستان کے کردار اور کوششوں پر بھی توجہ مبذول کروائی۔

سعودی عرب نے جموں و کشمیر کے معاملے کے بارے میں اضافی اقدامات اٹھائے (فوٹو اے ایف پی)

انہوں نے موجودہ چیلینجز کا مقابلہ کرنے، تناؤ کو کم کرنے، اور ایسے ماحول کو فروغ دینے کے عزم میں سعودی عرب اور متحدہ عرب امارات کے تسلسل کی تصدیق کی جہاں امن و سلامتی موجود ہو، اس ملاقات کے دوران، پاکستانی وزیر اعظم نے عالمی برادری پر زور دیا کہ وہ متنازعہ کشمیر کے علاقے پر نئی دہلی کے کنٹرول میں آنے والے حصے میں غیر قانونی اور جارحانہ اقدامات کو روکنے اور تبدیل کرنے کے لیے انڈیا  پر دباؤ ڈالے۔
اسی طرح سعودی عرب نے جموں و کشمیر کے معاملے کے بارے میں اضافی اقدامات اٹھائے ہیں، اور رواں سال کے آغاز میں سعودی عرب نے، شوری کونسل کے سپیکر کے ذریعے جموں و کشمیر کے معاملے پر بات کرنے کے لیے وابستہ اسلامی پارلیمنٹس کے سربراہان کی ایک کانفرنس منعقد کرنے کی تجویز پیش کی تھی۔
 سب اس طرح کے اقدام، بالخصوص پارلیمنٹ کے اثرات سے واقف ہیں کہ پارلیمنٹس مسلم قوموں کی نمائندگی کرتی ہیں، اور اس سے عوامی سطح کے ساتھ سرکاری سطح پر بھی ایک مقبول جہت ملتی ہے، اور یہ اسلامی سطح پر دیگر معاون اقدامات کی راہ ہموار کرسکتا ہے، تاہم اسلام آباد کی جانب سے اس تجویز کو مسترد کرنے پر ریاض حیرت زدہ تھا۔
رواں سال کے اگست کے مہینے میں پاکستانی وزیر اعظم نے الجزیرہ ٹی وی چینل کے ساتھ ایک انٹرویو میں پاکستان کی مدد کرنے میں سعودی عرب کے کردار کو تسلیم کیا، اور کہا کہ ’سعودی عرب نے نہ صرف یہ کہ انتہائی مشکل معاشی بحران میں ہماری مدد کی، بلکہ سعودی عرب نے ماضی میں بھی ہماری مدد کی جب پاکستان کو پریشانیوں کا سامنا تھا۔‘
انہوں نے مزید کہا کہ ’سعودی عرب ہمارے ان مشکل دنوں کا دوست ہے جن  کا ہم نے سامنا کیا، اور سعودی عرب میں تقریبا تیس الکھ پاکستانی کام کر رہے ہیں۔‘

او آئی سی نے کشمیری عوام کی حمایت میں اپنا کردار ادا کیا (فوٹو اے ایف پی)

او آئی سی کا کشمیر کے معاملے پر کردار
جہاں تک اسلامی تعاون تنظیم کی بات ہے یہ ادارہ ایک خود مختار اسلامی بین الااقوامی تنظیم ہے جس کی سربراہی وقتا فوقتا مختلف اسالمی ممالک کی شخصیات کرتے ہیں۔
 اگرچہ کہ وہ سعودی شہر جدہ میں واقع ہے، اس ادارے نے کشمیری عوام کی حمایت میں اپنا کردار ادا کیا، جیسا کہ اس ادارے نے 1994 میں جدہ میں جموں و کشمیر کے معاملے پر رابطہ کمیٹی قائم کی تھی، اور یہ کمیٹی متواتر اجلاس کرتی ہے، جس کا آخری اجلاس 22 جون 2020 کو منعقد ہوا تھا۔
اسلامی تعاون تنظیم کی جموں وکشمیر سے متعلق رابطہ کمیٹی نے وزرائے خارجہ کی سطح پر ایک مجازی اجلاس منعقد کیا۔ اس میں سعودی عرب، پاکستان، آذربائیجان، ترکی اور نائجر کے وزرائے خارجہ شریک ہوئے، اور یہ تمام اقدامات اس تنظیم کی سطح پر مسئلہ کشمیر کے منصفانہ حل کے لیے اٹھائے گئے ہیں۔
 مجموعی طور پر اگست 2019 سے تنظیم کی رابطہ کمیٹی نے مسئلہ کشمیر کے سلسلے میں تین اجلاس منعقد کیے، جن میں سے دو وزرائے خارجہ کی سطح پر تھے، اور کشمیری عوام کے مقصد کی حمایت میں سخت بیانات جاری کیے گئے تھے۔

شیئر: